• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سپریم کورٹ نے ایک بار پھر سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے صوبہ سندھ میں شراب کی فروخت پر پابندی اور شراب خانوں کی بندش کے حکم کو معطل کر دیا۔ شراب کی فروخت کی اجازت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ جب قانون موجود ہے تو ہائی کورٹ ایسا حکم جاری نہیں کر سکتی۔ عدالت اعظمیٰ نے کہا کہ شراب کی فروخت کے قانون کی خلاف ورزی پر پولیس کارروائی کر سکتی ہے۔ اس موقع پر اقلیتی ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا کہ ہندو مذہب میں بھی شراب پر پابندی ہے جبکہ ایسے کئی شراب خانے صوبہ میں موجود ہیں جو مسجد، مندر اور گرجا گھروں کے قریب واقع ہیں۔ رمیش کمار نے عدالت سے استدعا کی کہ سندھ حکومت کا ہائی کورٹ میں جواب آنے تک اس پر سے پابندی نہ اٹھائی جائے، تاہم فاضل عدالت نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے اپیل کو سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ 11 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ نے شراب کی 120 دکانوں کو بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے یکم اپریل تک سندھ حکومت سے شراب کی دکانوں کے لائسنس سے متعلق رپورٹ طلب کی تھی جس پرشراب خانوں کے مالکان نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ اس معاملہ میں سندھ حکومت تو جیسے قانون شکنوں کے ساتھ ہے جبکہ شراب فروخت کرنے والوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں بڑے بڑے وکیل پیش ہوئے اور اس طرح اپنا کاروبار کھلوانے میں کامیاب ہو گئے اور رمیش کمار دیکھتے ہی رہ گئے۔
یہ کیسا المیہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ہندو رہنما شراب کی فروخت پر مکمل پابندی کی لڑائی لڑ رہا ہے اور ہم جیسے کہ اُس کے سامنے رکاوٹ بن رہے ہیں۔ سندھ حکومت سے مایوس ہو کر، وہ کبھی ایک عدالت اور کبھی دوسری عدالت کے سامنے پیش ہو کر سب سے استدعا کر رہا ہے کہ شراب کی تو تمام مذاہب میں ممانعت ہے تو پھر اس کی فروخت پر پابندی کیوں نہیں لگائی جا رہی ۔ ڈاکٹر صاحب کا دکھ یہ ہے کہ شراب پینے والوں کی اکثریت تو مسلمانوں کی ہے لیکن اس کاروبار کے لیے نام ہندوئوں اور اقلیتوں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور اسی بات کی تصدیق سندھ ہائی کورٹ نے کی تھی جب عدالت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ سندھ میں اقلیتوں کے نام پر اتنی شراب فروخت کیجاتی ہے کہ اس میں اگر وہ نہا بھی لیں تو پھر بھی زیادہ ہے۔ اپنے ایک حالیہ مضمون میں ڈاکٹر رمیش کمار نے ہم مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی اور یاد دلایا کہ اسلام میں تو شراب کو اُم الخبائث یعنی تمام برائیوں کی ماں قرار دیتے ہوئے شراب نوشی کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے اور یہ بھی کہ اسلام میں شراب کے کاروبار کی کسی صورت اجازت نہیں جبکہ دوسرے مذاہب کی تعلیمات بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی ۔ڈاکٹر رمیش لکھتے ہیں: ’’ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب کے گھنائونے کاروبار کو غیر مسلموں سے منسوب کر دیا گیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ شراب خانوں کی سرکاری اجازت غیر مسلموں کے نام پر دینا توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے، میں بطور پارلیمنٹرین نہ صرف قومی اسمبلی میں معاشرے سے شراب کی نحوست ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی کوشش کر رہا ہوں بلکہ سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی بذات خود پیش ہو کر شراب کی غیر مسلموں کے نام پر خرید و فروخت کی روک تھام یقینی بنانے کے لیے پٹیشن دائر کی ہیںـ‘‘۔ سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے گزشتہ سال شراب پر پابندی کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر رمیش کمار نے کہا: ’’ معاشرے کے تمام طبقات بشمول مسلمانوں نے اس اقدام کا دائرہ کار ملک بھر میں پھیلانے کے لیے جاری (اُن کی) جدوجہد میں تعاون کی یقین دہانی کرائی، ایک عرصے بعد غیر مسلموں نے سکھ کا سانس لیا کہ اب انہیں شراب فروشی جیسے ذلت آمیز دھندے سے منسلک نہیں کیا جائے گا لیکن جلد شراب خانوں کا طاقتور مافیا سپریم کورٹ جا پہنچا۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ ایک طرف عدالت کے سامنے تمام غیر مسلم مذاہب کے نمائندے پیش ہو کر شراب کی پابندی کے حق میں اپنا موقف پیش کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف غیر مسلموں کے نام پر شراب پر پابندی کالعدم قرار دلوانے کے لیے مسلمان وکلاء اعلیٰ عدلیہ میں شراب خانوں کا کیس لڑ رہے تھے۔‘‘جنگ اخبار میں شائع ہونے والی اپنی تحریر میں ڈاکٹر رمیش نے دوسرے مذاہب کے ساتھ ساتھ شراب کی ممانعت پر اسلامی تعلیمات کے حوالے دیتے ہوئے وہ بات کہی جو نہ ہماری پارلیمنٹ نے کی اور نہ ہی حکومت اور عدلیہ نے۔ ڈاکٹر رمیش نے کہا: ’’پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لیے غیر مسلموں کو بھی اسلامی احکامات کے مطابق شراب نوشی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے یا پھر بھی اگر کوئی اپنی مرضی سے شراب کے تمام تر نقصانات جانتے ہوئے بھی شراب نوشی کرتے ہوئے اپنا ٹھکانہ جہنم بنانا چاہتا ہے تو اسے غیر مسلم مذہب کا سہارا نہیں فراہم کرنا چاہیے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب پر مکمل پابندی لگائی جائے اور مذہب کا نام غلط طور پر استعمال کر کے خداوندِ تعالیٰ کو ناراض نہ کیا جائے۔‘‘ ڈاکٹر رمیش کمار نے جو لکھا اُس نے بحیثیت ایک پاکستانی مسلمان ہونے کے مجھے بہت شرمندہ کیا اور میں سوچنے لگا کہ ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے کہ ہر سال 23 مارچ کو بڑے جوش و خروش سے یوم پاکستان منانے والے ہم پاکستانی اُس عظیم مقصد سے کتنا دور ہوچکے جس کے لیے ہم نے پاکستان کو حاصل کیا تھا۔ یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان میں آج ہماری حالت اتنی بگڑ چکی ہے کہ ایک پاکستانی ہندو رہنما کو اُٹھ کر ہمارے ضمیر کو جھنجوڑنا پڑ رہا ہے تاکہ اس ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے کے لیے ہم اپنی دینی و قومی ذمہ داریوں کو پورا کر سکیں۔ افسوس صد افسوس!! ہمیں یہ دن بھی دیکھنا تھا۔



.
تازہ ترین