• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی میڈیا کئی بار پہلے بھی جاپان کے کئی شہروں کو دنیا کے مہنگے ترین شہر یا کبھی ترقی یافتہ اور کبھی جدید ترین شہر قرار دے چکا ہے، جبکہ حال ہی میں عالمی نشریاتی ادارے نے بہت سے اعداد و شمار کے ساتھ اب جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو کو دنیا کا ایماندار ترین شہر قرار دیا ہے، جاپان میں مقیم ہر جاپانی اور ہر غیر ملکی جاپان سے اپنے تعلق پر اور جاپانی عوام اپنے جاپانی ہونے پر بلاوجہ نازاں نہیں ہوتے، بلکہ اس کی بہت سی وجوہات ہیں ،جاپان میں ایک ذمہ دار اور ایماندار معاشرے کے قیام میں ہر شخص اپنی حد میں رہتے ہوئے کردار ادا کرتا ہے، جاپان میں بچوں کی پرورش میں کمی تو واقعی ایک توجہ طلب مسئلہ ہے تاہم بچوں کی تربیت میں والدین کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے جہاں شروع سے ہی بچوں کو اٹھنے بیٹھنے ،بڑوں کا احترام کرنے ،چھوٹوں کے ساتھ ہمدرد ری کرنے، وقت سے اٹھنے اور وقت پر سونے ،روزانہ غسل سمیت اپنی چیزوں کا خیال رکھنے اور دوسروں کی چیزوں پر دھیان نہ دینے سمیت بہت سی ایسی باتیں اسکول کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی گھروں میں سکھادی جاتی ہیں تاکہ بچے کی اسکول میں بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہو جس کے بعد اگلے مرحلے میں تعلیم و تربیت کی ذمہ داری والدین کے ساتھ ساتھ اسکول اور اساتذہ پر بھی عائد ہوجاتی ہے ،اسکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے جبکہ بچے کے کردار کو سنوارنے میں اساتذہ کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے، بڑے سے بڑے اسکول میں ہر کلاس کے بچے اپنی کلاس کی صفائی کے ذمہ دار ہوتے ہیں ،بچوں سے اسکو ل کی میزیں، دیواریں اور دروازے بھی صاف کرائے جاتے ہیں تاکہ بچوں میں صفائی کی عادت پیدا ہوسکے ،گھروں میں باہر کے جوتے اور چپلیں لے جانے کا رواج نہیں تاکہ باہر سے کسی طرح کی گندگی گھر میں نہ آسکے، سال کے آخر میں پورا گھر مل کر اپنے گھر کو اچھی طرح صاف کرتا ہے جبکہ دفاتر میں کام کرنے والے مالکان سے لیکر ملازمین تک دروازے ،کھڑکیاں، فرش ،میزیں اور أیئرکنڈیشنز تک خود صاف کرتے ہیں تاکہ نئے سال کو اچھے طریقے سے خوش آمدید کیا جاسکے ،جاپانی عوام کا ماننا ہے کہ صفائی خوش قسمتی اور خوش نصیبی لیکر آتی ہے، اسی طرح جاپانی قوم کی تربیت میں یہ بات شامل کی جاتی ہے کہ اپنی محنت سے کمایا جانے والے پیسے پر ہی ان کا حق ہے جبکہ چوری ،چکاری اور باہر سے ملنے والی رقم پر ان کا حق نہیں ہے اور یہ رقم فوری طور پر پولیس کے حوالے کی جانی چاہئے ،یہی وجہ ہے کہ کم عمر کے بچے سے لیکر بوڑھے افراد تک زمین پرپڑی رقم، یا ٹرین ،بس ،پبلک ٹوائلٹ یا ریستوران سے ملنے والی انجانی اشیاء یا رقم پورے اعتماد کے ساتھ پولیس کے حوالے کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں تاکہ ان کا اصل مالک واپس لے سکے، جبکہ پولیس کے محکمے کی ایماندار ی کا یہ عالم ہے کہ عام شہری اپنے تمام مسائل کا حل پولیس کو ہی سمجھتا ہے، ہر جاپانی شہری کے پاس پولیس کا ٹول فری نمبر موجود ہوتا ہے جسے جاپانی زبان میں ہکتو بان بھی کہاجاتا ہے اس نمبر پر کال کرنے کے چند منٹوں میں پولیس آپ کے پاس ہوتی ہے اور کسی بھی طرح کے مسائل کے حل کے لئے تیار رہتی ہے ،اکثر دیکھا گیا ہے کہ پولیس اہلکار سڑکوں یا ریلوے اسٹیشن پر تیز ہوا سے گرنے والی سائیکلیں اٹھا اٹھا کر رکھ رہے ہوتے ہیں، جبکہ دوسری جانب مجرموں اور قانون توڑنے والوں پر پولیس کاخوف بھی اتنا ہی ہوتا ہے کہ صرف پولیس کار یا موٹر سائیکل کا