• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
23مارچ1940ء کے تاریخ ساز اجلاس کی یاد میں ہر سال یومِ پاکستان شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ برسہا برس سے اس موقع پر افواجِ پاکستان کی پریڈ قومی جوش و خروش کو بڑھانے اور دشمن کے دلوں پر پاکستان کی دھاک بٹھانے کا باعث ہوتی ہے۔اس سال مسلح افواج کی پریڈ میں چین، سعودی عرب اور ترکی کے دستوں نے جبکہ جنوبی افریقہ کی فوج کے سربراہ نے بنفس نفیس شرکت کی اور اہل وطن کو ہی نہیں دنیا کو بھی یہ پیغام دیا کہ پاکستان تنہا نہیں۔ صدر پاکستان، وزیر اعظم اور بری، بحری اور ہوائی افواج کے سربراہان کی ایک اسٹیج پر موجودگی سے قومی وحدت اور یگانگت کا دلکش نظارہ اہل وطن کے دلوں کو گرما رہا تھا۔ یومِ پاکستان کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدرِ مملکت ممنون حسین نے کہا کہ پاکستان کا دفاع مضبوط اور ناقابل تسخیر ہے۔ ہماری روایتی و ایٹمی طاقت کا مقصد عالمی اور علاقائی امن کو یقینی بنانا ہے اسی لئے ہم پوری دنیا خاص طور پر اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور دوستی چاہتے ہیں اور ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہے تاہم بھارت کو مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنا ہو گا۔ جس وقت اسلام آباد میں قومی پرچم لہرایا جا رہا تھا تقریباً اسی وقت سرینگر میں بھی دختران ملت نے یومِ پاکستان کی ایک تقریب کا انعقاد کیا ،پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا اور پاکستان کا قومی ترانہ گایا۔ بھارت میں یومِ پاکستان کی تقریب سے پاکستانی ہائی کمشنر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کی تحریکوں کو دبایا تو جا سکتا ہے مگر انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یوں تو یومِ پاکستان پر ہر سال قوت و شوکت کا عظیم الشان مظاہرہ کیا جاتا ہے مگر اس سال ہمارے قابلِ اعتماد دوستوں کی فوجی پریڈ میں شرکت سے تقریب کو چار چاند لگ گئے اور سفارتی و تزویراتی سطح پر پاکستان کی پوزیشن بہت مستحکم ہوئی ہے۔ اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو خط کے ذریعے یوم پاکستان پر مبارکباد دی اور کہا کہ پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ملکوں سے مضبوط تعلقات اولین ترجیح ہے۔ ریاستی انتخابات کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان مخالف جذبات کے شعلے بھڑکائے، لائن آف کنٹرول کی بار بار خلاف ورزی کی گئی اور آزاد کشمیر کے سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر پُرامن شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا نیز گزشتہ چند ماہ کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیری جدوجہد آزادی کے جوش و جذبے کو سرد کرنے کے لئے توپوں کے دہانے اور جیلوں کے دروازے کھول دیئے گئے۔ اس تلخ اور حوصلہ شکن پس منظر کے باوجود اگر بھارت اخلاصِ نیت اور کھلے دل و دماغ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آ جائے تو کشمیر سمیت کئی دوطرفہ مسائل حل ہو سکتے ہیں اور یہ خطہ امن و آشتی کا مسکن بن سکتا ہے۔ انہی دنوں ایک اور حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے جو خطے کی امن و سلامتی کے لئے ایک نیک شگون ثابت ہو سکتی ہے۔ چین، روس اور پاکستان کے ایما پر اپریل میں ماسکو کے مقام پر افغانستان میں قیام امن کے لئے ایک اہم کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس کی کامیابی سے خطے کے دوسرے ممالک میں بھی بدامنی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ماسکو کانفرنس سے پہلے پاکستان، افغان طالبان سے اسلام آباد میں ملاقاتیں کر رہا ہے تاکہ ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت پاکستان کو گیدڑ بھبھکیاں دینا بند کرے، کنٹرول لائن پر بلا اشتعال گولہ باری نہ کرے، افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں سے اجتناب کرے اور اقوام متحدہ کی ان قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرے جن کو بھارت نے ساری دنیا کے سامنے قبول کیا تھا۔ اس وقت خطے میں قیام امن کے لئے مذاکراتی عمل تیز تر ہوتا دکھائی دے رہا ہے اگر نیو دہلی، کابل اور افغان طالبان چاہیں تو یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ اس خطے کے غربت و افلاس کے مارے عوام کو پہنچے گا اور ان کا مستقبل خوشگوار بھی ہو گا اور خوشحال بھی۔

.
تازہ ترین