• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حسین حقانی کے ایک حالیہ مضمون سے کھڑا ہونے والا ہنگامہ درحقیقت چائے کی پیالی میں پیدا ہونے والا طوفان ہے، لیکن ایک مرتبہ پھر ہم نے اسے ایسا نہیں رہنے دیا۔ یہ بھی درست ہے کہ اُنھوں نے کوئی نیا انکشاف نہیں کیا، بلکہ پہلے سے معلوم حقائق میں تھوڑی سی تفصیل کا اضافہ کر دیا۔ نیز جیسا کہ جوڈیشل انکوائریز میں ثابت ہو چکا،حسین حقانی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دور میں پاکستان میں امریکی مداخلت کے آلے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں، اور اُنھوں نے ایک سے زیادہ معاملات میں اسلام آباد میں واشنگٹن کے مفادات کو یقینی بنایا تھا۔ اب ہو سکتا ہے کہ اُنھوں نے ایسا اس خام خیالی کی بنیاد پر کیا ہو کہ واشنگٹن کی دہشت گردی پر نام نہاد جنگ پاکستان کو اُن انتہا پسند گروہوں سے نجات دلا سکتی ہے جن کا ہمارے ہاں ایک طویل عرصے سے ارتکاز پایا جاتا ہے، یا پھر وہ نتائج سے بے پروا ہو کر خود کو عقلِ کل سمجھ کر من مانی کر رہے تھے، اُن کا یہ موقف بہرحال درست ہے کہ اُنھوں نے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان متعدد مرتبہ پیغامات کا تبادلہ کیا، نیز سی آئی اے کو پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کو پھیلانے کی اجازت دینے کا فیصلہ اُن کے سویلین باسز کا تھا۔ اپنے طور پر وہ ملک میں کسی ایک بھی مشکوک ایجنٹ کو نہیں اتار سکتے تھے، اس کے لئے ملک کے ہر ادارے کی منظوری اور تعاون درکار تھا۔
ان حقائق کے منطقی قیاس سے آگے حسین حقانی کے کچھ دعوے (یا بیانات جو دعوے ہی قرار دئیے گئے) بھی موجود ہیں کہ وہ پاک امریکی تعلقات کے اسٹیج کے وہ اہم ترین کردار ہیں جن کی موثر رہنمائی اور معاونت کے بغیر اسلام آباد یا واشنگٹن ایک قدم بھی ایک دوسرے کی طرف نہیں بڑھ سکتے تھے۔ ان کی طرف سے یہ تاثر دینا مبالغہ آرائی کا شاہکار دکھائی دیتا ہے کہ اُن کے ہاتھوں تشکیل پانے والے نیٹ ورک کے نتیجے میں امریکی اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ سی آئی اے اُنہیں کتنے اچھے طریقے سے جانتی ہے، تو امریکی شاید ان کی بجائے شمالی کوریا کے لیڈروں پر اعتماد کر لیتے۔ لیکن جب حسین حقانی بذاتِ خود یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ اُنھوں نے سی آئی اے کے اثاثے پاکستان میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا، تو اس کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے اسے ایک سنجیدہ اعتراف سمجھ لینا چاہئے۔ اگر حسین حقانی، جو مشکوک سرگرمیوں کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، کی فعالیت کو صرف زرداری دور تک ہی محدود کر کے موجودہ ایشو پر نظر دوڑائیں اور، اس سے قطع نظر کہ ان کی وجہ سے سی آئی اے کے کتنے ایجنٹوں کو ویزہ جاری کیا گیا وغیرہ، اصل نکتے پر توجہ مرکوز کریں تو اصل سوال یہ نہیں کہ حسین حقانی جیسے لوگ کیا کر چکے ہیں، بلکہ یہ ایسے کرداروں کو نام نہاد اہمیت کی کٹھالی میں ٹکسال کر کے اس لاچار ملک کی چھاتی پر مونگ دلنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے، اور جب ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی منفی توانیاں تمام ہوجاتی ہیں تو پھر ان کے باس اُنہیں یہاں سے نکال کر لے جاتے ہیں۔
