• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گھومنا،پھرنا محال، سوال ایک ہی، ہر سوالی کو جواب اپنی مرضی کا چاہئے۔ کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا، چند دنوں میں فیصلہ بھی آ جائے گا۔ سیاستدانوں کے کرتوت مشکوک، میری وجہ نزاع یہی۔ غرض عرض ہے، ترقی کی جانب اٹھتا، بڑھتا، پھیلتا پھولتا وطن، ہر بار سیاسی بحران کی گرفت میں کیوں؟
آئین پاکستان عام آدمی کے لیے ناقابل فہم دستاویز کا درجہ اختیار کر چکا۔ ہمارے ہاں قانونی و آئینی موشگافیاں و پیچیدگیاں جیسی اصلاحات پاسبان آئین نے رائج کر رکھی ہیں۔ عام آدمی کے لیے لاینحل، قانونی گتھیاں سلجھانا وکلا و ججز تک محدود ہو چکا۔ جہاں جائیں، پاناما کیس بارے رائے زنی اور ممکنہ فیصلہ بارے استفسار معمول بن چکا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں فیصلہ محفوظ، پبلک میں روزانہ کی بنیاد پر جاری ہو رہا ہے۔ چند دن پہلے جیو ٹی وی کےپروگرام میں عبداللہ سلطان اور ہما امیر شاہ بضد تھے کہ فیصلہ سناتا جائوں۔ عرض کیا کہ کرسٹل پیالہ نہ جادو کی چھڑی، کیا بتائوں؟ البتہ یہ گارنٹی دیتا ہوں کہ سپریم کورٹ آئین اور ریاستی قوانین کے دائرے میں رہتے اپنی طاقت اور غیر جانبداری کے استعمال کا پابند ہے۔ حدود و قیود، آئین اور قانون سے باہر ممکن نہیں۔
الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ میں نواز شریف اور عمران خان کے خلاف کرپشن، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، اثاثے چھپانے جیسے مقدمات درج ہیں۔ چند دن پہلے، ایسے ہی ایک کیس میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو تکنیکی بنیادوں پر بری کیا۔ آئین اور قانون کا تقاضا پورا کیا۔ ایسے اعتراضات کاغذات جمع کروانے پر لگانے تھے۔ عمران خان کا عدالتی موقف بھی یہی کہ ن لیگ اپنا حق کھو چکی، درخواستیں قابلِ سماعت نہیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگایا الزامات پر بحث نہ ہو۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بھی یہی، تکنیکی بنیادوں پر اسپیکر کا بھجوایا ریفرنس خارج کر دیا۔
2007میں ڈاکٹر شیر افگن نیازی نے غلاظت بھرا ایسا ایک ریفرنس عمران خان کے خلاف دائر کیا۔ بمطابق آرٹیکل62/63، عمران خان کو نااہل کرنے کی درخواست دائر کی۔ الیکشن کمیشن نے ڈاکٹر شیر افگن کی درخواست کو تکنیکی بنیادوں پر خارج کر دیا۔ ہر دو درخواستوں میں الزامات زیر بحث نہ رہے۔ چند دن پہلے، عمران خان کا پریس کانفرنس میں تاثر دینا کہ ’’عدالت نے میرے خلاف الزامات کو لغو قرار دیا‘‘،ہرگز مناسب نہ تھا۔
بعینہٖ ملتی جلتی درخواست عمران خان نے نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کر رکھی ہے۔ نواز شریف نے تکنیکی سقم کو بنیاد نہیں بنایا۔ دائر درخواست میں وزیراعظم کو 62/63کے تحت نااہل کرنے کی استدعا کی ہے اور آرٹیکل 10(A) سے استثنا دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ آرٹیکل 10(A) ملت کے ہر فرد کو فیئر ٹرائل کی گارنٹی دیتا ہے۔ یقیناً سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے۔ آرٹیکل، 10(A) کو نظر انداز رکھ کر ہی براہ راست سزا دی جا سکتی ہے۔ آئین پاکستان 10(A) بنیادی حقوق کا حصہ، جس کو بائی پاس کرنا ناممکن۔
