• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے کچھ ایام واشنگٹن میں گزرے۔ امریکہ میں نئے پاکستانی سفیر اپنی وزارت خارجہ کے سیکرٹری کے عہدے کی ذمہ داریوں کے بعد واشنگٹن کے تبدیل شدہ اور نئے چیلنجز کے حامل ماحول میں ٹرمپ صدارت کے دور میں پاک۔ امریکہ تعلقات کی سفارتی ذمہ داریاں لے کر واشنگٹن آئے ہیں۔ وزارت خارجہ کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں لہٰذا صحافیوں کے تیز و تند سوالات کے تحمل اور تفصیل سے جواب دینے کا مزاج بھی رکھتےہیں۔ جہاں باہمی اعتماد کا ماحول میسر ہو وہاں ’’بیک گرائونڈ بریفنگ‘‘ میں پیچیدہ ڈپلومیٹک مسائل اور فارن پالیسی کو ماہرانہ اندازمیں مسئلے کی جڑ کی نشاندہی بھی کردیتے ہیں۔ لہٰذا واشنگٹن پہنچتے ہی انہوں نے پاکستانی سفارتخانےمیں پاکستانی میڈیا کے صحافیوں سے ملاقات اور سوال و جواب کی نشست کا انتظام کیا ان کا مشن اور دیگر تفصیلات سننے اور پوچھنے کا موقع ملا۔ سالہا سال تک اقوام متحدہ، امریکی محکمہ خارجہ اور ڈپلومیسی کے بارے میں کوریج کرنے کے باعث ’’آن دی ریکارڈ‘‘ انٹرویو سے زیادہ ’’بیک گرائونڈ‘‘ بریفنگ کے مفید اور ضروری ہونے کا قائل ہوچکا ہوں لہٰذا 18؍مارچ کو واشنگٹن میں ’’مسافر‘‘ ہونے کا فائدہ اٹھایا اور تعطیل کے روز ملاقات میں پہلے پاک۔ بھارت تعلقات، افغانستان، پاک۔ چین۔ روس تعلقات کے نئے ’’ٹرائی اینگل‘‘ یعنی تعلقات کی نئی ’’تثلیث‘‘ پاک۔ امریکہ تعلقات کے بارے میں بیک گرائونڈ بریفنگ میں خاصے پہلو سمجھنے کو ملے او ’’جیو/ جنگ‘‘ کے لئے خصوصی انٹرویو بھی ریکارڈ کروایا۔ گوکہ ابھی تک صدر ٹرمپ کی انتظامیہ جنوبی ایشیا کے خطے کے لئے امریکی پالیسی کی سمت اور ترجیحات کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائی لیکن یہ واضح نظر آرہا ہے کہ سابق صدر اوباما کی جنوبی ایشیا پالیسی کی ترجیحات ہی چند تبدیلیوں کے ساتھ ہی جاری رہنے کا امکان ہے۔ البتہ پاکستان۔ روس اور چین کے تعلقات کی ابھرتی ہوئی ’’تثلیث‘‘ یعنی ’’ٹرائی اینگل‘‘ کے بارے میں امریکی پالیسی سازوں کی توجہ اور دانشوروں کی تحقیق و تجزیہ کا موضوع اس لئے ہے کہ خطے میں ماضی سے ہٹ کر سیکورٹی اور تعاون کی تلاش کا ایک نیا تجرباتی اتحاد ابھرتا نظر آرہا ہے۔ روس۔ امریکہ تعلقات کی موجودہ نوعیت اور امریکہ کی داخلی سیاست میں روس کے ملوث ہونے کے تناظر میں یہ اور بھی اہم موضوع ہے کہ امریکہ کا سابق اتحادی اب اپنی سیکورٹی اور ترقی کی تلاش میں روس کے ساتھ بھی قربتیں بڑھا رہا ہے۔ جی ہاں! کمیونسٹ روس کے خلاف امریکی اتحادی پاکستان میں خفیہ بڈھ بیر فضائی بیس کا استعمال، افغانستان میں ضیاء الحق کے دور میں سوویت یونین کے خلاف جہاد میں پاکستان کا فرنٹ لائن رول اور روس کی شکست تک یہ رول جاری رہا۔ بھارت سے روس کے تعلقات اور ترجیحات کی ایک طویل تاریخ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بھارتی جارحیت کے دور میں روس کا کردار۔ بھارت کو روسی اسلحے کی فروخت اور تجارت کا حجم بھی حقیقت ہے۔ ان تمام حقائق کے باوجود ماضی کے ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کے رول کو نظرانداز کرکے نیا علاقائی اتحاد قائم کرنے کی کوشش یقیناً بڑا اہم تجربہ بھی ہے اور موجودہ عالمی صورت حال میں دلچسپی کا مرکز بھی جس کی ایک مثال کچھ یوں ہے۔
