• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کل 23مارچ تھی اس لئے قلم اس موضوع سے اِدھر اُدھر ہٹنے کو تیار نہیں حالانکہ مجھے ذاتی طور پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قوم کا معتدبہ حصہ چودہ اگست، پچیس دسمبر اور تئیس مارچ جیسے تاریخی موضوعات میں خاصی حد تک دلچسپی کھو چکا ہے۔ اس کا اندازہ الیکٹرانک میڈیا کے رویے سے بھی ہوتا ہے جو اب ان موضوعات کو واجبی سی اہمیت اور کوریج دیتا ہے۔ اخبارات کی مجبوری ہے کہ انہیں صبح سویرے دن میں ایک ہی بار عوامی عدالت میں پیش ہونا ہوتا ہے اس لئے وہ رنگین صفحات کا تکلف بھی کرتے ہیں اور ایک دو متعلقہ مضامین چھاپنے کا بھی اہتمام کرتے ہیں جنہیں شاید غور سے پڑھا نہیں جاتا ورنہ لکھاری ان موضوعات پر بنیادی غلطیاں نہ کریں اور نہ ہی طلبہ اس حوالے سے عام سے سوالات پوچھیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم حال میں زندہ رہتے ہیں، حال کو آنکھوں سے دیکھتے اور اسی بارے میں سوچتے ہیں اس لئے ہماری تازہ اور حالیہ موضوعات میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ تاریخ گزرے ہوئے واقعات کی داستان تصور ہوتی ہے اس لئے تاریخ نام ہے چند خوابوں، چند وعدوں، چند بیانیوں اور چند واقعات کا جو ماضی کا حصہ بن چکے۔ خواب بھی وہی اچھے لگتے ہیں جو حقیقت بن جائیں یا کم سے کم ان کا حقیقت بننے کا کوئی امکان ہی موجود رہے۔ جب خواب محض خواب اور واہمہ محسوس ہوں اور ان کے عملی روپ دھارنے کی امید بھی دم توڑ دے تو پھر آخر ان ٹوٹے ہوئے خوابوں میں دلچسپی کب تک اور کیسے رہے؟ چنانچہ ہماری دلچسپی ماضی سے سفر کر کے حال پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ آج کل ہماری آنکھیں اخبارات اور میڈیا میں پاناما کیس کو ڈھونڈتی ہیں نہ کہ قائد اعظم کے تصور پاکستان اور 22مارچ 1940ء والے طویل خطاب کو جو 1940ء میں تو لوگوں کے دل کی آواز اور دھڑکن تھا لیکن تاریخ میں سفر کرتے کرتے 2017 تک اپنی کشش کم کر چکا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ 23مارچ 1940ء کو دکھایا گیا خواب دو حصوں پر مشتمل تھا۔ اول آزاد مسلمان ریاست کا دو قومی نظریے کی بنیاد پر قیام اور دوسرا حصہ اس تصور سے متعلق تھا جسے ہم تصور پاکستان کہتے ہیں یعنی پاکستان کیسی ریاست ہو گی؟ اس میں گورننس، عوامی فلاح، آئینی و انتظامی اداروں وغیرہ کی نوعیت کیا ہو گی۔ اس بات پر تقریباً سبھی لکھاریوں، دانشوروں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ قائد اعظم ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست قائم کرنا چاہتے تھے۔ خود قائد اعظم پاکستان کے قیام کے بعد صرف ایک سال زندہ رہے جس میں وہ تقریباً تین ماہ شدید علیل رہے۔ لیکن 8،9ماہ کی متحرک گورننس میں قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل بہت سی مثالیں قائم کیں، بہت سے فیصلے کئے اور بہت سے بیانات دیئے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زندہ رہتے تو پاکستان اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بن سکتی تھی لیکن بقول پروفیسر نذیر احمد ہماری اصل ناکامی یہ ہے کہ ہم نہ اسلام کو آئیڈیلائز (Idealise)کر سکے اور نہ ہی ریاست کو۔ اسلام کو آئیڈیلائز کرنے میں علماء کا کردار اہم تھا لیکن ہمارے بعض سیاسی اور بااثر علماء بڑی گاڑیوں اور عہدوں کے پیچھے پڑ گئے اور قوم کو روزے رکھنے کی تلقین کرتے رہے، اپنے پیٹ بھرتے رہے، سیاسی دکانیں چلاتے رہے اور قوم کو بھوک و افلااس کی قربانی کا درس دیتے رہے۔ رہے لیڈران جن کو ریاست کو آئیڈیلائز کرنا تھا وہ قائد اعظم کے انتقال کے بعد سیاسی جوڑ توڑ، سیاسی منافقت، دھڑے بندی اور نفرت کی سیاست کو فروغ دیتے رہے اور سیاستدانوں کی دوسری نسل جس نے اقتدار سنبھالا اس نے اسٹیٹ (State) کی بجائے ’’پیٹ‘‘ کو سامنے رکھا اور لوٹ مار میں مصروف رہی۔ نتیجہ یہ کہ ریاست آئیڈیلائز نہ ہو سکی اور نہایت نالائق اور خود غرض گورننس کے سبب ریاست عوام کی ماں نہ بن سکی۔ جس ریاست کے اندر عوام کو محبت کی بجائے محرومیاں ملیں، اُن کے دکھوں کا مداوا نہ ہو اور جس ریاست کی انتظامیہ عوام کو عدل دے سکے نہ انہیں اقتدار میں احساس شرکت دے سکے اس ریاست کو لوگ ماں کیسے سمجھیں اور وہ ریاست کیونکر آئیڈیل بنے؟ سچ ہے کہ جاپان کی ترقی کا راز اس میں ہے کہ جاپان نے ریاست کو آئیڈیلائز کیا، جس نے ہر جاپانی کو اعلیٰ درجے کی حب الوطنی، خدمت اور ایثار کے جذبے سے مالامال کیا، ان میں ریاست کو عظیم ترین بنانے کا عزم اجاگر ہوا۔ اس عزم کو آگے بڑھانے اور ترقی کے لئے استعمال کرنے میں قیادت اور انتظامیہ نے رول سر انجام دیا۔ جسم کے ساتھ بم باندھ کر دشمن کے جہازوں کی چمنیوں میں چھلانگ لگانے والی قوم کا جذبہ معاشی ترقی، تحقیق اور سائنس ٹیکنالوجی کی طرف موڑ دیا گیا۔ اسرائیل نے مذہب کو آئیڈیلائز کیا اور مذہب کے نام پر دنیا بھر سے یہودی سائنس دان، سرمایہ کار، دانشور، محقق اور قابل ترین افراد اکٹھے کر لئے۔ آج اس چھوٹی سی ریاست میں نوبیل انعام جیتنے والوں کی تعداد قابل رشک ہے، تعلیم کا معیار عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے، سائنسی اور دفاعی تحقیق میں اسرائیل کو دوسرے لیڈر کی حیثیت حاصل ہے۔ قانون کی حکمرانی کا یہ حال کہ پولیس کا عام اہلکار بلا خوف و خطر وزیر اعظم کے خلاف الزامات کی تفتیش کے لئے وزیر اعظم ہائوس پہنچ جاتا ہے اور یوں سوال پوچھتا ہے جیسے مجرم سے پوچھے جاتے ہیں۔ مذہب کو آئیڈیلائز کیا گیا تو حکمرانوں کی سادگی مثال بن گئی حتیٰ کہ سابق وزیر اعظم گولڈا میئر کھانا خود پکاتی تھی۔ اسرائیل کا وہ چہرہ جو ہم فلسطین کے حوالے سے دیکھتے ہیں وہ ایک ظالم کا خوفناک چہرہ ہے جس سے ہم نفرت کرتے ہیں۔ قائد اعظم نے تھوڑا سا حصہ رکھ کر اپنے تمام اثاثے بینک بیلنس قوم میں تقسیم کر دیئے۔ جب تک زندہ رہے نہایت سادہ زندگی، کم خرچ گورنر جنرل ہائوس، اقربا پروری کی نفی اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دیا۔ نہرو نے بھی اپنے اثاثوں کا معتدبہ حصہ قوم کو دے دیا۔ لیاقت علی خان___نوابزادہ لیاقت علی __بغیر چھت اور چند ہزار بینک بیلنس کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے حالانکہ وہ سات سال وزیر اعظم رہے جبکہ ہمارے ہاں سات ماہ سے لے کر تین سال تک حکمران رہنے والے اربوں میں کھیلتے اور بیرون ملک اثاثے بنا لیتے ہیں۔ پھر ہمارے حکمران تقریروں میں غریبوں کی حالت زار، کرپشن، دس فیصد اشرافیہ کی مالی اجارہ داری اور ناانصافی کا رونا روتے ہیں۔ ایک عام آدمی کو یہ رونا زیب دیتا ہے کہ اس کا جسم زخموں سے چور ہے لیکن بااختیار لوگ طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باوجود یہ رونا روئیں تو اس سے دو ہی نتیجے اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ اول یا تو وہ نااہل ہیں، اُن میں مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں یا پھر منافقت کا کھیل کھیل کر ووٹ لینے کے لئے عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ فی الحال اتنا ہی کافی سمجھیں۔
نوٹ:محترم ظفر محمود نے پوچھا ہے کہ قرارداد پاکستان 24مارچ 1940ء کو منظور ہوئی تھی لیکن ہم 23مارچ کو یوم پاکستان کیوں مناتے ہیں۔ میں وضاحت کر چکا ہوں کہ یہ فیصلہ آل انڈیا مسلم لیگ کا تھا۔ مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے 22فروری 1941ء کو اپنے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ ہر سال 23مارچ کو قرارداد لاہور (قرارداد پاکستان) کے حوالے سے یوم پاکستان منایا جائے گا۔

.
تازہ ترین