• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوری پاکستانی قوم توہین رسالتؐ کے قانون کے حوالے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے جراتمندانہ اقدام کو سراہتی ہے۔ مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کی جا سکتی۔ یہ ہمارے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ آزادیٔ اظہار رائے کے نام پر ایک دوسرے کے عقائد کو نشانہ بنانے کی اجازت دینا ناقابل فہم اور دنیا میں عدم برداشت کی فضا کو قائم کرنے کے مترادف ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کرنے والے بلاگرز کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے وزیر داخلہ سے جواب طلب کر لیا ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد قابل برداشت نہیں ہے اور اس کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے لئے دیگر مسلمان ملکوں کو بھی اعتماد میں لیں گے۔ دیر آید درست آید کے مصداق یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب جیسی ویب سائٹس میں مسلسل گستاخانہ مواد نشر کر کے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کو چھلنی کیا جا رہا ہے۔ چند سال پہلے بھی پاکستان میں یو ٹیوب کو انہی وجوہات کی بنا پر بند کیا گیا تھا اور بعد ازاں متنازع مواد ہٹانے کے بعد اسے دوبارہ چلایا گیا۔ آج ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا کے ذریعے یہی مذموم اور ناپاک جسارت کی جا رہی ہے جس کے خلاف پاکستان سمیت پوری امت مسلمہ میں شدید اشتعال پایا جا رہا ہے۔ اب اس حساس اور اہم معاملے پر قومی و صوبائی اسمبلی میں قراردادیں منظور ہو چکی ہیں تو قانونی تناظر میں ان شر پسندوں کی بیخ کنی بھی کی جانی چاہئے۔ سوشل میڈیا پر موجود تمام قابل اعتراض پیجز فیس بُک اور ٹوئٹر اکائونٹس فوری بلاک کیے جائیں اور یہ بھی دیکھا جائے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جہاں سے یہ پوسٹ کیے جا رہے تھے۔یہ امت مسلمہ کے جذبات سے کھیلنے کی مذموم کوشش ہے جسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ بدقسمتی سے چند ہفتوں سے پاکستان میں بھی ایسے مٹھی بھر شر پسند عناصر سرگرم ہیں۔ کبھی بھینسا کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی نام بدل کر اسلامی تعلیمات کو توڑ موڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عالمی امن کو تباہ و برباد کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ پوری پاکستان قوم اس ایشو پر متحد ہے۔ حضور نبی کریمﷺ کی محبت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ گستاخی کے مرتکب افراد کے خلاف فی الفور کارروائی کی جانی چاہئے اور ان شر پسند عناصر کی سرکوبی کے لئے حکومت پاکستان کو عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اسی تناظر میں لاہور پریس کلب میں جماعت اسلامی پنجاب کے زیر اہتمام تحفظ ناموس رسالتؐ کنونشن میں 30دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کی طرف سے مشترکہ اعلان کیا گیا ہے کہ سیکولر لابی کی طرف سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف کوئی اقدام کیا گیا تو پورے ملک میں تحریک چلائیں گے۔ ناموس رسالت کنونشن میں گستاخان رسولؐ کے خلاف بہادرانہ اور جرات مندانہ فیصلہ دینے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس اہم کنونشن میں مختلف دینی و سیاسی جماعتوں کے قائدین میاں مقصود احمد، فرید احمد پراچہ، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، حافظ زبیر احمد ظہیر، ذکر اللہ مجاہد، کاظم رضا نقوی، بلال قدرت بٹ، عبدالغفار روپڑی، جاوید قصوری، ملک بشیر نظامی، سردار محمد خان لغاری، سید عبدالوحید شاہ، محمد ایوب ایڈووکیٹ، انور گوندل، علامہ نعیم جاوید، علامہ سبطین سبزواری، برہان الدین عثمانی، رائو ظفر اقبال، قاری عطاء الرحمان، علی عمران شاہین شریک ہوئے۔ اس موقع پر مختلف دینی و سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سوشل میڈیا پر گستاخی کے مرتکب بلاگرز کو آخر کس نے رہا کروایا اور ملک سے باہر بھجوایا؟ گستاخی کے مرتکب بلاگرز کے حق میں جلوس نکالنے اور پروگرام کرنے والوں کے خلاف گستاخی رسولؐ کا مقدمہ درج کیا جائے۔ اگر گستاخانہ مواد نشرکرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو ملک میں امن وامان کاسنگین مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہ فرض اولین ہے کہ وہ آزادیٔ اظہار کو ڈھال بنا کر پاکستان کے اسلامی تشخص کو پامال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کریں اور مقدس ہستیوں کے احترام کو یقینی بنایا جائے۔ چند شر پسند عناصر ناموس رسالتؐ اور صحابہ کرامؓ کے متعلق گستاخانہ مواد کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کر رہے ہیں۔ ایسے عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اس حوالے سے جرات مندانہ ریمارکس دے کر درحقیقت پوری قوم کی ترجمانی کی ہے۔ سوشل میڈیا میں توہین آمیز مواد کے ذریعے معاشرے میں فتنہ و فساد پیدا کرنے والے لوگ کسی معافی کے مستحق نہیں ہیں اور جسٹس شوکت صدیقی نے انہیں دہشت گرد کہا ہے تو بجا طور پر درست کہا ہے۔ ایسے دہشت گردوں کے ساتھ آپریشن ردالفساد میں نمٹنا چاہئے۔ حضور نبی کریمﷺ سے محبت و عقیدت مسلمانوں کا سرمایہ ہے۔ گستاخانہ مواد امت مسلمہ کے جذبات سے کھیلنے کی ناپاک جسارت ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسلام دین برحق اور امن کاداعی ہے۔ اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم کر کے دنیا کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا مگر 70برسوں سے یہاں انگریزوں کا نظام رائج ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل درآمد کر کے معاشرتی بگاڑ کو ختم اور دنیا و آخرت میں فلاح پائی جا سکتی ہے۔ عدالتی احکامات کے باوجود گستاخانہ پیجز چلانے والے جن70 افراد کی نشاندہی ہو چکی ہے ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہ ہونا انتہائی قابل مذمت اور افسوس ناک امر ہے۔ مواد کی تشہیر میں ملوث افراد اور غیر ملکی این جی اوز کاسراغ لگانے کے باوجود گرفت میں نہ لانے سے مسلمانوں کے دینی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے محض مذمتی بیانات سے آگے نہ بڑھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ سائبر کرائم بل میں گستاخی سے متعلق قانون کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکمرانو ں کی ترجیحات میں دینی و ملی معاملات شامل نہیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد میں ملوث افراد، ان کے سہولت کار، مالی معاونین اور دیگر ذرائع کو سامنے لانا حکومت اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ ان کی جانب سے راہ فرار اختیار کرنا مجرمانہ طرز عمل ہے۔ اسے کسی بھی صورت پاکستان کے 20کروڑ عوام قبول نہیں کریں گے۔ آرٹیکل 19کے تحت آزادی اظہار رائے کا غلط استعمال ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان کا آئین و قانون تمام انبیاء کرامؑ بالخصوص امام الانبیاء خاتم النبین و المرسلین حضرت محمدﷺ، صحابہ کرامؓ، اہل بیت عظامؓ، تمام مقدس شخصیات شعائر اسلام کے تحفظ کی ذمہ داری لیتا ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295سی ان ہی مقدس شخصیات کے تحفظ کے لئے قائم کی گئی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان انتشار پسندوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔ کسی کو بھی آزادیٔ اظہار کی آڑ میں اسلامی شعائر کامذاق اڑانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

.
تازہ ترین