20؍مارچ کی شام امریکی تھنک ٹینک وڈرو ولسن سینٹر کے زیر اہتمام ایک مذاکرہ ہوا جس کا عنوان تھا ’’پاکستان چائنا روس تعلقات۔ ایک ابھرتا ہوا کوالیشن‘‘ مذاکرے میں شریک دانشور تمام دانشوروں نے پاکستان۔ چین اور روس کے اس نئے ابھرتے ہوئے اشتراک کے بارے میں فرداً فرداً اپنے خیالات کا اظہار کیا جس میں اسے اہم عالمی اور علاقائی پیش رفت سے لے کر محتاط اور خدشات کے ساتھ عملی نتیجے کے انتظار تک کچھ نہ کہنے کے رویہ اور ایسے کسی تعاونی تثلیث کو ناقابل عمل خیال اور متعدد رکاوٹوں کی نشاندہی کرکے بے کار کوشش قرار دیا گیا۔ اس قدر مختلف تجزیاتی خیالات کے باوجود ایک بات مشترک تھی کہ چین اور روس کے درمیان اشتراک کے تیسرے فیکٹر پاکستان کا یہ رول اور رویہ بہت اہم ہے جو وہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان لنک کی صورت میں شریک ہوکر اپنی سیکورٹی کی تلاش اور معیشت کی بہتری کے لئے کر رہا ہے۔ پاکستان کے اس رویہ کے بارے میں وجوہات بیان کرتے ہوئے جارج ٹائون یونیورسٹی کے اسکول آف فارن سروس کے ڈاکٹر اینڈریو کوچنز کا کہنا تھا کہ پاکستان کا رول اہم ہے اور بھارت۔ امریکہ تعلقات میں قربت اور اپنے اردگرد کے جغرافیائی ماحول میں اپنی سیکورٹی کے متبادل انتظامات کی ضرورت نے پاکستان کو اس جانب مائل کیا ہے افغان مسئلے کے حل کی متبادل راہوں کی تلاش بھی ہے اور طالبان سے ڈائیلاگ کے ذریعے سیاسی حل کے متبادل ذرائع اور غیر امریکی تجاویز کا نیا علاقائی پلیٹ فارم بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایک دانشور نے پاکستان کے شمالی علاقے میں 70روسی اور 130پاکستانی خصوصی دستوں کی مشترکہ مشقوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روس نے بھارت کی خصوصی درخواست کے باوجود ان مشقوں کو روکنے سے واضح انکار کرکے یہ سگنل دیا کہ وہ اس نئے اشتراک کو کیا اہمیت دیتا ہے؟ کسی بھی ملک کو اپنا اسلحہ بیچنے کی روسی خواہش، چینی معیشت کی مزید ترقی و توسیع کی خواہش اور گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک کے منصوبوں میں دیگر ممالک کی شرکت کی پاکستانی خواہش اور کوشش کو پاکستان چین اور روس اشتراک کے اسباب و محرکات بیان کئے۔ لیکن ناقد دانشور نے گوادر کی بندرگاہ میں کافی گہرائی نہ ہونے کے باعث ایک چینی بحری جہاز کے پھنس جانے کے ایک واقعہ کو جواز بناکر پاکستان میں کرپشن، کمزور انفرا اسٹرکچر اور سیکورٹی کے ناکافی انتظامات کا ذکر کرکے سی پیک کے منصوبے کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہارکیا اور یہ بھی کہا کہ روس اس منصوبے میں نہ تو رقم خرچ کرے گا اور نہ ہی وہ اپنے شمال میں پائپ لائن کی تعمیر کرے گا بلکہ بھارت سے اپنے طویل اور گہرے تعلقات کے باعث پاکستان سے محتاط اشتراک کرے گا۔ اسی لئے مارچ 2016ء میں نواز شریف کی پیوٹن کو دورہ پاکستان کی دعوت کے جواب میں روس نے ’’ناکافی ایجنڈا‘‘ کا جواز کے دے کر انکار کردیا۔ اسی طرح طالبان، افغان مسئلے کے حل کی خواہش کو چین، روس اور پاکستان کی مشترکہ خواہش کو اس ’’ٹرائی اینگل‘‘ کی بنیاد بناکر اس تین ملکی تعاون کے امکانات میں بھی امریکی ایجنڈے کا پانی بھی دے دیا گیا۔ مذاکرے کے بعد امریکی دانشوروں کے اس پینل کے ہر رکن سے انفرادی طور پر مجھے ’’آن دی ریکارڈ‘‘ تبادلہ خیال کا بھی موقع ملا سوال و جواب بھی کئے۔ مختصراً عرض یہ ہےکہ پاکستان نے حالات اور ماضی کے تلخ تجربات کے بعد صرف امریکی اتحاد و امداد پر انحصار کی پالیسی ترک کرکے اپنے تحفظ اور مفادات کے حصول کے لئے اپنے جغرافیائی محل وقوع میں ہی لنگر انداز ہونے کی حقیقی اور عملی پالیسی کو پہلی بار اختیارکرنے کی کوشش کی ہے۔ گوکہ صدرٹرمپ کی حکومت کی جنوبی ایشیا پالیسی کی سمت اور ترجیحات کے بارے میں کوئی بھی امریکی ماہر یا دانشور کچھ بھی کہنے سے قاصر ہے لیکن ایک بات واضح نظر آرہی ہے کہ روس ،چین پاکستان اشتراک کے فارمولے پر امریکہ برہم ہے۔ امریکہ اور روس تعلقات میں امریکہ کے عوامی محاذ پر تلخی اور پابندیوں کے اس ماحول میں اپنے اتحادی پاکستان کو روس سے قربتوں کی کوشش کیسے پسند آئے گی؟ تاہم اس تثلیث تعلقات کو متوازن پالیسی کے جواز پر عملی شکل دینا مفید حکمت عملی ہے۔


.
تازہ ترین