• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنگ والوں نے یوں تو میرے ساتھ ناشتے کا اہتمام کیا تھا، مگر وہاں گفتگو بڑی گمبھیر ہوگئی، دن تھا وہ جب میرے ڈیڑھ سو بچے، پشاور میں ظالمانہ طور پر مار دیئے گئے، یہ وہ دن بھی تھا جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اعلان خبروں میں سب سےآخر میں کیا گیا، ہم سب نے ان دونوں صدموں کو دیگر تفصیلات کے ساتھ تجزیاتی طور پر پیش کیا۔
بنگلہ دیش اور انڈیا کی فی الوقت رعونت کی وجوہات بھی تلاش کیں، اور پھر وہی سوال سامنے آگیا کہ آخر ہمارے بچے علم، اردو اور کتابوں سے دور کیوں ہوئے جارہے ہیں، آخر اس میں نصاب بنانے والوں، اساتذہ اور والدین کا کتنا قصور ہے، ہم ہر بحث کا ساتھ ساتھ نتیجہ بھی اخذ کرتے رہے،نصاب کے حوالے سب لوگوں کا یہ جواب تھا کہ بنیادی طور پر نصاب ہے ہی غلط، اسلامیات کی کتاب میں جو لکھا ہے وہی کچھ معاشرتی علوم میں اور اس طرح کا مواد، اردو کی کتاب میں ہے، بچوں کو نہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے نہ جغرافیہ نہ معاشرتی علوم نہ بنیادی حقوق، نہ ادب آداب اور نہ جدید علوم کہ اب چاند پر بڑھیا نہیں بیٹھی ہے، چالیس برس پہلے انسان چاند پر ہوآیا تھا، اب تو مریخ پر جانے کی، چاند اور مریخ کا ٹکٹ خریدنے اور اسٹیفن ہا کنگ کی طرح سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ دنیا ایک ہزار سال میں ختم ہوجائےگی۔
لوگ سب پڑھے لکھے تھے، سب کا شکایتاً یہ سوال تھا کہ آخر ہمارے بچے اردو کی کتابیں پڑھتے نہیں، یا ان کو دستیاب ہی نہیں جب بتایا گیا کہ کئی پبلشرز نے جو کتابیں شائع کی ہیں اور شہر شہر ہماری دوست رومانہ حسین، بچوں کی کتابوں کو بچوں ہی کے سامنے رکھ کر سفارشات اور نتائج اخذ کرتی ہیں، تو سب لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے، وہ حیران تھے کہ ان کی لائبریری میں ایسی کتابیں تو آئی ہی نہیں، اب یہ سوال کہ کیوں نہیں آئیں، اس کا جواب بھی ان ہی کے پاس تھا، دنیا بھر میں لائبریریاں رات کے گیارہ بجے تک کھلی رہتی ہیں، ہمارے یہاں نیشنل لائبریری بھی دفتروں کے اوقات میں کھلتی ہے اور بند ہوتی ہے، پھر سب اپنے بچپن کی طرف لوٹ گئے کہ جب ہر گلی کےنکڑ پر آنہ لائبریری ہوتی تھی، ہر عمر کے لوگ کتاب لیتے اور شام کو واپس کردیتے کہ ایک اور آنہ دینے کی سکت نہیں تھی، گویا اب دولت کی فراوانی، الیکٹرونکس کے ہمہ جہت فروغ کے باعث توجہ بٹ گئی ہے کہ بقول انتظار حسین نانی اماں کے پاس بیٹھنے والے بچے ہی نہیں رہے، اب تو مائیں چھ ماہ کے بچے کو بھی دودھ کی بوتل منہ میں دیکر، ٹی وی کے سامنے بٹھا کر خود اپنا آپ کام کرنے لگتی ہیں، تو پھر مغربی دنیا کے بچے کیوں اور کیسے پڑھتے ہیں…یہ بھی ہمارا ایک مفروضہ ہے، اس وقت سب سے زیادہ بچے اسرائیل میں پڑھے لکھے ہیں، اور سب سے کم مسلمان اور ہندو قومیں پڑھی لکھی ہیں، سبب یہ کہ زراعت اول، پیری مریدی دوم ایسی وبا ہیں جنہوں نے کتاب کے رشتے کو منقطع کردیا ہے۔
اب تمام لوگوں نے سوال اٹھایا کہ اسلام آباد شہر کی زندگی اور تاریخ تو 45سال پرانی بھی ہے، اس نئے شہر میں ہر سیکٹر میں کوئی نئی لائبریری کیوں نہیں بنائی گئی، میں تو پہلے ہی جلی بیٹھی تھی بتایا کہ ہر سیکٹر میں جہاں مارکیٹ کیلئے جگہ رکھی گئی تھی وہاں لائبریری کیلئے بھی جگہ رکھی گئی تھی اور نقشے میں یہ موجود ہیں، مگر کہیں لائبریری کیلئے مجوزہ پلاٹ پر لال مسجد والوں نے قبضہ کرلیا تھا، باقی جگہوں پر بھی کچھ ایسا ہی قبضہ ہو یا نہ ہو، یہ سچ ہے کہ کسی سیکٹر میں لائبریری نہیں بنی ہے اور سرکار کا کوئی ارادہ بھی نہیں کہ کوئی تقاضا بھی نہیں عوام اور بچوں کی طرف سے۔
ہمارے ملک میں لائبریری اور کتاب پڑھنے کے تصور کو فروغ کون دے، مریم نواز کہ بلاول بھٹو ان لوگوں کو تو سیاست کے دائو پیچ ہی نہیں آتے، بھلا پڑھنے لکھنے کا شوق، وہ تو صرف فاطمہ بھٹو کو ہے جو کبھی مضمون لکھ لیتی ہے یا کبھی ناول، مگر کاملہ شمسی کی طرح ابھی رواں نہیں ہے، ہمارے سارے انگریزی میں لکھنے والے، ماضی کو ہی ٹٹول رہے ہیں۔ویسے تو مارکیز کو دیکھیں یا اوحان پامیک کو یا پھر مصری بڑے مصنف نجیب محفوظ کو، وہاں بھی یادداشتیں، فرینکو کا زمانہ تو کبھی کوئی قدیم قصہ، جس طرح ہمارے ملک کے لکھنے والے، عذاب دوجہاں سہہ کر لکھ بھی رہے ہیں اور اپنے سامنے گردنیں قطع کرتے ہوئے دہشت گردوں کو دیکھتے ہیں، لکھنے والے چاہے اسد محمد خاں ہوں کہ زاہدہ حنا کہ حمید شاہد کہ حسن منظر، ذرا ان کا متن تو دیکھیں، جب تک زندہ رہا، منشا یاد اور اسلم سراج الدین بھی اور سب سے بڑھ کر انتظار حسین، لاشوں کی بے حرمتی اور انسان چاہے چکوال کے رہنے والے ہوں جن کے گھروں میں گھس کر نہ صرف مارا گیابلکہ گھروں کو آگ لگادی، یہ المیہ داستانیں، آپ کو حلب کے علاقے میں موصل اور افریقہ کے ان تمام ملکوں میں دکھائی دیں گی، جہاں آمریت کو بچانے کیلئے کہیں امریکہ، کہیں روس ساتھ دے رہا ہے۔
بہت سے لوگ کتاب پڑھنے سے اس لئے بھاگتے ہیں کہ جو اذیت ٹی وی پر دیکھ کر چینل بدل دیتے ہیں، وہ سطروں کی شکل میں کیسے اندر اتاریں مگر کتاب اور لائبریری کی ضرورت اور اہمیت رہے گی اور ہمیشہ رہے گی۔

.
تازہ ترین