• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتوں میں توسیع درست، عدالتی اصلاحات ناگزیر!

فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال کی توسیع سے متعلق آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ میں مزید تبدیلی کا بل منگل کے روز قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے بعد بدھ کو ایوان بالا (سینیٹ) میں بھی دو تہائی اکثریت سے منظور کیا جاچکا ہے۔ 7؍جنوری 2017ء کو اکیسویں آئینی ترمیم 2015ء کے تحت پاکستان آرمی ایکٹ 1952ء کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت ختم ہونے کے باعث دو ماہ سے فوجی عدالتوں کا کام معطل ہونے کے بعد بعض سیاسی حلقوں کے تحفظات کے باوجود اگر ان عدالتوں کو دوبارہ فعال کیا جارہا ہے تو اس کی بڑی وجہ ملک کو درپیش سنگین حالات اور چیلنج ہیں۔ دو سال قبل فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ سیاسی جماعتوں نے کیا تھا تو اس وقت بھی یہی آرا سامنے آئی تھیں کہ دہشت گردی سمیت تمام جرائم کے مقدمات ریگولر نظام کے تحت عدالتوں میں چلنے چاہئیں مگر ملک کے غیرمعمولی حالات غیرمعمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے سوالات اس وقت بھی سامنے آئے تھے مگر فوجی عدالتوں کی تشکیل کا مشکل فیصلہ ان حالات کی ناگزیر ضرورت تھا۔ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے حاصل ہونے والی کامیابیوں کے بعد آپریشن ردّالفساد کے تحت دہشت گردوں کی بیخ کنی کے عمل میں انتہا پسندانہ نعروں سے متاثر ہونے والے عناصر کے علاوہ غیرملکی ایجنٹ بھی قانون کے شکنجے میں آئے ہیں اور ان پر مقدمات چلانے کے حوالے سے سابقہ دو برسوں کے دوران تیز رفتار سماعت کرنے والی عدالتوں کے فیصلوں اور سزائوں پر عملدرآمد کے اعداد و شمار بہر حال ایسے ہیں جن کی توقع معمول کی عدالتی کارروائی میں ممکن نہیں تھی۔ جیسا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا، امریکہ اور یورپی ممالک کو بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے غیرمعمولی اقدامات کرنا پڑے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایسی اصلاحات لارہی ہے جن کے ذریعے دہشت گردی سے تعلق رکھنے والے مقدمات کی سویلین عدالتوں میں سماعت ممکن ہوسکے گی۔ عام عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے حوالے سے جن دشواریوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث گرفتار عناصر کے اپنے دہشت گردی نیٹ ورک سے رابطوں کے امکانات۔ وکلا، ججوں اور گواہوں کو درپیش خطرات اور قانون شہادت سمیت بعض ضابطوں کی پیچیدگیاں ہیں۔ مگر کئی ممالک ججوں اور گواہوں کو شناخت کے ممکنہ خطرات سے بچانے کے طریقے اختیار کرکے دہشت گردی کے مقدمات تیزی سے منطقی انجام تک پہنچا چکے ہیں۔ وطن عزیز میں عدالتوں پر مقدمات کا غیرمعمولی بوجھ ہے جس کے باعث بہت سے مقدمات کے فیصلے آنے میں برسوں بلکہ عشروں کا وقت لگ جاتا ہے۔ ہمارے قانونی ماہرین، ارکان حکومت اور اپوزیشن کے رہنما دو برس قبل ظاہر کئے گئے تحفظات کو پیش نظر رکھتے ہوئے سرجوڑ کر بیٹھتے تو شاید 2017ء میں فوجی عدالتوں میں توسیع کے مسئلے پر حکومت کو اپوزیشن سمیت بعض حلقوں کی ترامیم مسودے میں سمونے کے بعد بھی رائے شماری میں اپنی دو حلیف پارٹیوں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ووٹوں سے نہ محروم رہنا پڑتا۔ قومی ایکشن پلان کے تمام نکات پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جاتا تو بھی صورتحال شاید مزید بہتر ہوتی۔ 23؍مارچ 1940ء کو لاہور میں قرارداد پاکستان کے حوالے سے منائے جانے والے ’’یوم پاکستان‘‘ کے موقع پر ’’دفاع پاکستان‘‘ کے اس قانون کے تحت دہشت گردی مقدمات کی سماعت فوج کے شعبہ قانون کے وہ ماہرین کریں گے جو اس بارے میں تربیت و تجربہ سے لیس ہیں۔ جبکہ پارلیمان کی اپنی قرارداد کے ذریعے تشکیل دی جانے والی قومی سلامتی کمیٹی کو فوجی عدالتوں کی نگرانی کا اختیار ہوگا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ تیزی سے سماعت کرنے والی ان عدالتوں کے ذریعے قانون کی بالادستی، ریاستی عملداری اور ملکی سلامتی کے مقاصد کو تقویت ملے گی۔ مجرموں کو سزا کے ذریعے دوسروں کے لئے عبرت کا ذریعہ بنایا جائے گا اور قانون پسند شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

.
تازہ ترین