• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سال قبل ہی ہر بڑی سیاسی جماعت 2018ء میں ہونے والے عام انتخابات کیلئے کمر کس رہی ہے۔ہر ایک کی نظریں پنجاب پر لگی ہیں جہاں اصل انتخابی معرکہ ہو گا اور جو بھی یہاں جیتے گا وہی وفاقی حکومت بنا سکے گا۔ن لیگ کے صدر وزیراعظم نوازشریف نے اپنی پارٹی کو انتخابات کی تیاری کیلئے گوآہیڈدے دیا ہے اور اپنے تمام ممبران اسمبلی کو کہہ دیا ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں الیکشن کی تیاری شروع کردیں۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت انہیں خطیر فنڈز دے گی تاکہ وہ اپنے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کر سکیں۔ وزیراعظم خود بھی پلان بنا رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے مختلف علاقوں کے دورے کریں گے۔ ن لیگ کے موجودہ ایم این ایز اور ایم پی ایز میں سے بہت بڑی اکثریت ہی اس کے اگلے انتخابات میں اس کے امید وار ہوں گے کیونکہ ان کی کارکردگی عمومی طور پر تسلی بخش رہی ہے۔شواہد بتاتے ہیں کہ اس جماعت کی پنجاب میں پوزیشن کافی اچھی ہے اور اسے یقین ہے کہ یہ اگلا انتخابی معرکہ آسانی سے جیت جائے گی۔تاہم اسے سندھ جس کو اس نے بالکل نظر انداز کیا ہوا ہے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے عندیہ دیا ہے کہ اگلے ایک سال میں وہ اس صوبے پر کافی توجہ دیں گے تاکہ یہ وہاں سے بھی کچھ سیٹیں حاصل کر سکیں۔ن لیگ بلوچستان کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہے کیونکہ اس کی اپنی پوزیشن بھی وہاں اچھی ہے اور ساتھ ساتھ اس کے اتحادی بشمول پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی بھی کافی سیٹیں جیت سکتے ہیں۔رہا صوبہ خیبرپختونخواتو وہاں بھی یہ پرامید ہے کہ یہ 2013ء کے مقابلے میں 2018ءمیں بہتر کارکردگی دکھائے گی۔
تاہم اصل نظریں عدالت عظمیٰ کے پاناما کیس میں ہونے والے فیصلے پرلگی ہیں جو کہ وزیراعظم کے سیاسی مستقبل کیلئے انتہائی اہم ہے۔ہر کوئی بے چینی سے فیصلے کا منتظر ہے۔ انتظار کی گھڑیاں بہت لمبی ہو گئی ہیں۔فیصلے کو محفوظ کئے ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ابھی بھی کوئی حتمی بات نہیں ہے کہ اس کا اعلان کب ہو گا۔سپریم کورٹ سے کوئی خبر نہیںآرہی کہ کب فیصلہ صادر کیا جائے گا۔ دریں اثناء اس بنچ کے تمام 5جج صاحبان مختلف بنچوں میں عدالتی کام سر انجام دے رہے ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فیصلہ لکھا جاچکا ہے تاہم اس کی نوک پلک درست کی جارہی ہے۔ عام طور پر جج صاحبان اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بنچ کے ہیڈ یا کوئی اور سینئر جسٹس فیصلہ لکھیں گے اور اس کے بعد یہ فیصلہ باقی ججوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جسے پڑھ کر یا تو اس کی مکمل حمایت کر دی جاتی ہے یا اس کی حمایت کرتے ہوئے اپنے کچھ اضافی نکات لکھ دیئے جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی جج اس فیصلے سے یکسر متفق نہ ہو اور وہ اپنا الگ فیصلہ لکھ دے۔یہ بھی عدالتی پریکٹس ہے کہ چھوٹے یا بڑے بنچ متفقہ فیصلہ دے دیںظاہر ہے اس کیلئے ججوں میں کافی غور و خوض ہوتا ہے۔ چاہے یہ فیصلہ متفقہ ہو یا اکثریتی۔ ن لیگ یقیناً بڑی بے چین ہے۔ وزیراعظم اور ان کی جماعت سمجھتی ہے کہ کہیں یہ فیصلہ انہیں بہت زیادہ سیاسی نقصان نہ پہنچا دے جبکہ وہ حکومتی کارکردگی کے لحاظ سے بہت اچھے جارہے ہیں اور انہیں سیاسی میدان میں اپنے مخالفین سے کوئی بہت بڑا چیلنج درپیش نہیں ہے۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ فیصلہ کچھ بھی ہو اسکے اثرات اگلے انتخابات پر ضرور ہوں گے۔
