• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور ہائیکورٹ کے تمام جج صاحبان اور باقی عملے کی تنخواہیں،مراعات عام کی جائیں،انفارمیشن کمیشن پنجاب

لاہور (نمائندہ جنگ) لاہور ہائیکورٹ کے تمام جج صاحبان اور باقی عملے کی تنخواہیں اور مراعات پبلک کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں۔پنجاب انفار میشن کمیشن نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی پر دی گئی ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ کو چیف جسٹس کی تنخواہ، الائونسز اور دیگر مراعات کی تفصیلات 4اپریل تک پبلک کرنے کا حکم  دیا۔ انفارمیشن کمیشن  کے حکم کے مطابق  تمام جج صاحبان اور باقی عملہ کی تنخواہوں اور مراعات کی معلومات بھی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013کے سیکشن 4کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کی ویب سائٹ پر رکھی جائیں۔ درخواست گزار کو مطلوبہ معلومات 4اپریل تک فراہم کرنے کو یقینی بنا ئیں اور اس حوالے سے کمیشن کو آگاہ کیا جائے۔ کمیشن نے اپنے فیصلے میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ دسمبر 2013میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے نفاذ کے 60دن کے اندر پبلک انفارمیشن آفیسر کا تقرر کیا جانا ضروری تھا لیکن عدالت عالیہ کی انتظامیہ نے 3سال گزر جانے کے باوجود ایسا نہیں کیا۔ انفارمیشن کمیشن نے دلی ہائیکورٹ کے ایک ڈویژن بنچ کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں انڈیا کے سنٹرل انفارمیشن کمیشن اور دلی ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے انڈیا کے سپریم کورٹ کے ججوں کے اثاثوں کی تفصیلات پبلک کرنے کاحکم دیا گیا تھا۔ کمیشن نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ معلومات تک رسائی نہ دینے کی شکایت موصول ہونے پر کمیشن نے رجسٹرار ہائیکورٹ کو کئی نوٹس ایشو کئے جس پر کمیشن کے سامنے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار کی جانب سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت دی گئی درخواست ہائیکورٹ کے دفتر میں موصول نہیں ہوئی تھی جس پر کمیشن نے رجسٹرار سے کہا کہ چونکہ درخواست گزار کی درخواست انفارمیشن کمیشن کے نوٹس کے ساتھ لف تھی لہٰذا ہائیکورٹ کی انتظامیہ کو تکنیکی بنیاد پر درخواست کو رد کرنے کی بجائے میرٹ پر اس کا فیصلہ کرنا چاہئے تھا اور یہ اقدام قانون کے اغراض و مقاصد اور شفافیت کےنقطہ نظر سے ایک اچھی مثال ہوتی۔ انفارمیشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالت عالیہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا انصاف کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے جس نے باقی اداروں کو بھی قانون کے نفاذ اور عملدرآمد کے تابع کروانا ہوتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کو خود بھی قانون پر عملدرآمد کا اعلیٰ معیار قائم کرنا چاہئے تاکہ دوسرے اس کی تقلید کریں۔  ’’جنگ ‘‘کے رابطہ کرنے پر رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے بتایا کہ انہیں اس فیصلے کے حوالے سے معلومات ملی ہیں وہ یہ معاملہ اتھارٹیز کے سامنے رکھیں گے جو اس پر فیصلہ کریں گی۔ یاد رہے کہ انفارمیشن کمیشن نے یہ فیصلہ لاہور کے رہائشی سرمد علی کی شکایت پر سنایا ہے جس نے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013کے تحت چیف جسٹس سمیت لاہور ہائیکورٹ کے تمام ججز صاحبان کی تنخواہوں اور مراعات سمیت دیگر معلومات نہ ملنے پر پنجاب انفار میشن کمیشن کو شکایت کی تھی۔ 
تازہ ترین