• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد کا امریکی آپریشن پاکستان کی تاریخ کا وہ بدنما داغ ہے جو ہمیں اپنی کوتاہیوں کی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا۔ یہ وہ زخم ہے جو شاید کبھی مندمل نہ ہوسکے اور اس سانحہ پر جب بھی کوئی خبر سامنے آتی ہے تو ہمارے زخم پھر سے تازہ ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں لکھے گئے کالم نے ایبٹ آباد آپریشن کے زخم ایک بار پھر تازہ کردیئے ہیں۔ کالم میں حسین حقانی نے دعویٰ کیا کہ امریکہ میں اُن کی بطور سفیر تعیناتی کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی تعاون رہا اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر انحصار کئے بغیر امریکہ کو انتہائی مطلوب اسامہ بن لادن کے خاتمے میں مدد ملی۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ امریکہ نے اپنے انٹیلی جنس اہلکاروں کو پاکستان میں تعینات کرنے کیلئے اُن سے مدد مانگی تھی جس کے بعد پی پی حکومت کی ایماء پر سی آئی اے اہلکاروں کو پاکستان میں اسامہ بن لادن کا کھوج لگانے کیلئے بڑی تعداد میں ویزے جاری کئے گئے۔ ان انکشافات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے پاکستان کو اس لئے اعتماد میں نہیں لیا کہ کہیں اس کی اطلاع اسامہ بن لادن کو نہ ہوجائے اور وہ فرار ہونے کی کوشش کرے کیونکہ امریکہ یہ سمجھتا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ طالبان اور القاعدہ سے ہمدردی رکھتی ہے۔
حسین حقانی کے کالم سے پاکستان میں ایک نئی بحث نے جنم لیا اور حکومت و اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے پر الزامات لگانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے حسین حقانی کے بیان کو قومی سلامتی کے منافی قرار دیا جس سے ملکی سلامتی مجروح ہوئی۔ انہوں نے ایبٹ آباد آپریشن کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ امریکی آپریشن کی معلومات کس کس کو تھیں۔ خواجہ آصف نے اپوزیشن پر الزام عائد کیا کہ سابق دور حکومت میں امریکہ میں متعین پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے سی آئی اے اہلکاروں کو جانچ پڑتال کئے بغیر ہزاروں ویزے جاری کئے جس میں اس وقت کے وزیر داخلہ بھی برابر کے شریک رہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ حسین حقانی کا بیان ملک سے غداری کے مترادف ہے جس پر کمیشن بننا چاہئے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ اسامہ بن لادن کس طرح پاکستان آیا اور کن لوگوں نے ملک میں دہشت گردی کو پروان چڑھایا۔
ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن غیر معمولی نوعیت کا واقعہ تھا جو عالمی سطح پر پاکستان کی سبکی کا سبب بنا اور اتنے سال گزرنے کے بعد آج بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ آپریشن کے ایک ہفتے بعد میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آیا جس میں پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایبٹ آباد کے امریکی آپریشن کے بعد حسین حقانی کی ہدایت پر صدر آصف زرداری سے منسوب ایک خط امریکہ کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین ایڈمرل مائیک مولن کو پہنچایا تھا جس میں فوج اور خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی برطرفی کیلئے امریکہ سے مدد طلب کی گئی تھی۔ میمو گیٹ اسکینڈل نے پاکستان کی سیاست میں بھونچال پیدا کردیا تھا جس کے بعد حسین حقانی کو پاکستان طلب کرکے استعفیٰ لیا گیا جبکہ اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے 3 رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا جس میں کئی لوگوں نے اپنے بیانات قلمبند کرائے مگر بعد میں حسین حقانی کو بیرون ملک جانے دیا گیا اور یہ معاملہ دب گیا۔ ایبٹ آباد آپریشن اور سی آئی اے اہلکاروں کو ویزے جاری کرنے کے حوالے سے گزشتہ کئی سالوں سے امریکہ میں مقیم حسین حقانی کے وقتاً فوقتاً بیانات سامنے آرہے ہیں جو پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی، ایبٹ آباد آپریشن میں ہلاکت اور اسامہ کی لاش امریکیوں کا اپنے ہمراہ لے جانا یقینا پاکستان اور پاکستان کی ایجنسیوں کیلئے تضحیک کا سبب بنا تھا جس کے بعد ہمیں اپنی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہنا پڑا کہ ’’اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے ہم واقف نہیں تھے، دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بھی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں جس کی مثال نائن الیون کا واقعہ ہے۔‘‘ شاید دنیا نے ہماری وضاحت تسلیم نہیں کی اور یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ لاعلم تھی۔ آج ملک میں ایک طرف پاناما کیس چل رہا ہے تو دوسری طرف میمو گیٹ اسکینڈل کا پنڈورا باکس دوبارہ سے کھولنے کی باتیں کی جارہی ہیں تاکہ ملک کو غیر مستحکم کیا جاسکے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کی تحقیقات کیلئے جو کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، آج تک کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی جبکہ معاملے کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا مگر یہ معاملہ ایک بار پھر پاکستان کی سیاست پر چھایا ہوا ہے۔
موجودہ عالمی صورتحال میں جب ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے بارے میں کوئی پالیسی واضح کرنے اور افغانستان میں امریکی اہداف کے حصول کا طریقہ کار تلاش کرنے کی کوششوں میں ہے، حسین حقانی کے ملکی سلامتی کے خلاف لکھے گئے کالم پاکستان کیلئے مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں جس پر محض سیاسی بیانات دے کر خاموش ہوجانا ٹھیک نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی اہلکاروں کیلئے ویزے جاری کرنے کے معاملے پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل دے کر جلد از جلد رپورٹ منظر عام پر لائی جائے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیںاور ذمہ داروں کا تعین بھی ہوسکے۔ ماضی کے تلخ تجربات اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ جب بھی کسی معاملے کو دبانا ہوتا ہے تو اس پر کمیشن تشکیل دے دیا جاتا ہے اور پھر کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آتی۔ حسین حقانی کو پاکستان میں امریکی ایجنٹ تصور کیا جاتا ہے مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکہ میں سفیر کی حیثیت سے تعیناتی سے قبل پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں نے کس طرح انہیں کلیئرنس دی اور امریکہ میں تعیناتی کے بعد جب وہ ملکی مفادات کے خلاف کام کررہے تھے تو اس وقت کے وزیر خارجہ نے انہیں ایسا کرنے سے کیوں نہ روکا اور روکنے میں ناکامی پر اپنے عہدے سے مستعفی کیوں نہ ہوئے؟
ہر آنے والی حکومت بیرون ملک اپنے چہیتوں کو سفیر متعین کرتی ہے مگر حکومت کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ بیرون ملک اُن کے متعین کئے گئے سفیر ملکی مفادات کے خلاف کام تو نہیں کررہے اور اگر وہ ایسا کررہے ہوں تو اس کی ذمہ داری حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے لہٰذا ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والے سفیر کے ساتھ اُنہیں متعین کرنے والی حکومت کو بھی کٹہرے میں لایا جانا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی بھی حکومت حسین حقانی جیسے غداروں کو بیرون ملک سفیر متعین کرنے سے گریز کرے۔



.
تازہ ترین