پاکستان شاید دنیا کے چند نایاب ممالک میں سے ایک ہے جہاں خود اسے نقصان پہنچانے والے زہریلے پودے اُگانے والی نرسریاں فعال ہیں۔ بار بار ان نرسریوں کی پیداوار نے پاکستان کے مفادات کو زک پہنچائی، اس کے عوام کی زندگی میں زہر گھولا ہے، اس کی جڑیں کھوکھلی کی ہیں لیکن تعجب ہے کہ ان کی پیداوار بلاروک ٹوک جاری رہتی ہے۔ بند کرنا تو کجا، کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ ؎جماعتِ اسلامی سے لے کر ضیاءالحق، نواز شریف، غلام اسحاق خان، مشرف اور زرداری اور پھر امریکیوں تک کی خدمات سر انجام دینے والے حسین حقانی کو مقامی طور پر ہی کسی نرسری میں پروان چڑھا کر سامنے لایا جاتا رہا۔ ہر کسی نے ان کی خدمات سے استفادہ کیا۔ اس دوران اُن کی صلاحیتوں پر ملمع کاری کی جاتی رہی کہ وہ اس ملک میں جنم لینے والے وہ نابغہ روزگار ہیں جن کی نہر سویز کے اس پار مثال ڈھونڈےسے نہیں ملے گی۔ اُنہیں اہم ترین عہدوں سے نوازا گیا، اُنھوں نے اہم ترین فورمز پر ملک کی نمائندگی کی، عسکری اور سیاسی قیادت کو مشورے دیتے رہے اور کئی ایک قومی امور میں اہم شخصیت کے طور پر سامنے رہے، حالانکہ ہر کوئی جانتا تھا کہ وہ دراصل کتنے پانی میں ہیں، نیز کوئی بھی ان کی خدمات مستعار لے سکتا ہے۔ بہرحال ایک حوالے سے حسین حقانی کا اس میں کوئی قصور نہیں، اور پھر ان پر کی جانے والی موجودہ تنقید ایک طرف، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ریاست اور سیاسی جماعتیں اُنہیں بے حد اہمیت دیتی تھیں۔ اصل قصور اُس نرسری کا ہے جو ایسے گُل کھلاتی ہے۔ اور اس ضمن میں حسین حقانی کوئی نادر مثال نہیں، آپ کو ایسے بہت سے مہرے مل جائیں گے جو کسی نہ کسی ادارے کے لئے اہم کام سرانجام دیتے رہے ہیں اور پھر اس ملک کی شرمندگی کا باعث بن کر اور کربناک گھائو لگا کر یہاں سے نکل لئے۔ قوم کی حالیہ یادداشت ایسے افراد سے بھری ہوئی ہے جو ملک کے لئے ناگزیر بن کر آئے (یا لائے گئے) لیکن اُنھوں نےاپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اس کی جڑیں کھوکھلی کیں، یا ان کی حماقتوں سے اس ملک کو نقصان پہنچا۔ اس فہرست میں جنرل پرویز مشرف ایک زندہ مثال ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ آرمی چیف تھے اور اُنھوں نے اچانک شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا لیکن اس کے بعد اُن کے واشنگٹن کے ساتھ روابط اور سی آئی اے اور امریکی فوج کو سہولت فراہم کرنے والی پالیسیاں محض اتفاق نہیں تھیں۔ ان کے اقتدار کے مضمرات بہت سنگین تھے، اور ان کی تمازت آج بھی محسوس کی جارہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ سی آئی اے کی پاکستان میں موجودگی دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔
