• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ کئی دہائیوں سے خود انحصاری کے زریں اصول پر مبنی دانشمندانہ معاشی پالیسیاں اپنا کر جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کاری کی شرحیں بڑھانے کے بجائے مختلف حکومتیں داخلی و بیرونی قرضوں، بیرونی امداد، قومی اثاثوں کی نج کاری اور گزشتہ 15برسوں میں بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات پر انحصار بڑھاتی رہی ہیں۔ ان ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں نہ صرف پاکستانی معیشت کی اوسط شرح نمو خطے کے ملکوں کے مقابلے میں سست رہی ہے بلکہ پاکستان پر قرضوں کے حجم میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جی ڈی پی کے تناسب سے پاکستان پر قرضوں کا حجم آج بھی دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کاری کی شرحیں بہت کم ہیں کیونکہ معاشی پالیسیاں قومی مفادت کے بجائے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے بنائی جاتی رہی ہیں۔ اندازہ ہے کہ خطے کے بہت سے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں پاکستان ان تینوں مدوں میں جی ڈی پی کے تناسب سے تقریباً بارہ ہزار ارب روپے سالانہ کم وصول کررہا ہے جبکہ کرپشن کی وجہ سے ان رقوم کا دیانتدارانہ استعمال بھی نہیں ہو رہا۔ اس رقم کے بڑے حصے کو وصول کئے بغیر نہ تو معیشت میں پائیدار بہتری آ سکتی ہے اور نہ قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔
آزادی کے 33برس بعد جون 1980ء میں پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم صرف 155ارب روپے تھا جو جون 2013ء میں بڑھ کر 14318ارب روپے ہوگیا۔ جولائی 2013ء سے دسمبر 2016ء کے ساڑھے تین برسوں میں ان قرضوں کا حجم 5954ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 20272ارب روپے ہو گیا۔ نیب کا کہنا ہے کہ کرپشن سے قومی خزانے کو پانچ ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہو رہا ہے (ہمارا تخمینہ آٹھ ہزار ارب روپے سالانہ کا ہے) یعنی قرضوں کا موجودہ حجم صرف چار برسوں میں کرپشن سے ہونے والے نقصانات کے برابر ہے۔ قرضوں کے حجم میں تیزی سے اضافہ ہوتے چلے جانے کی وجوہات میں مالیاتی خسارے کی اونچی شرحیں عمومی طور پر برقرار رہنا شامل ہیں۔ پاکستان کا مالیاتی خسارہ بنیادی طور پر ٹیکسوں کی بڑے پیمانے پر چوری، وفاق اور چاروں صوبوں کا ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد نہ کرنا اور طاقتور طبقوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ و مراعات دینا کرپشن، بدانتظامی، نااہلی، شاہانہ اخراجات، حکومتی شعبے کے کچھ اداروں کے کئی سو ارب روپے سالانہ کے نقصانات، معیشت کو دستاویزی نہ بنانا، حکومت کا خود اپنے قوانین کے ذریعے ٹیکسوں کی چوری، کالے دھن اور ملک سے سرمایہ کے فرار کو ممکن بنانا، وقتاً فوقتاً ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجرا اور کئی ہزار ارب روپے کے ’’ملکی پاناماز‘‘ پر ہاتھ نہ ڈالنے کی وجہ سے ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ ملک کے قرضوں کے انتظام و انصرام کا بنیادی نکتہ مالیاتی خسارے میں کمی لانا رہا ہے۔ اس خسارے میں پائیدار کمی بہرحال نظر نہیں آ رہی۔ حکومت اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے ملکی قرضے لیتی ہے مگر اب ان قرضوں کا حجم اتنا بڑھ گیا ہے کہ ان پر ادا کیا جانے والا سود ہی مالیاتی خسارے کے بڑھنے کا اہم سبب بن گیا ہے۔ 