• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتیں، آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور،قومی اسمبلی میں 253حامی ،4 مخالف

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق 28ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل دو تہائی اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔آئینی ترمیم کے تحت دہشت گردی کے ٹرائل کیلئے قائم فوجی عدالتوں کی مدت میں دوسال کی توسیع کردی گئی، جس کا اطلاق 7؍ جنوری 2017ء ہوگا، 28ویں آئینی ترمیم کی 255ارکان نے حمایت اور 4نے مخالفت کی جبکہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت 253ارکان نے کی اور چار نے مخالفت کی ، جے یو آئی (ف) کے ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کیا، مخالفت کرنے والے ارکان میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنمامحمود اچکزئی، عبدالقہار خان، نسیمہ حفیظ پائنزئی اور آزاد رکن جمشید دستی نے مخالفت کی ، 28ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے پیش کیے، اسپیکرقومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے دونوں بل پر شق وارمنظوری لی جبکہ ایوان کی جانب سے پیش کی گئی چار ترامیم پر بھی ووٹنگ کرائی گئی جسکی ایوان نے کثرت رائے سے منظوری دی۔ مذکورہ بل آج سینیٹ میں پیش ہونگے۔ فوجی عدالتوں میں توسیع کے قانون میں پارلیمانی رہنما ئو ں کی مشاورت اور اتفاق سے چار ترامیم کوبھی قانون کا حصہ بنایا گیا ہے جنکے تحت گرفتار ملزم کا24 گھنٹے کے اندرریمانڈ اور گرفتاری کی وجوہات بتانا ہونگی ، قانون شہادت کے تحت ملزم کو مراعات حاصل ہونگی اور قانون شہادت 1984کااطلاق ہوگا، مذہب اور عقیدے کے غلط استعمال کو بھی دہشت گردی تصور کیا جائیگا اور ملزم اپنے مقدمے کی پیروی کیلئے پرائیویٹ وکیل کی خدمات حاصل کر سکے گا یا ریاست اسے قانونی دفاع میں مدد کریگی۔ آئینی ترامیم کے بل میں نعیمہ کشور ، صاحبزادہ طارق اللہ ، جمشید دستی اور ایس اے اقبال قادری کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم مسترد بھاری اکثریت سے مسترد کردی گئیں۔ بلوں پر ووٹنگ کے وقت وزیراعظم نواز شریف بھی ایوان میں موجود تھے۔ بلز پر ووٹنگ کیلئے ارکان اسمبلی کےارکان کو کھڑا ہونے کیلئے کہا گیا،سوائے چار ارکان کے تمام ایوان میں موجود تمام ارکان نے کھڑے ہوکر بلز کی حمایت کی۔ بل پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ سلامتی چیلنجز کے باعث بل پیش کیا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ کوئی ذی شعور فوجی عدالتوں کی ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا،فوجی عدالتوں میں توسیع قومی ضرورت ہے، حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ فوجی عدالتوں قائم کرنے سے ختم نہیں ہوگی بلکہ مائنڈ سیٹ ختم کرنا ہوگا۔ قبل ازیں وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق آئینی ترمیم پر بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ 2015میں آئین میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کی گئی تھی جنوری 2017میں فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت ختم ہو گئی تھی۔اسوقت ملک جس صورتحال سے دوچار ہے مفاہمت اہم ضرورت ہے۔