ملک کی داخلی سیاست پر اُن کا اثر بھی کچھ کم زہرناک نہ تھا۔ آج کراچی کی خراب صورت حال اُن کی ’’الطاف سے الفت‘‘ کا نتیجہ ہے۔ حتی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اُنھوں نے ملک کے دامن پر کیچڑ فشانی جاری رکھی، جیسا کہ سعودی شاہ سے رقم وصول کرنے کا اعتراف۔ کیا یہ کسی ملک کے لئے شرمناک نہیں کہ اس کے آرمی چیف کو ریٹائرمنٹ کے بعد کسی اور ملک سے رقم لینی پڑے؟ لیکن مجال ہے جو کوئی اُن سے نظام اور ملک کو نقصان پہنچانے پر سوال بھی کرسکے۔ نہ ہی کوئی یہ جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے (یا جرات کرتا ہے) کہ ملک میں دہشت گردی کا نیٹ ورک کیسے پھیلا اور کس طرح اتنا مضبوط ہوگیا کہ اسے ختم کرنے کے لئے یکے بعد دیگرے فوجی آپریشن کئے جارہے ہیں لیکن یہ کئی عشروں سے اپنی جگہ پر موجود ہے؟ مشرف آج بھی ایک مقدس گائے کا درجہ رکھتے ہوئے ہر قسم کی پوچھ گچھ سے محفوظ ہیں۔
لیکن حسین حقانی اور پرویز مشرف ایسی صرف دو مثالیں ہی نہیں جنہوں نے حکومت میں رہ کر ملک کو نقصان پہنچایا۔ آپ آج ملک کو درپیش مسائل کی فہرست تیار کریں تو آپ کے قدموں تلے زمین نکل جائے گی کہ نسلی تعصبات سے لے کر ایٹمی پھیلائو تک، ہر مسئلے کی جڑیں اسی نرسری میں گڑی ہوئی ہیں جو تاحال خزاں نادیدہ ہے۔ حتیٰ کہ آپ کو میڈیا میں بھی اکثراسی نرسری کے پروردہ شگوفوں کی گل فشانی دکھائی دیتی ہے۔ یہ نام نہاد حب الوطنی اور مذہب کا لبادہ اُوڑھ کر کسی کی بھی کردار کشی کرنے کے لئے بے مہار ہیں۔
وجہ وہی، ان کی جڑیں اُسی نرسری میں پیوست ہیں، ان کا کوئی کچھ بگاڑ ہی نہیں سکتا۔ عدلیہ، پیمرا، حکومت، ہر کوئی نام نہاد آزادی اظہار کے نام پر جمے ہوئے اس بدبودار کیچڑ سے نگاہیں چراتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔انہیں جن ہاتھوں کی اشیرباد حاصل ہے، وہ ان کی اپنے اثاثے سمجھ کر حفاظت کرتے ہیں۔ وہ اپنے وسیع پیمانے پر کردار کشی کرنے والے ہتھیار اپنے تصرف میں رکھ کر خوش ہیں، لیکن اُنہیں اس بات کا احساس نہیں کہ وہ خود بھی اسی دودھاری ہتھیار کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
اگر ہم حسین حقانی، مشرف، طالبان یا الطاف حسین کی مثالوں کی طرف دیکھیں تو ہمارے قومی جسد کو لہولہا ن کرنے والے یہ کانٹے حقیقی ایشو نہیں۔ اصل ایشو وہ نرسری ہے جہاں یہ اگتے اور پروان چڑھتے ہیں، اور جب ان کی تزویراتی اہمیت ختم ہو جاتی تو بھی ان کا وجود باقی رہتا ہے۔ یہ ہمارے مسائل کی وجہ نہیں بلکہ نام نہاد قومی مفاد پر روا رکھے جانے ایکشن کے نتائج ہیں۔ ایک وقت تھا جب حسین حقانی بھی ایسا ہی اثاثہ تھا، اب وہ ایک بوجھ بن چکا ہے۔ یہی بات الطاف حسین اور طالبان پر بھی صادر آتی ہے۔ کیا پتہ آج دکھائی دینے والے بہت سے اہم افراد کل کے حسین حقانی ثابت ہوں۔

.
تازہ ترین