• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ 1940ء میں 23مارچ کا تاریخ ساز دن تھا جب قائداعظم کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ وطن کا مطالبہ کیا اور اﷲ تعالیٰ نے اس کی سیاسی جدوجہد کو 14؍اگست 1947ء کی رات کامیابی سے سرفراز فرمایا اور پاکستان ایک ڈومینین کی حیثیت سے معرضِ وجود میں آیا۔ اس وقت ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات بھڑک اُٹھے تھے جن میں دس لاکھ سے زائد مسلمان شہید اور ستر لاکھ کے لگ بھگ آگ کا دریا عبور کر کے پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے جن کو سالہا سال تک ’پناہ گیروں‘ کے لفظ سے یاد کیا جاتا رہا۔ ان فسادات میں ہندو اور سکھ بھی مارے گئے اور اُنہیں بھارت کی طرف منتقل ہونا پڑا۔ تب برہمنوں کی سیاسی جماعت انڈین کانگریس جو تقسیمِ ہند سے سخت برافروختہ اور مشتعل تھی، وہ پوری قوت سے پروپیگنڈہ کر رہی تھی کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ اور بے وقار ہوں گی اور مذہب کے نام پر ان کے ساتھ امتیازی اور وحشیانہ سلوک روا رکھا جائے گا۔ یہ پروپیگنڈہ آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہا تھا اور بیرونی دنیا میں مسلمانوں کی نئی مملکت کے بارے میں ایک گمراہ کن تاثر پیدا ہو رہا تھا، چنانچہ قیامِ پاکستان سے تین روز پہلے یعنی گیارہ اگست کو قائداعظم نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں یقین دلایا کہ پاکستان کے تمام شہری اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے پوری طرح آزاد ہوں گے اور اُن کی جان و مال کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اُن خوں آشام دنوں میں قائداعظم کی طرف سے اس یقین دہانی کا اعلان کلیدی اہمیت رکھتا تھا اور اقلیتوں کا سوال انتہائی حساس نوعیت اختیار کرتا جا رہا تھا۔
14؍اگست 1947ء کی شب وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اقتدار پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو منتقل کرنے اور قائداعظم سے پاکستان کے گورنر جنرل کا حلف لینے کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ قائداعظم غیر مسلموں کے ساتھ اکبرِ اعظم کی طرح نہایت فیاضانہ رویہ اختیار کریں گے۔ قائداعظم نے اپنے جوابی خطاب میں سرورِ کونین حضرت محمد ﷺ کا حوالہ دیا کہ انہوں نے اپنے عمل اور اپنی پاکیزہ تعلیمات سے اقلیتوں کی جان و مال اور اُن کے حقوق کے تحفظ کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں اور مسلم حکمران اور معاشرے اُن کے اسوۂ حسنہ پر کاربند رہے ہیں اور اہلِ پاکستان اس عظیم الشان میراث کے وارث ہیں۔ قائداعظم نے انتقالِ اقتدار کے موقع پر رحمتِ دوعالم ﷺکا حوالہ دے کر اس امر کا واشگاف اعلان کر دیا تھا کہ پاکستان کے مسلمانوں کے لیے چشمۂ ہدایت اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین شخصیت حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے اور اُن کے آفاقی اصولوں کے مطابق نظمِ حکومت چلایا جائے گا۔ تشکیلِ پاکستان کے فوراً بعد انہوں نے پاکستان کو ’اسلام کا قلعہ‘ اور ’جدید ترین تجربہ گاہ‘ قرار دیا اور اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر یہ اعلان بھی فرمایا کہ مختلف نظام ہائے زندگی نے انسانیت کو بہت بڑے عذاب سے دوچار کر رکھا ہے اور ہم اسلامی معیشت کے اصولوں پر ایک ایسا نظام وضع کریں گے جو پوری دنیا کے لیے عافیت اور قلب کی طمانیت کا قابلِ اعتماد وسیلہ ثابت ہو گا۔ قائداعظم ایک راست باز، دیانت دار اور انتہائی جرأت مند قائد تھے۔ اُن کی سیاست میں اسلام اور مسلمانوں کو بنیادی حیثیت حاصل رہی اور انہی کی برتری کے لیے کوشاں رہے۔ انہوں نے منتشر قوم کے اندر آزادی کی رُوح پھونکی اور اپنی خداداد قابلیت، بے پایاں اخلاص اور سیاسی جدوجہد سے اُن کے لیے آزاد وطن حاصل کیا جو بیسویں صدی کا ایک سیاسی معجزہ قرار پایا ہے۔