سائرن سن کر ہی قانون شکن کی سانسیں اور ٹانگیں شل ہوجاتی ہیں ،ایسا نہیں ہے کہ جاپان میں جرائم نہیں ہوتے یا غیر قانونی کام نہیں ہوتے لیکن نا ہونے کے برابر ہوتے ہیں اگر ان کا عالمی سطح پر موازنہ کیا جائے توبھی یہاں جرائم کی شرح انتہائی کم ہے ،حال ہی میں عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں تقریباََ بتیس ملین ڈالر کے برابر کی لاوارث جاپانی رقم یعنی سواتین ارب ین کی رقم جو پاکستانی روپے کے مقابلے میں بھی تین ارب روپے کے برابر ہی بنتی ہے جاپانی عوام نے پولیس تک پہنچادی، یہ رقم یہاں کے مقامی لوگ یا تو بسوں میں ،یا ریلوں میں یا ریستورانوں میں یا ا یئرپورٹس پر بھول کے جاچکے تھے جنھیں جاپانی شہریوں نے دیکھا اور اس لاوارث رقم کو جاپانی پولیس تک پہنچادیا، جاپانی قوانین کے مطابق لاوارث رقم پولیس تک پہنچانے والا پانچ سے بیس فیصد بطور انعام رقم کا حقدار ہوتا ہے جبکہ تین سے چھ ماہ تک اصل مالک نہ ملنے کی صورت میں ملنے والی آدھی رقم پہنچانے والے کو دی جاسکتی ہے ،جاپانی قوم کی ایمانداری کے حوالے سے عالمی نشریاتی ادارے کی حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ تو پولیس کے ان اعدادوشمار پر مبنی ہے جو پولیس نے سالانہ طورپر جاری کئے ہیں تاہم جاپان میں گزارے گئے گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران نہ صرف ذاتی طور پر بلکہ کئی لوگوں کے ذاتی تجربات کی بناء پر ایسے کئی واقعات سے آگاہی ہوئی ہے جس سے واقعی جاپانی عوام کے دنیا کے ایماندار افراد میں شمار کئے جانے پر یقین بڑھ جاتا ہے ۔
اب سے پندرہ برس قبل یعنی جاپان آمد کے چند ماہ بعد ہی دفتر سے ملنے والا قیمتی لیپ ٹاپ اور اسی بیگ میں موجود کئی لاکھ ین کی رقم دوران سفر اپنی سیٹ کے اوپری حصے میں رکھنے کے بعد اپنے مقررہ اسٹاپ پر وہ بیگ لئے بغیر ہی اترگیا، ٹرین کے جانے کے کئی گھنٹے بعدخیال آیا کہ بیگ بمعہ لیپ ٹاپ اور رقم ٹرین میں رہ گیا ہے ،پندرہ برس قبل جاپان کے نظام کے حوالے سے بہت زیادہ معلومات بھی نہ تھیں زبان بھی اتنی نہیں آتی تھی لہذا کئی دوستوں کی مدد سے ریلوے انتظامیہ کو معاملے سے آگاہ کیا ،ریلوے حکام نے ٹرین کی وقت کے حوالے سے معلومات لیں ٹرین کے آخری اسٹیشن پر موجود لاسٹ اینڈ فائونڈ کے شعبے سے معلومات کرکے یہ اطلاع دی کہ ایک لیپ ٹاپ بیگ ملا ہے لہٰذا ریلوے حکام کو بیگ کے حوالے سے تمام معلومات فراہم کردی گئیں جنھوں نے اس کی تصدیق کے بعد بیگ اپنے پاس منگوالیا اور اگلے روز وہ میرے پاس تھا جس میں تمام چیزیں موجود تھیں، اسی طرح کچھ عرصہ قبل پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں نے ٹوکیو میں واقع دنیا کی سب سے بڑی الیکٹرانک مارکیٹ اکھیا بارا سے خاصے مہنگے کیمرے اور دیگر الیکٹرانک اشیاء کی شاپنگ کی اور اس کے بعد اسی علاقے میں واقع ایک جاپانی ریستوران میں کھانا کھانے بیٹھے، کھانے کے بعد وہ اپنا تمام سامان بھول کرایک گھنٹے کی مسافت طے کر اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے جہاں اچانک خیال آیا کہ لاکھوں روپے کی الیکٹرانک اشیا تو مذکورہ ریستوران میں بھول آئے ہیں ،دن بارہ بجے بھولی جانے والی یہ اشیا شام چھ بجے تک اسی ریستوران کی اسی جگہ موجود تھیں کسی نے انھیں چھونے کی کوشش بھی نہ کی تھی، پاکستان سے آئے مہمان جاپانی عوام کی ایمانداری کے معترف ہوکر واپس گئے ،ایسے درجنوں واقعات ہیں جو عالمی نشریاتی ادارے کی اس رپورٹ جس میں ٹوکیو کو دنیا کا ایماندار ترین شہر قرار دیا گیا ہے کی تصدیق کرتے ہیں ،امید ہے کہ کبھی کسی اسلامی ملک کا دارالحکومت بھی اس اعزاز کا حقدارٹھہرے گا ۔



.
تازہ ترین