• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منگل 21مارچ کو سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے چیف منسٹر ہائوس میں دریائے سندھ کے پانی کے سلسلے میں سندھ سے ہونیوالی زیادتیوں پر مشتمل ایک انتہائی اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا‘ دیکھا جائے تو یہ پریس کانفرنس کم ’’وفاق‘‘ کے خلاف سندھ کی ایک ایسی چارج شیٹ ہے جسے بہت پہلے جاری کئے جانے کی ضرورت تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ کی زیادہ تر شکایات ’’وفاق‘‘ اور پنجاب سے تھیں۔ سندھ کے اکثر محققین کی یہ رائے ہے کہ پاکستان اب ’’وفاق‘‘ نہیں رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو ریورس گیئر میں رکھ کر ایک بار پھر پچاس کی ابتدائی دہائی میں لاکھڑا کیا گیا ہے۔ اب ہم وزیر اعلیٰ سندھ کی پریس کانفرنس کے چند اہم نکات پیش کرتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:اس وقت ملک میں پانی کا مصنوعی بحران وفاق (اسلام آباد) کا پیدا کیا ہوا ہے‘ سندھ حکومت کی طرف سے اس صورتحال کے خلاف سی سی آئی‘ پارلیمنٹ اور عدالت کے دروازوں پر دستک دینے کا اعلان‘ وفاق اور پنجاب حکومت نے دریائے سندھ سے مزید دو کینال نکالنے کا منصوبہ تیار کیا ہے‘ منگلا اور تربیلا کی ریگولیشن کے اختیارات واپڈا سے واپس لیکر سندھ اور بلوچستان کو دیئے جائیں‘ ارسا کے اختیارات بھی صوبوں کے حوالے کئے جائیں‘ تربیلا سے پہلے منگلا میں پانی پہنچتا ہے‘ Early Kharif کیلئے پانی منگلا سے دیا جائے‘ منگلا میں پانی ہوتے ہوئے پنجاب نے چشمہ اور تونسہ لنکس بناکر دریائے سندھ سے سندھ کا پانی چوری کیا‘ اس ساری زیادتی کے ذمہ دار بجلی کی وفاقی وزارت او ردیگر وفاقی (مرکزی) ادارے ہیں‘ خاص طور پر ساری ذمہ داری واپڈا پر آتی ہے،91 ء کے معاہدے کے تحت کوٹری ڈائون اسٹریم کے پاس پانی نہیں چھوڑا جاتا‘ یہ دیکھنا پڑے گا کہ معاہدوں کی خلاف ورزی کون کررہا ہے؟ ہم نے کئی بار سی سی آئی کو لکھا مگر ہر بار نظر انداز کردیا گیا‘ اس سال سندھ کو Early Kharif میں 50 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا‘ کاٹن کی بوائی کا ہدف متاثر ہوگا‘ ہم نے سی سی آئی کیلئے تفصیلی کیس تیار کیا ہے۔ ان نکات کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ سندھ کو اس وقت دریائے سندھ میں پانی کی کتنی شدید کمی کا سامنا ہے‘ یہ اچھی بات ہے کہ بقول وزیر اعلیٰ سندھ کے یہ کیس سی سی آئی میں اٹھائیں گے‘ پارلیمنٹ میں بھی اٹھائیں گے اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے۔ سندھ کو کسی بڑے بحران سے بچانے کیلئے یہ سب اقدامات اٹھانا بہت ضروری ہیں‘ مگر کیا ان اقدامات سے یہ بحران ٹل جائے گا‘ مجھے اجازت دیں کہ میں کہوں کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے جو خدشات ظاہر کیے ہیں ان کے مدنظر ایک ایسا خطرناک بحران پیدا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے کہ اب سندھ کو وہ اقدامات کرنے پڑیں گے جو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کرنے کے بعد سندھ میں اقدامات اٹھائے گئے تھے۔ سب کو یاد ہوگا کہ اس مرحلے پر سندھ کی ساری سیاسی جماعتیں متحد ہوگئی تھیں اور ساری سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں و کارکنوں نے پیپلز پارٹی کی اس وقت کی سربراہ شہید بے نظیر بھٹو کی قیادت میں گھوٹکی ضلع میں سندھ پنجاب بارڈر پر دھرنا دیکر اسے سیل کردیا تھا‘ ساتھ ہی ایک طرف بلوچوں کا ایک جلوس بلوچستان‘ پنجاب بارڈر پر پہنچا اور وہاں دھرنا دیا‘ ساتھ کے پی کے عوام نے خان عبدالولی خان کی قیادت میں اٹک پل تک مارچ کیا اور وہاں سارا دن دھرنا دیا۔ وقت آگیا ہے کہ تاریخ کو ایک بار پھر دہرایا جائے‘ سندھ میں ساری جماعتیں ماضی کی طرح متحد ہوکر سندھ پنجاب بارڈر سیل کردیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ آج کی صورتحال میں جن ’’صاحب‘‘ کے پاس اس وقت پی پی کی باگیں ہیں وہ اس حکمت عملی کا حصہ بننے کیلئے تیار ہوں گے یا نہیں۔ مگر آئیے کہ یہ بات ریکارڈ پر لے آئیں ’’اگر یہ سب کچھ نہیں کیا جاتا تو ’’سندھ کا خدا حافظ‘‘۔ سید مراد علی شاہ نے اپنی پریس کانفرنس میں ایک انتہائی خطرناک انکشاف کیا ہے کہ وفاقی (مرکزی) اور پنجاب کی حکومتوں نے دریائے سندھ سے دو اور کینال نکالنے کا منصوبہ بنایا ہے‘ سندھ کیلئے یہ ایک انتہائی خطرناک منصوبہ ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو سمجھ لیں کہ سندھ کیلئے قیامت آگئی ہے،وزیر اعلیٰ کے ایک اور نکتے کا ذکر کروں گا جس کے تحت انہوں نے کہا ہے کہ منگلا اور تربیلا کی ریگولیشن کے اختیارات واپڈا سے لیکر سندھ اور بلوچستان کو دیئے جائیں‘ میرے خیال میں یہ مطالبہ بھی بہت اہم ہے جہاں تک منگلا کا تعلق ہے تو شروع سے منگلا کے پانی پر پنجاب کے ساتھ سندھ کا بھی حق ہے‘ مگر سندھ میں پانی کی شدید ترین کمی پیدا ہونے کے باوجود کبھی بھی منگلا سے سندھ کیلئے پانی نہیں چھوڑا گیا۔ شاہ صاحب نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ارسا کے اختیارات بھی صوبوں کے حوالے کیے جائیں یہاں میں یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ ارسا کی تجویز سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق علی نے وزیر اعظم نواز شریف کو دی تھی یہ تجویز دراصل سندھ کے ایک بڑے اقتصادی ماہر پی کے شاہانی نے تیار کی تھی‘ مجھے یہ بات ایک دن شاہانی نے بتائی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ایک دن سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق کا ٹیلی فون آیا کہ انہیں ان کی مدد کی شدید ضرورت ہے۔ شاہانی نے کہا کہ جب میں جام صادق سے ملنے سی ایم ہائوس گیا تو وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئے جہاں ہم دونوں اکیلے تھے۔ شاہانی نے کہا کہ مجھے جام صادق بہت مایوس نظر آئے‘ کمرے میں سیٹوں پر بیٹھتے وقت جام صادق نے شاہانی سے کہا کہ 91 ء کے معاہدے میں‘ میں سندھ کا حصہ بہت دے چکا ہوں‘ مجھے کوئی ایسی تجویز دیں کہ سندھ کے نقصانات کا ازالہ بھی ہو اور سندھ مزید نقصانات سے بچ سکے۔ شاہانی نے ایسی تجویز تیار کرنے کیلئے ان سے چند دن مانگے‘ کچھ دنوں کے بعد انہوں نے ایک تجویز تیار کرکے جام صادق کے حوالے کی جس میں کہا گیا تھا کہ صوبوں میں پانی کی تقسیم کا چارج واپڈا کو دینے کی بجائے ’’انڈس ریور سسٹم اتھارٹی‘‘ (ارسا) کے نام سے ایک ادارہ بنایا جائے جس کا ہیڈ کوارٹر سکھر میں قائم کیا جائے‘ اس میں ہر صوبے سے ایک ممبر لیا جائے مگر بعد میں اس تجویز کا کیا حشر ہوا‘ وہ بھی کم دلچسپ نہیں‘ ایک تو مرکز اور پنجاب ارسا کا ہیڈ کوارٹر سندھ کے شہر سکھر کو بنانے کیلئے تیار نہیں ہوئے لہذا ارسا کا ہیڈ کوارٹر لاہور کو بنایا گیا‘ ساتھ ہی تجویز تو یہی تھی کہ ارسا میں ہر صوبے سے ایک ممبر لیا جائے اس سلسلے میں مرکز کا کوئی ذکر نہیں تھا مگر مرکز اور پنجاب بضد رہے کہ ایک ممبر مرکز کا نمائندہ بھی ہو لہذا ایسا ہی ہوا اس کے نتیجے میں لمبے عرصے تک مرکز کے نمائندے کا تعلق پنجاب سے رہا لہذا جب بھی کوئی متنازع رائے شماری ہوئی تو پنجاب کے دو ووٹ ہوتے یہ تو پرویز مشرف کی مہربانی ہوئی کہ ارسا کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے اسلام آباد منتقل کیا گیا اور کچھ عرصے کیلئے ارسا میں مرکز کا نمائندہ سندھ سے لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اس وجہ سے کیا گیا کہ سندھ کو کالا باغ ڈیم کی حمایت کیلئے قائل کیا جاسکے۔

.
تازہ ترین