• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ سے تعلق رکھنے والا پاکستانی سندھی نژاد انجینئر ایاز جمالی پچھلے ہفتے جنوبی سوڈان میں وہاں کی حکومت کے خلاف برسر پیکار باغی گروپوں میں سے ایک گروہ کے ہاتھوں اغوا ہو گیا ہے۔ ایاز جمالی کے گھر میں ماتم بپا ہے۔ اس کے یار دوست اس کی رہائی کے لئے سوشل میڈیا اور دیگر پاکستانی میڈیا میں پریشاں ہیں۔ اپیلیں عرضیاں اور فریادیں ڈالے جا رہے ہیں۔ لیکن ہفتہ گزر جانے کے باوجود نہ سرکار بہادر پاکستان حرکت میں آئی ہے اور نہ ہی سندھ حکومت نے کوئی رابطہ کیا ہے۔ ایدھی صاحب جیسے تو بیچارے نہ جانے کس عجب بستیاں بستے ہیں لیکن انصار برنی اور ان کی ٹرسٹ کے بھی ایاز جمالی کے احباب کی درد مندانہ اپیلیں کانوں میں شاید اب تک نہیں پڑ رہی ہیں۔ سندھی تو ویسے ہی بقول اکبر بگٹی مرحوم قوم ہے۔
اس نوجوان انجینئر اور اس کے گھر والوں کے ساتھ اور ہم سب کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ وہ اس ماہ بائیس مارچ کو خود ہی جنوبی سوڈان کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر آنے والا تھا یعنی کہ
تاڑی مار اڈا نہ باہو
اساں آپے اڈن ہارے ہو
اور تئیس مارچ کو اس کی شادی تھی۔ جنوبی سوڈان کے باغی گروپ نے کہہ رکھا ہے کہ غیر ملکی جنوبی سوڈان خالی کر جائیں اور ایاز جمالی جو پیٹرولیم انجینئر ہوتے ہوئے بھی اپنے ملک میں روزگار نہ ملنے پر اپنے اہل خانہ کے لئے سوڈان روزی روٹی کمانے گیا تھا ایسے انتباہ کو سنجیدہ لیتے ہوئے ویسے ہی نکل کر وطن آنے والا تھا کہ مچر کے باغی گروہ نے اسے اغوا کر لیا وہ جس گاڑی پر سوار تھا اس پر باغیوں کے حملے کے دوران گاڑی کا ڈرائیور بھی ہلاک ہوا۔
سوڈان ایک تباہ شدہ ملک ہے ایک بہت بڑے انسانی بحران اور خانہ جنگی کا شکار۔ لیکن ملک پاکستان کا نوجوان اور اس میں سندھ کا نوجوان اپنے خاندان سمیت اتنا تباہ حال ہے کہ اسے اس طرح کے ملکوں میں بھی روزی روٹی ڈھونڈنے جانا پڑتا ہے۔ کیونکہ اسے اپنے ملک میں روزگار میسر نہیں۔ روزگار کیلئے کوئی سفارش نہیں کسی وڈیرے چوہدری کی وزیر کی، ادا ادی کی تو چھوڑو ان کے وانٹھوں یعنی حواریوں کی بھی نہیں۔ مجھے ایسے کئی نوجوان لکھتے رہتے ہیں۔ اپنے دکھ بانٹتے رہتے ہیں۔ پڑھے لکھے، کم پڑھے، بظاہر ان پڑھ، بیروزگار، نیم بیروزگار۔ کسی کے ماں باپ کی تمام عمر کی کمائی ادی کے نام پر کوئی لے کر اڑا کہ تمہیں آٹھ لاکھ روپوں میں پرائمری ٹیچری دلوائیں گے۔ تو کوئی انجینئرنگ کی ڈگریاں لئے ہوئے در بدر ہے۔ اب ایاز جمالی اور ان کے بھائیوں کو ہی لے لیجئے ان کا تعلق بدین ضلع سے ہے جو تیل کی آمدن سے سندھ کا شاید ٹیکساس کہلاتا ہے، جہاں زرداریوں سے لے کر مرزائوں اور انصاریوں تک کی شوگر ملیں ہیں لیکن ایازجمالی جیسوں کو وہاں روزگار نہیں ملا اور وہ ایک بدترین خانہ جنگی کے شکار ملک میں بھی روزگار کیلئے نکل گیا، کون کہتا ہے کہ سندھی سست قوم ہیں، وہ باہر نہیں نکلتے۔ وہ دن گئے کہ سندھی اگر فوج میں بھی غلطی سے بھرتی ہو جاتے تھے تو سفارشات ڈھونڈ کر خود کو باعزت ڈسمس کرواتے تھے۔ اب کہتے ہیں کہ اسی ہزار کے قریب سندھی نوجوان فوج میں ہیں اور وانا وزیرستان اور سیاچن تک ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔
’’گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ کو یہ ال چمن
یہ چمن ہے تمہارا ہمارا نہیں‘‘
کئی سندھی پچھلی دہائی سے کئی جنگوں والے علاقوں میں روزی روٹی کی تلاش میں نقل مکانی کر گئے ہیں۔ تکنیکی اور غیر تکنیکی مزدور پیشہ ور۔ افغانستان، عراق اور لیبیا تک۔ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں بھی۔ کئی کیسوں میں یہ لوگ تشدد کا شکار ہوئے ہیں اور کہیں ہلاک بھی ہوئے ہیں۔
پچھلے دنوں کئی ایک بار پاکستان کے ایسے شہریوں کو صومالیہ تک کے قزاقوں کے ہاتھوں اغوا کئے ہوئوں کو بھی انصار برنی اور پاکستانی سفارتی مشنری چھڑوا کر باسلامت واپس لے آئی ہے۔ اچھی بات ہے کہ پچھلے دنوں بھارت کی جیلوں میں قید ماہی گیر کئی برسوں بعد اپنے گھر واپس آئے۔ جیسے لوٹ کر آئے عدم سے۔ جیسے فیض صاحب نے کہا، واقعی ان ماہی گیروں کے گھروالوں کے لئے چپکے سے بہار آنے کے مترادف ہو گا۔
پر جنوبی سوڈان میں اغوا شدہ غریب الوطن سندھی انجینئر جمالی کے لئے اب تک ریاست و حکومت سوئی ہوئی ہے۔ ایاز جمالی بھی تو پاکستان کا شہری ہے۔ اہل جاہ و ہشم! جاگ جائو۔ اعلیٰ سفارتی سطح پر کوششیں تیز کرو۔ یہ واقعی ملک کی نئی سیکرٹری تہمینہ جنجوعہ کے لئے چیلنج ہے۔ تہمینہ جنجوعہ ایک منجھی ہوئی سفارتکار ہیں۔ اس سے پہلے وہ شاید جنیوا میں تھیں۔ یہ بہت بڑھیا کہ اب اپنی بھارتی ہم منصب سشما سوراج کی طرح پاکستانی سیکرٹری خارجہ بھی خاتون ہیں اور وہ بھی پہلی خاتون سیکرٹری خارجہ۔ مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں غائب شدہ شہریوں کے لئے جنیوا میں یو این کے باہر ٹوٹی ہوئی کرسی سے لے کر اقوم متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ایوانوں تک اٹھنے والی آوازوں پر تہمینہ جنجوعہ کا کیا ردعمل ہوتا ہوگا لیکن ایاز جمالی کو تو اپنے ریاستی اور غیر ریاستی اغوا کاروں نے نہیں غیر ملکی خطرناک باغی گروہ نے جنوبی سوڈان میں اغوا کر لیا ہے۔ اس کی رہائی کے لئے تو تمام تر سفارتی کوششیں بروئےکار لائی جائیں۔ انصار برنی اور فیصل ایدھی جیسوں کو بھی آگے آنا چاہئے۔ اب جس ملک میں وزیر خارجہ ہی نایافت ہو وہ ملک اپنے شہری کی غیر ملک رہائی کی کوششیں جتنی کرتا ہے اسے ضرور کرنی چاہئے۔ (ویسے یہ زرداری باپ بیٹے کا سارا زور وزیر خارجہ مقرر کرنے پر ہے کیا پتا کہ اصل وزیر خارجہ کے فرائض درپردہ ملک کے وڈے تے اصلی چوہدریوں نے سنبھالے ہوئے ہوں)
اب ایک ایسا ملک جہاں ادارے اپنے ہی ملک کے شہریوں کو اغوا کرتے ہوں وہ ملک غیر ملکی قزاقوں یا باغیوں سے اپنا شہری چھڑا کر لے آئے گا؟ ضرور لے کر آئے۔ امید ہے کہ ایاز جمالی پاکستانی شہری غیر کے ہاتھوں عتاب سے ہرگز نہ گزرے اور جلدہی رہائی پاکر اپنے وطن اور گھر پہنچے جو کہ شادیانوں کے بجائے ماتم کدہ بن گیا ہے۔



.
تازہ ترین