• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
23؍ مارچ پاکستان کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن منٹو پارک (موجودہ گریٹر اقبال پارک) میں برصغیر کے رہنمائوں نے عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے سامنے ایک نئے وطن کے خواب کو تعبیر دینے کے لئے ایک قرارداد منظور کی۔ یہ قرارداد دراصل ایک عہد نامہ تھا جس پر وہاں موجود لوگوں کے ساتھ ساتھ برصغیر میں بسنے والے آزادی کے متوالوں کے دلوں نے دستخط کئے اور جذبوں نے گواہی دی کہ وہ اس قرارداد کو زندگی کا منشور بنا کر ہر مشکل کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ عہد نامہ اتنا حسین تھا اور اس کے تناظر میں نظر آنے والا مستقبل کا منظر نامہ اتنا تابناک تھا کہ سب نے اس پر دل و جان نچھاور کرنے کا اعلان کر دیا کیوں کہ وہ ایک ایسی آزاد سر زمین کے حصول کی طرف بڑھ رہے تھے جو ان کے بچوں کے روشن مستقبل، وقار اور منفرد پہچان کی حامل تھی جہاں انہیں برابری کی سطح پر حقوق ملنے والے تھے، جہاں ذات پات اور دیگر تفریقات سے چھٹکارا حاصل ہونے والا تھا، جہاں سب کو صلاحیتوں کے مطابق ترقی کے مواقع میسر ہونے والے تھے اور اس کی سب سے بڑھ کر اہمیت یہ تھی کہ عہد نامہ انہیں دنیا میں ایک آزاد قوم کے لقب سے نوازنے والا تھا۔ انسان فطری طور پر آزاد منش مخلوق ہے۔ اس کی جبلت اسے فطرت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے پر اکساتی ہے مگر ماحول اسے مختلف اور مصنوعی قوانین میں جکڑے رکھتا ہے جو تہذیب کے نام پر اس پر لاگو کئے جاتے ہیں۔ ایک منظم معاشرتی زندگی کے لئے وہ انہیں قبول کر لیتا ہے مگر اسے غلام ہونا یا کہلانا کسی طور پسند نہیں۔ اسی لئے آزادی کی خواہش میں وہ جان سے گزرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا یعنی آزادی کے سامنے جان کمتر حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان کو حاصل کرتے وقت یہاں کے باسیوں نے اسی منشور اور نعرے پر یقین کر کے فیصلے کی باگ ڈور عظیم رہنما قائداعظم کے ہاتھ تھما دی۔ انہیں یہ احساس تھا کہ یہ رہنما انہیں بیچ راہ چھوڑ کر نہیں جائے گا بلکہ منزل تک ان کی رہبری کرے گا اس لئے انہوں نے اس کے حکم پر سرنگوں کرتے ہوئے تن من کی قربانی کا اعلان کر دیا۔
جب شیر بنگال مولوی فضل حق نے یہ قرارداد پیش کی اور اسے قراردادِ پاکستان کے نام سے منظور کر لیا گیا تو مخالفین نے نہ صرف اس قرارداد کا مذاق اڑایا بلکہ اسے ہوائی قلعوں سے تعبیر کیا۔ کبھی کبھی دشمن کا طنز اور وار انسان اور قوموں کے لئے نیک شگون بن جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ ان تلخ جملوں نے آزادی کے متوالوں کا جوش و ولولہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور رہنمائوں کو بھی زیادہ متحرک کر دیا۔ اس قرارداد میں پاکستان کا نام تجویز ہو چکا تھا، خواب نقشے کی طرح ہر شخص کے دل کی جیب میں رکھا ہوا تھا، صرف حالات و واقعات کو بس میں کرنا مقصود تھا۔ نقشے کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے والے راستے کی کسی کٹھنائی کو خاطر میں نہ لائے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ صرف سات سالوں کی جدوجہد سے دنیا کے نقشے پر ایک خوبصورت ملک کا اندراج ہو چکا ہے جس میں مختلف صوبائی وحدتوں نے ایک پرچم تلے جمع ہو کر ایک ملک میں رہنے کے فیصلے پر تصدیق کی مہر لگائی۔ نصف صدی سے زیادہ سالوں کے دوران ہم نے بہت کچھ حاصل کر لیا اور بہت کچھ کھو بھی دیا مگر پاکستان نے ہر محاذ پر ترقی کے گراف کو زیادہ بہتر کیا ہے۔ جمہوریت نے اب اس سمت سفر آغاز کر دیا ہے جس کو بنیاد بنا کر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا یعنی جمہور کی حکومت اور جمہور کی فلاح و بہبود کو ترجیحی سطح پر رکھنا۔ ان77سالوں میں وقت نے ہم سے کئی کھیل کھیلے، ہمیں مختلف حوالوں سے آزمایا، عالمی قوتوں نے ہمارے جذبۂ جنوں کو دبانے اور ہمیں غلام بنانے کی بڑی کوشش کی، اپنوں اور پرائیوں نے مل کر ہمارے قومی وقار کو مجروح کرنے کے لئے ہماری زمین کو لہولہان کیا مگر ہمارے جذبوں کو تسخیر نہ کر سکے۔ ہم آج بھی23مارچ کے جذبے سے معمور ہیں۔ غیروں کے رویے سے ہراساں ہونے کی بجائے ہم نے چیلنج قبول کر کے پوری دنیا پر ثابت کیا ہے کہ ہم غیر جمہوری اور انتہاپسند طاقتوں کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے۔ آج بھی منٹو پارک جو گریٹر اقبال پارک کا روپ دھار چکا ہے، کے قریب سے گزرتے ہوئے وہ آوازیں سنائی دیتی ہیں، وہ نعرۂ مستانہ فضائوں میں گونجتا محسوس ہوتا ہے، خواب دیکھتی ہوئی آنکھیں مینار کے روشندانوں سے جھانکتی اس سنہری دن کی یاد دلاتی ہیں جو ہماری قومی زندگی میں فیصلے کا دن تھا، جس دن ہم نے ایک بڑا چیلنج قبول کیا اور پھر اسے حاصل کر کے دکھایا۔ مینارِ پاکستان ہمارے عزم کی علامت ہے اور وہ پوری آن اور بان کے ساتھ کھڑا ہمیں اس روشن صبح کے لئے جدوجہد پر اکساتا ہے جو ابھی ہماری راہ دیکھ رہی ہے۔ ہم نے رات کے اندھیرے کو اپنی باطنی قوت سے شکست دے کر دستک دیتی نورانی صبح کے لئے دَر وَا کرنا ہے۔ یہ مینار ہمیں یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ ہم نے اس ملک کو قائداعظم کا پاکستان بنانے کے لئے قائداعظم کے افکار کو مشعلِ راہ بنا کر اس بھولے ہوئے سبق کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہے جسے وقت نے کسی کونے کھدرے میں ڈال کر ہمیں کسی اور راستے کا مسافر بنا دیا تھا۔ قائداعظم کا پاکستان ایک لبرل، انسانی حقوق کا علمبردار اور جمہوری ملک تھا جس کی بنیادوں میں تمام پاکستانیوں کی امنگیں شامل تھیں جس میں مذہبی یا ذات پات کے حوالے سے کسی کو برتری حاصل نہیں تھی۔ سب شہریوں کے حقوق برابر تھے۔ آئیے آج اس23مارچ کو ایک اور عہد نامہ تحریر کریں، اسے اپنے دل کے طاق پر رکھیں اور اپنی ہر سوچ اور جذبے کو اس کے مطابق ڈھال کر اس ملک کو وہ پاکستان بنائیں جس کے لئے ہمارے بزرگوں اور ہمارے رہنمائوں نے جدوجہد کی تھی۔23مارچ کے دن لاہور اور مینارِ پاکستان کے نام ایک نظم:
آج اس مینار کے پیمان کو روشن کریں
قائداعظم کے پاکستان کو روشن کریں
بیج اس دھرتی میں بونے ہیں ہمیں ایثار کے
اس چمن میں گل کھلانے ہیں محبت پیار کے
فصل اس میں کاشت کرنی ہے نئے افکار کی
ایک لکھنی ہے کہانی عظمت و کردار کی
سر زمین پاک کو پھولوں سے بھرنا ہے ہمیں
اس کی خوشبو روح میں بھر کر نکھرنا ہے ہمیں
اپنی دھرتی تو ہمارے عزم سے آباد ہے
شاعرِ مشرق کے روشن خواب کی بنیاد ہے
خون کے دریا کیے ہیں پار اس کی چاہ میں
تب کہیں منزل نظر آئی دکھوں کی راہ میں
آنچ ہم آنے نہ دیں گے اس کی آن و باں پر
جان بھی اپنی صدفؔ قربان اس کی شان پر



.
تازہ ترین