2015ء میں ملکی قرضوں پر ادا کیا جانے والے سود کا حجم ملک کے مجموعی ترقیاتی اخراجات سے زائد تھا۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن )ے منشور کے مطابق معاشی پالیسیاں وضع کرنے کے بجائے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں ان میں اسٹیٹ بینک کا اپنے ڈسکائونٹ ریٹ کو 9فیصد سے کم کرکے 5.75فیصد کرنا اور وفاق اور چاروں صوبوں کا قومی تعلیمی پالیسی 2009ء سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے 2015ء اور 2016ء میں تعلیم کی مد میں تقریباً 2700ارب روپے کم خرچ کرنا شامل ہیں۔ خدشہ ہےکہ پاکستان دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہو گا جہاں 2050ء تک بھی ہر بچہ اسکول نہیں جا رہا ہو گا۔
ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی سے بینکوں کے کروڑوں کھاتے داروں اور قومی بچت اسکیموں میں رقوم جمع کرانے والے لاکھوں افراد کو زبردست نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں جبکہ ملکی بچتوں کی کم شرح رہنے کی وجہ سے پاکستان کا قرضوں پر انحصار بڑھ رہا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے مالیاتی خسارہ اور جاری حسابات کا خسارہ رہنا ناگزیر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ حقیقت بہرحال یہ ہے کہ جولائی 2014ء سے پاکستان کی برآمدات گر رہی ہیں۔ بیرونی قرضوں کو تیزی سے بڑھنے سے روکنے کے لئے غیر ضروری درآمدات کو کم کرنا اور برآمدات کو فروغ دینا بے حد ضروری ہے لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا۔ گزشتہ چھ برسوں میں پاکستان نے 121ارب ڈالر سے زائد کا تجارتی خسارہ دکھلایا۔ اگر اسی مدت میں پاکستان میں بیرونی ملکوں سے تقریباً 93ارب ڈالر کی ترسیلات نہ آئی ہوتیں تو آج معیشت زبردست مشکلات کا شکار ہوتی۔ ان ترسیلات کے ایک بڑے حصے کو سرمایہ کاری میں منتقل کروا کر معیشت کی ترقی اور برآمدات میں اضافے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جو کہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہی نہیں، ترسیلات کا ایک حصہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق III(4) کے تحت ٹیکس کی چوری اور کرپشن کی رقوم کو بغیر قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ شق منسوخ کردی جائے تو ٹیکسوں کی مد میں تین ہزار ارب روپے سالانہ تک کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں، اس فیصلے سے حکومت اس بات کے لئے بھی مجبور ہو گی کہ وہ برآمدات میں اضافے کے لئے موثر حکمت عملی وضع کرے۔
پاکستان میں جی ڈی پی اور برآمدات کا تناسب تقریباً 8فیصد ہے جبکہ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں یہ تناسب 40فیصد ہے۔ اس تناسب سے پاکستانی برآمدات کا حجم 120ارب ڈالر ہونا چاہئے جبکہ موجودہ حجم تقریباً 20ارب ڈالر ہے۔ پاکستان اپنے قرضوں کو اپنے موجودہ مالی وسائل سے ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ملک میں رہائش پذیر پاکستانیوں کے ٹیکس حکام سے خفیہ رکھ کر بیرونی ممالک میں بینکوں میں جو رقوم جمع ہیں ان کا حجم پاکستان کے بیرونی قرضوں کے حجم کے دگنے سے بھی زیادہ ہے چنانچہ یہ ازحد ضروری ہے کہ ان رقوم کے ضمن میں کسی بھی حالت میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرانہ کیا جائے۔ خالق کائنات نے پاکستان کو جو انسانی و مادی وسائل عطا فرمائے ہیں اگر ان سے کماحقہ استفادہ کیا جائے اور مندرجہ بالا گزارشات و مسلم لیگ (ن )کے منشور کی روشنی میں خود انحصاری کے اصولوں پر مبنی معاشی پالیسیاں وضع کی جائیں تو پاکستان قرضوں کے شیطانی چکر سے نکلنے اور تیز رفتار و پائیدار معاشی ترقی حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

.
تازہ ترین