پارلیمانی کمیٹی میں سینیٹ کے پارلیمانی رہنمائوں کو بھی شامل کیا گیا اور فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع کی مفاہمت ہوئی جبکہ آرمی ایکٹ میں ترمیم پر بھی اتفاق ہوا۔ دونوں قوانین کے اصل مسودے کو بنیادی دستاویز قرار دیکر مزید چار ترامیم تجویز کی گئیں جنہیں بلز کا حصہ بنایا گیا ہے۔ملک میں جوڈیشل اصلاحات ہونی چاہئیں تاکہ ہمارا عدالتی نظام اس کو خود ہی اپنا لے اس حوالے سے فیصلہ ہوا تھا کہ نیشنل سکیورٹی پر پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائیگی اوراس کیلئے قرارداد تیار کر لی گئی ہے۔ اسحق ڈار نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع نظریہ ضرورت کے تحت نہیں کر رہے بلکہ یہ قومی ضرورت ہے۔ امریکا جیسے ملک میں بھی دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قانون میں تبدیلیاں کی گئیں، ضرب عضب آپریشن کی کامیابیوں، کراچی میں امن اور آپریشن ردالفساد کے باوجود فوجی عدالتوں کی ضرورت موجود ہے۔ اللہ کرے دوسال بعد اسکی ضرورت نہ رہے۔تما م ارکان کو اپنی پارلیمانی رہنمائوں کے فیصلے کی روشنی میں ووٹ دینا ہوگا بصورت دیگر اپنا استعفیٰ پیش کرنا ہوگا۔ آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری کے بعد وفاقی وزیر اسحق ڈار نے کہا کہ بہت اچھا فیصلہ ہوا ہے اسکی ملک کو ضرورت تھی۔ سینیٹ سے درخواست کرینگے کہ قواعد کو معطل کرکے اس پر ووٹنگ کرائی جائے۔بعدازاں وفاقی وزیر قانون نے نیشنل سکیورٹی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کیلئے قراراد اد ایوان میں پیش کی قومی اسمبلی نے پاکستان آرمی ایکٹ میں ترامیم کا بل 2017 دوتہائی اکثریت سے منظورکرلیا۔ 253اراکین نے حق میں ووٹ دیاجبکہ محمود خان اچکزئی اور جمشید دستی سمیت 4 اراکین نے اسکی مخالفت کی اور رائے شماری کے دوران اپنی نشستوں پر کھڑے نہیں ہوئے۔ایوان نے اپوزیشن اور حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کی ترامیم مستردکر دیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں فوجی عدالتوں سے متعلق پا کستا ن آرمی ایکٹ ترمیمی بِل وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے منظوری کیلئے پیش کیا جسکی ایوان میں شق وار منظوری کے بعد بِل کو منظور کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف بھی فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کے بل کی منظوری کے موقع پر اجلاس میں موجود تھے۔وزیراعظم کی آمد پرحکومتی ممبران نے ڈیسک بجا کراستقبال کیا۔ فوجی عدالتوں میں یہ توسیع اسی روز یعنی 7جنوری 2017 سے تصور کی جائیگی جب انکی سابقہ مدت ختم ہوئی تھی۔ یہ ترمیمی بل بدھ کو سینیٹ میں پیش کیا جائیگا اور امکان ہے کہ وہاں سے بھی کثرتِ رائے سے منظور کروا لیا جائیگا۔آئینی ترمیم کے شق وارمنظوری سے قبل مسلم لیگ (ض) کے سربراہ اعجاز الحق نے کہا کہ فوجی عدالتیں زبردستی نہیں بنیں تمام جماعتوں نے فیصلہ کیا اور آئین میں ترمیم کرکے جمہوری طریقے سے فوجی عدالتیں بنائیں۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ملک کو درپیش موجودہ خطرات اور سلامتی کے چیلنجز کو مدنظررکھتے ہوئے 2015 میں 21 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی جس میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کے مقدمات پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت چلانے کی اجازت دی گئی۔آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017 کے ذریعے ان خصوصی اقدامات کو مزید دو سال کی توسیع دینے کی تجویز پیش کی گئی۔وزیرقانون زاہد حامد نے کہا کہ ملک میں پہلے ہی توہین رسالتؐ کیخلاف جامع قانون موجود ہے اسلئے آرمی ایکٹ میں توہین رسالتؐ کیخلاف معاملہ شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے اے این پی کے حاجی غلام احمدبلور نے کہاکہ یہاں کہاجاتاہے کہ دہشت گرد کاکوئی مذہب نہیں ہوتا۔ میں کہتاہوں کہ یہ غلط ہے۔ دہشت گرد کامائنڈ سیٹ مذہبی اسکالرز نے بنایاہے۔ اسے مذہبی لیڈرنے سکھایاہے کہ جب تمہاری گردن کٹے گی توسیدھے جنت میں جائو گے۔ دہشت گرد کا مذہب ہوتاہے اسکے بغیروہ مرنے کیلئے تیارنہیں ہوسکتا۔ دنیا میں دہشت گردی وہاں ہے جہاں مسلمان ہے۔ ہمیں دہشت گردی وراثت میں ملی ہے لیکن سوچیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ دہشت گردی فوجی عدالتوں کو دو سال دینے سے ختم نہیں ہوگی بلکہ اس کیلئے یہ مائنڈ سیٹ ختم کرناہوگا۔ غلام احمد بلور نے کہا کہ جب تک بھارت اورافغانستان سے تعلقات اچھے نہیں ہونگے اس ملک میں امن نہیں ہوگا۔ دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔ ڈاکٹرنفیسہ شاہ نے کہاکہ فوجی عدالتوں کا دائرہ کارفورسز کے اندر ہوتاہے لیکن ہم اس کادائرہ کارسول امور میں لارہے ہیں۔ اس سے عدلیہ کا اختیار متاثرہوتاہے۔ انسانی حقوق کی بھی نفی ہوتی ہے۔ اس سے عدلیہ، پارلیمنٹ، جمہوریت اور آئین کمزور ہوگا۔ فوجی عدالتوں میں توسیع نظریہ ضرورت کے مطابق کررہے ہیں۔ ڈاکٹرشیریں مزاری نے کہاکہ جب کالعدم تنظیموں کے لیڈروں سے وزیرداخلہ ملیں گے تو دہشت گردی کیسے ختم ہوگی۔ یہ شرمناک بات ہے۔ ایس اے اقبال قادری نے تجویز دی کہ مذہب کےاستعمال کیلئے الفاظ کو حذف کیاجائے۔ نواب یوسف تالپور نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زہرکاگھونٹ بھررہےہیں بعض کہتے ہیں کہ ضمیرکیخلاف ہے لیکن آخرمیں سب کہتے ہیں کہ مجبوری ہے۔ ہم مردم شماری کے لئے فوج بلاتے ہیں۔ امن و امان کیلئے فوج بلاتے ہیں۔ عدالتوں کیلئے فوج بلائی گئی ہے۔دریں اثناء قومی اسمبلی میں منگل کی شام پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کی تشکیل کی قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا، کمیٹی کو فوجی عدالتوں کی نگرانی کا اختیار حاصل ہو گا اور داخلی سلامتی کے معاملے پر خارجہ امور، دفاع، داخلہ امور اور دیگر اہم وزارتوں کو سفارشات بھجوا سکے گی۔ کمیٹی کی تشکیل کیلئے قرارداد وزیر قانون وانصاف زاہد حامد نے پیش کی۔ قرارداد کے مسودے میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی سید نوید قمر،تحریک انصاف کی ڈاکٹر شیریں مزاری اور آفتاب احمد شیرپائو کی تجاویز کے تحت ضروری ردوبدل کیا گیا۔ اسپیکرسردارایاز صادق نے قرارداد پررائے شماری کروائی جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔ قرارداد کے تحت پار لیما نی قومی سلامتی کمیٹی کو علاقائی سالمیت ، آزادی وخودمختاری کے تحفظ ، قومی دفاع، فوجی عدالتوں کی نگرانی ، داخلی سلامتی کے معاملے پر سفارشات مرتب کرنے اختیار حاصل ہوگا۔ قرارداد کے تحت قومی سلامتی کمیٹی نیشنل ایشوز اور نیشنل ایکشن پلان کو بھی مانیٹر کرے گی۔ سینیٹ سے آج قرارداد کو منظور کر لیا جائے گا۔
تازہ ترین