اپنی انتہائی معتمد شخصیت نوابزادہ لیاقت علی خاں کے اصرار پر قائداعظم انگلستان سے واپس ہندوستان آئے اور دونوں قائدین نے مسلم لیگ کی احیا کے لیے شب و روز کام کیا۔ وہ ایک دوسرے کے پوری طرح مزاج آشنا تھے۔ حضرت قائداعظم کے انتقال کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خاں نے مارچ 1949ء میں دستور ساز اسمبلی سے قراردادِ مقاصد منظور کرائی جو اسلام اور جمہوریت کے جدید اصولوں کا ایک نہایت حسین امتزاج تھی۔ آبائے قوم نے مملکت کے خدوخال، ریاست کی حدود اور عوام کے حقوق واضح طور پر اُجاگر کر دیے تھے جو ایک مستقل بیانیے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پوری کائنات پر حاکمیت ِاعلیٰ اﷲ تعالیٰ کی ہے اور پاکستان کے عوام اُس کی بنائی ہوئی حدود میں جو اقتدار استعمال کریں گے، وہ ایک مقدس امانت ہے۔ ریاست اقتدار و اختیار عوام کے منتخب نمائندوں (Chosen) کے ذریعے بروئے کار لائے گی اور اسلام کے اندر وضع کیے گئے جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصولوں پر کاربند رہے گی۔ مسلمانوں کو اِس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق بسر کر سکیں۔ اقلیتوں کے لیے اپنے مذہب پر عمل کرنے، ان کی ثقافت کو فروغ دینے اور پس ماندگی دور کرنے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔ بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔
قراردادِ مقاصد کو جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنا دیا تھا، مگر اس پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث ملک میں طرح طرح کے فتنے سر اُٹھانے لگے اور اس وقت انتہا پسندی اور دہشت گردی نے ہمارا پورا وجود ہلا کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے قابلِ فخر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے آپریشن ردالفساد شروع کر کے نہایت دوررس اثرات پر مبنی قدم اُٹھایا ہے اور فوج کے اندر ایک نئی رُوح پھونک دی ہے۔ افسراور جوان بڑی بہادری اور جاں نثاری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جانوں پر کھیل کر اپنے ہم وطنوں کو تحفظ کا احساس دلا رہے ہیں۔ اس بار یومِ جمہوریہ کے موقع پر 23مارچ کی فوجی پریڈ نے ایک سماں باندھ دیا ہے۔ اس میں سعودی عرب کے فوجی دستے اور عوامی جمہوریہ چین اور ترکی کے فوجی دستے اور فوجی بینڈ شامل ہوئے جو جیوے جیوے پاکستان کی دھنیں فضاؤں میں بکھیرتے اور پاکستان کے ساتھ یک جہتی کا رُوح پرور مظاہرہ کرتے رہے۔ فوج نے اِس بار ’ہم سب کا پاکستان‘ کا ولولہ انگیز تصور پیش کیا ہے اور اپنا یہ عزم دہرایا ہے کہ ہم قوم کے ساتھ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ فوج اور قوم کے مابین یہ گہرے رشتے نئی منزلوں کے سہانے خواب بنتے جا رہے ہیں۔
وزیراعظم نوازشریف کی قائدانہ صلاحیتوں کے باعث چین اور پاکستان کی دوستی ایک معاشی انقلاب میں ڈھلتی جا رہی ہے۔ اُن کے اعلان کے مطابق 52ممالک سی پیک کے معجزہ نما منصوبے میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ روس پاکستان کے قریب آ رہا ہے اور ایران کے ساتھ روابط بھی بہتر ہو رہے ہیں، مگر بعض خطرات بھی منڈلا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ اس قدر منہ زور ہو گیا ہے جو یہ مطالبہ کرنے لگا ہے کہ ہماری درسی کتابوں میں اسلام کو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں بہتر قرار نہ دیا جائے جبکہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ ’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی دین ہے‘۔ ہمیں خدشہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم اس طبقے کے زیرِ اثر اپنی تقریروں میں یہ بات بھی نہ کہنا شروع کر دیں کہ پاکستان میں اسلام کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ اگر ہم اسلام سے گہری وابستگی کا اہتمام نہیں کریں گے، تو ہمارا وطن لسانی اور نسلی اختلافات میں بٹ کر بہت کمزور ہو جائے گا اور نئی منزلوں کے آنکھوں میں سجے سہانے خواب چکنا چور ہو جائیں گے۔

.
تازہ ترین