عمران خان نے پٹیشن پر دستخط ضرور کیے اس کو پڑھا نہیں۔ درخواست کی پہلی سطر، میں عمران خان کے والد کا غلط نام درج ہے۔ عمران احمد خان نیازی (احمد اور نیازی کے اضافے کی بھی ایک تاریخ، کسی اور موقع کے لیے موخر) ولد اکرام احمد خان نیازی لکھا ہے۔ عمران خان کو یقیناً اپنے والد کا نام ازبر ہے، اگر پٹیشن پڑھ کر دستخط کرتے تو والد گرامی کا نام درست رہتا۔
آئین پاکستان میں وزیراعظم کو ہٹانے کا طریقہ کار درج ہے۔ عمران خان کی درخواست میں یوسف رضا گیلانی کی سزا کا بار بار حوالہ دیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کو سزا، توہین عدالت یعنی سپریم کورٹ سے تعاون نہ کرنے پر ملی۔ اسمبلی کی تقریر، یقیناً نوازشریف کی بدترین اور بدہیت سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ عمران خان کی درخواست کا ایک بنیادی نقطہ یہ بھی کہ نوازشریف نے تقریر میں جھوٹ کا سہارا لیا۔ تقریر کی چھان بین سے جھوٹ ڈھونڈنا دور کی کوڑی ہی رہے گا۔ البتہ وزیر اعظم کا حقائق اور سچ سے چشم پوشی کرنا کوئی مستحسن کام نہیں تھا۔ اس تقریر بنا دوسری استدعا نواز شریف پر آرٹیکل 62/63کے اطلاق کی تھی۔ کہ وزیراعظم ’’صادق اور امین‘‘ نہیں رہے۔
بفرض محال، جھوٹ بھی بولا، آرٹیکل 66اور69اسمبلی میں کیے گئے ہر عمل کو عدالت میں زیر بحث لانے کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ہے۔ جناب اکرم شیخ صاحب نے جب جواب دعویٰ داخل کیا تو سپریم کورٹ نے عمران خان کے وکیل کو کہا، ’’آپ کو تین باتیں غلط ثابت کرنا ہے، 1۔فلیٹس کی خریداری 2006سے پہلے ہوئی 2۔مریم وظیفہ یاب مالک ہیں 3۔جمع کرائی گئی منی ٹریل فراڈ ہے‘‘۔ ساتھ ہی نواز شریف کے وکیل کو نتھی رکھا کہ ’’چونکہ آپ نے کاغذات جمع کرائے ہیں، ثابت کرنا آپ کی بھی ذمہ داری ہے ‘‘۔ آخری دن، 23فروری کو سپریم کورٹ نے اپنے اختتامی ریمارکس میں تاسف کا اظہار کیا کہ ’’دونوں فریق اپنا اپنا موقف ثابت کرنے میں ناکام رہے‘‘۔ سوال یہ کہ امکانی فیصلہ کیا آ سکتا ہے؟ نواز شریف فیملی کی طرف سے داخل کرائی گئیں دستاویزات، شاید قانونی ضرورتیں پوری کر جائیں، یقیناً عقل کے بہت سارے خانوں میں فٹ نہیں بیٹھتیں۔ ایک موقع پربنچ نے بھی یہی کچھ اجاگر کیا، ’’منی ٹریل میں بہت سارے صفحات غائب ہیں‘‘۔ بفرض محال سپریم کورٹ کو نواز شریف اینڈ فیملی کی پیش کردہ دستاویزات میں خاطر خواہ سقم اور خلا نظر آئے تو امکان موجود کہ کمیشن کے علاوہ چارہ نہ رہے۔ ایسے امکانات قوی کہ مریم کی ٹرسٹ ڈیڈ مسترد ہو جائے، براہ راست نقصان کیپٹن صفدر کو ہو گا کہ اثاثوں میں ذکر نہیں۔ عدالتی عدم اطمینان کی صورت میں نواز شریف صاحب کے صاحبزادگان کے بارے بھی سخت جملے آ سکتے ہیں۔ حسن، حسین ملکی سیاست سے باہر، خاطر خواہ نقصان نہ ہو گا۔
جبکہ اخلاقی شکست ہمارے ہاں موضوع ہے نہیں کہ کچھ فرق نہیں ان ساروں میں۔ جب تک کوئی ایک فریق سراج الحق جیسا نہ ہو، عدالتی ریمارکس ہی کہ ’’62/63 پر سراج الحق کے علاوہ کوئی بھی پورا نہ اترے‘‘۔ حدبیبہ پیپر ملز کا کیس بھی دوبارہ کھل سکتا ہے۔ چیئرمین نیب پر توہین عدالت لاگو ہونا یقینی ہے۔ نواز شریف بظاہر پاناما Tractions سے بری الذمہ قرار دیئے جائیں۔ عمران خان کی سیاست کی اساس دھرنا، مرنا، احتجاج،، الیکشن2018کے لئے کارکنوں اور ساتھیوں کو گرمانے، مصروف رکھنے اور جوش دلانے کا مواد، خان صاحب کے لئے بھی بدرجہ اتم موجود رہے گا۔



.
تازہ ترین