2018ءمیں ہونیوالے انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی بڑی گھن گرج شروع کر دی ہے اور ان کا اصل ٹارگٹ ن لیگ ہی ہے نہ کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) جس نے دراصل ان کا سارا ووٹ بینک ہضم کر لیا ہے۔ان کی بھر پور سیاست کی وجہ سے ان کے بیٹے بلاول بڑی حد تک بیک گرائونڈ میں چلے گئے ہیں۔ ان کی ملک سے غیر موجودگی میں بلاول کافی سرگرم تھے اور بہت سے لوگوں اور پیپلزپارٹی کے کئی رہنمائوں کا خیال تھا کہ نوجوان بلاول اپنی جماعت کو بہت ہی تکلیف دہ صورتحال سے نکالنے میں کسی حد تک کامیاب ہو جائیں گے مگر یہ سب امیدیں اب دم توڑ چکی ہیں۔اس پارٹی کے کئی سینئر لیڈر نہیں چاہتے کہ آصف زرداری کا سایہ بھی پیپلزپارٹی پر رہے۔ان کی خواہش تھی کہ بلاول کو مکمل طور پر فری ہینڈ دیا جائے۔مگر ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاست کی چوہدراہٹ سے دست کش ہونے کو تیار نہیں ہوتا چاہے گدی اس کے بیٹے کو ہی ملنی ہو۔ آصف زرداری کو سوفیصد یقین ہے کہ ان سے زیادہ عقل مند سیاست دان نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے لہٰذا وہی پیپلزپارٹی کو اصلی حالت میں لائیں گے اور بلاول ابھی بچہ ہے اور وہ اس قابل نہیں ہے کہ جماعت کی باگ ڈور مکمل طور پر اس کے حوالے کر دی جائے حالانکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کا بیڑا غرق جتنا آصف زرداری نے اپنے5سالہ دور حکومت میں کیا اتنا کبھی نہیں ہوا۔ سابق صدر کافی زور شور سے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح پنجاب میں پارٹی کو بحال کریں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اسی مقصد کیلئے اب اپنا ڈیرہ لاہور میں ہی جمائیں گے۔ان کیلئے اگلے انتخابات کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ پنجاب کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی تمام سیٹوں پر طاقتور امیدوار کھڑے کر سکیں۔پچھلے الیکشن کو گزرے 4سال ہو گئے ہیں مگر ابھی تک پیپلزپارٹی 2013ءکی پوزیشن سے بہت زیادہ نکل نہیں پائی۔
جہاں تک پی ٹی آئی کی اگلے انتخابات کیلئے تیاریوں کا تعلق ہے یہ تو فی الحال نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ اسے مکمل یقین ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اسے سیاسی میدان میں بے مثال طریقے سے بیل آئوٹ کر دے گا اور وہ اسی کی بنیاد پر ہی 2018کے انتخابات بڑی آسانی سے جیت جائے گی کیونکہ اس فیصلے کی وجہ سے وزیراعظم کو بہت بڑانقصان ہو جائے گا اور وہ سیاسی میدان سے باہر ہو جائیں گے۔ان 4 سالوں میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کچھ ہفتوں سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کچھ آرام سکون سے بنی گالہ میں بیٹھے اپنی ’’سیاست‘‘ کر رہے ہیں اور بڑی شدت سے عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں ورنہ وہ تو ہر روز کوئی نہ کوئی جلسہ جلوس ٗ ہنگامہ یا دھرنا دینے یا اس کا اعلان کرنے پر لگے ہوئے تھے۔ ان کی مستقبل کی ساری سیاست عدالت عظمیٰ کے آنے والے فیصلے کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ انہوں نے پچھلے 4سالوں میں ہرجمہوری اور غیر جمہوری ٗآئینی اور غیر آئینی حربہ آزمایا کہ وہ وزیراعظم سے جان چھڑا سکیں مگر سیاسی میدان میں ناکام رہے اب وہ یہ ہاری ہوئی سیاسی جنگ کو عدالتی میدان میں جیتنا چاہتے ہیں۔ ابھی تک وہ عدالت سے بڑے پرامید ہیں اور اس پر مکمل اعتماد بھی ظاہرکر رہے ہیں مگر فیصلہ ان کے حق میں نہ آنے کی صورت میں وہ فوراً یوٹرن لے لیں گے اور یہی ان کی تاریخ ہے۔ وہ تو الیکشن کمیشن کے خلاف بھی عوامی مہم شروع کرنے والے تھے مگر انہوں نے اسے بغیر اعلان کئے اچانک دفن کردیا کیونکہ کمیشن نے اسپیکر کے بھجوائے ہوئے ان کے اور جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کے ریفرنس مسترد کردیئے اور وہ بہت خوش ہو گئے کہ کمیشن نے بڑی غیر جانبداری سے کام کیا ہے۔

.
تازہ ترین