• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچتا ہوں اب چل کر ناروے میں رہا جائے۔ پتہ چلا ہے کہ وہاں کے لوگ دنیا کے تمام ملکوں سے زیادہ خوش رہتے ہیں۔ اب تک ڈنمارک والے سب سے آگے تھے مگر اس برس ناروے کے باشندے بازی لے گئے۔ یہ بات اقوام متحدہ کے ادارے کی رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں اس سوال کا جواب دیا جاتا ہے کہ کسی ملک کے لوگ کتنے خوش باش ہیں اور کیوں۔ اس فہرست میں جو پانچ ملک سب سے اوپر ہیں ان میں ڈنمارک، آئس لینڈ، سوئٹزرلینڈ اور فن لینڈ بھی شامل ہیں۔ فہرست میں کون سا ملک سب سے نیچے ہے، گھبرائیے نہیں، وہ ملک وسطی جمہوریہ افریقہ، سینٹرل افریقن ری پبلک ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ فہرست میں امریکہ چودہویں اور برطانیہ انیسویں نمبر پر ہیں۔ لوگوں کے خوش رہنے کے اسباب کا سروے ایک سو پچپن ملکوں میں کیا گیا ہے۔ ان میں ملک شام ایک سو باون نمبر پر ہے۔ یمن اور سوڈان تو قحط کی زد میں ہیں۔ وہ بھی آخری پائیدان کے قریب ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مارچ کی بیس تاریخ کو خوش باشی کا عالمی دن منایا گیا تھا۔ یہ اعداد وشمار اسی روز جاری ہوئے۔ اس کے لئے ڈیڑھ سو سے زیادہ ملکوںمیں ایک ایک ہزار افراد سے ایک سیدھاسادہ سوال پوچھا جاتا ہے:فرض کیجئے خوشیوں کی ایک سیڑھی کے دس پائیدان ہیں، ایک سے دس تک خوشی بڑھتی جاتی ہے، آپ خود کو کون سے پائیدان پر محسوس کرتے ہیں۔ ناروے والوں نے جواب دیا: آٹھویں پائے دان پر۔ اور سینٹرل افریقن ری پبلک والوں نے کہا:تیسرے پائیدان سے ذرا نیچے۔ ا س کے علاوہ اس رپورٹ میں ایک او ر سوال کا جواب تلاش کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ کچھ ملک زیادہ خوش اور کچھ ملک نسبتاً کم خوش کیوں ہیں؟اس کے جواب کی تلاش میں سارے ہی معاملے دیکھے جاتے ہیں، لوگ کتنا کماتے ہیں، ملکی نظام ان کا ہاتھ کتنا بٹاتا ہے، کتنی عمر پاتے ہیں،بددیانتی اور خیانت کتنی ہے۔ اس سے پہلے لوگوں کی خوشی کا تخمینہ اقتصادی خوش حالی سے لگایا جاتا تھا۔ لیکن ایسی صورت میں لوگوں کا خوش رہنا ضروری نہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں تیس چالیس برسوں میں آمدنی بڑھی ہے لیکن خوش حالی جو ں کی توں ہے۔ بلکہ حالیہ برسوں میں تو امریکہ میں زندگی کی خوشیاں کم ہوئی ہیں۔ لوگ اس کا سبب بھی بتاتے ہیں اور وہ ہے سماجی بحران۔ معاشرے میں برابری گھٹتی جا رہی ہے۔ بددیانتی میں اضافہ ہورہا ہے، لوگ ایک دوسرے سے کٹتے جارہے ہیں۔ اور ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ امریکہ کا یہ خیال غلط ہے کہ اقتصادی حالت میں بہتری آئے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کسی نے یہ بات ایک جملے میں کہہ دی کہ امریکہ کا بحران سماجی بحران ہے، اقتصادی نہیں۔ یہ رپورٹ تیار کرنے والوں نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں حالا ت کو اور بگاڑ سکتی ہیں۔ یہ صاحب مساوات کا خاتمہ کئے ڈالتے ہیں اور کمزوروں سے ان کی سہولتیں لے کر دفاع کو طاقتور بنانے چلے ہیں۔ نظر یہ آتا ہے کہ امریکی بنجارا بھی لاد چلے گا۔
تو ناروے میں وہ کون سی خوبی ہے جو اسے دوسروں سے زیادہ خوشیاں دیتی ہے حالانکہ وہاں لمبے، یخ بستہ اور تاریک جاڑے ہوتے ہیں۔اس کا جواب آسان ہے۔ شمالی یورپ کے ان ملکوںمیں حکومت اورعوام پڑوسیوں کی طرح میل ملاپ کے ساتھ رہتے ہیں، ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ضرورت مندوں کا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ مدد ہی مدد دستیاب ہے۔ ان ملکوں کے باشندوں میں برادری کا حیرت انگیز احساس ہے۔ مل جل کر رہنا وہاں کوئی کہاوت نہیں، حقیقت ہے۔ اس کی ایک مثال یہ دی جاتی ہے کہ وہاں کسی کابٹوہ گر جائے تو لوگ اس کے مالک کوڈھونڈ کر بٹوہ لوٹا دیتے ہیں۔ اس کو رپورٹ میں سماجی بھائی چارہ کہا گیا ہے۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ لوگوں میں ایک برادری بن کر رہنے کا شعور پیدا کرنا آسان نہیں۔ اس کے لئے لوگوں کے درمیان راہ و رسم پیدا کرنے کو مواقع دینا ہوتے ہیں۔ کچھ ایسا کرنا ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے ملیں، دکھ سکھ بانٹیں اور کچھ اس طرح ہاتھ بٹائیں کہ ان کے دلوں میں وہ خوشی جگہ بنائے جس کی اس سروے میں پیمائش کی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روزگاریقینی ہو اور وہاں حالات کار اچھے ہوں تو زندگی بہت خوش گوار ہو جاتی ہے۔ جہاں کہیں لوگوں کو آسانی سے رکھ لیا جاتا ہے یا نکال دیا جاتا ہے وہاں لوگ ناخوش ہی رہتے ہیں۔ناروے جیسے ملکوں میں کسی کو بے روزگار نہیں رہنے دیتے۔ وہاں بے روزگاری کا بیمہ ہوتا ہے اور بچوں پر اٹھنے والے خرچ میں حکومت ہاتھ بٹاتی ہے۔ لوگوں کو ایسے کام سکھائے جاتے ہیں جن کے بعد انہیں روزگارآسانی سے مل جاتا ہے۔
اس رپورٹ سے ایک او ردلچسپ بات سامنے آئی۔ جن علاقوں میں موسم شدید سرد اور راتیں بہت لمبی ہوں وہاں لوگ ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیںاور ایک دوسرے کی مدد کے لئے زیادہ تیار رہتے ہیں۔ ایسے ہی معاشروں میں جب چھپّر ڈالا جاتا ہے تو آس پاس کے سارے لوگ ہاتھ بٹاتے ہیں۔
ناروے، سویڈن اور ڈنمارک تو خیر دو ر کی بات ہے۔ ایک روز خبر اڑی تھی کہ خوش رہنے والے ملکوں میں پاکستان کافی اوپر ہے۔ کسی نے کہا کہ گیارہویں نمبر پر ہے۔ کچھ ایسے ہی ٹھکانے بتا ئے جارہے تھے۔ میں پاکستان میں خوشی کی سطح کو ایک اور نظر سے دیکھتا ہوں۔ ایک رپورٹ ایسی بھی تیار ہونی چاہئے کہ کس ملک کے لوگ کیسے کیسے حالات میں بھی خوشی خوشی جی لیتے ہیں۔ کس علاقے کے عوام دکھ درد کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں نہ دکھ محسوس ہوتے ہیں نہ درد۔ وہ ہر حال میں خوش رہتے ہیں، یہ بات زیادہ کمال کی ہے بہ نسبت ان ملکوں کے جہاں ہر طرف چین ہی چین ہو۔ وہاں لوگ خوشیوں،مسرتوں، کامرانیوں اور شادمانیوں میں جیتے ہیں تو کون سا کمال کرتے ہیں۔ سروے کرتے ہوئے کبھی ہمارے گلی کوچوں میں آئیں اور دیکھیں کہ لوگ ہنس بھی رہے ہیں، گا بھی رہے ہیں، اور یہی نہیں، دن کے خاتمے پر شکر بھی ادا کررہے ہیں۔ناروے میں کوئی اس ڈھب سے خوش رہ کر دکھائے۔

.
تازہ ترین