• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان اور بھارت کے درمیان نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ میں شمولیت کا ایک نیا محاذ کھل گیا ہے، امریکہ بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ کا اہل سمجھتا ہے اور اسی لئے اس نے بھارت کی شمولیت کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے مگر بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ممبر شپ کا اہل اس لئے نہیں ہے کہ اس نے ایٹمی عدم پھیلائو معاہدہ NPT پر دستخط نہیں کئے، اِس گروپ میں شمولیت کیلئے یہ لازمی ہے کہ اس نے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدہ پر دستخط کئے ہوئے ہوں، چنانچہ چین اور کئی اور ممالک نے اس کو ویٹو کردیا۔ قانون یہ بھی ہے کہ ایک بھی ملک کسی ملک کی شمولیت پر اعتراض کردے تو اُس کو ممبر نہیں بنایا جاسکتا۔ واضح رہے کہ جوہری مواد کی فراہمی کا یہ گروپ جو NSG کہلاتا ہے، 48 ممبران پر مشتمل ہے اور بھارت کے 1974ء کے ایٹمی دھماکہ کے بعد 1975ء میں معرضِ وجود میں آیا تھا، تاکہ کوئی اور ملک ایٹمی صلاحیت کا حاصل نہ کرے۔ گمان یہ ہے کہ شاید پاکستان کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے سے روکنا اِس کی ترجیح رہی ہوگی، کیونکہ پاکستان بھارت کو بالادست قوت بنانے کے حق میں نہیں ہے، چین کی مخالفت نے وقتی طور پر تو بھارت کو اس گروپ میں شمولیت سے روک دیا ہے، اِس گروپ میں بھارت کی شمولیت کا یہ مطلب ہے کہ اس کو ایٹمی ملک مان لیا گیا ہے اور ایٹمی معاملات میں دُنیا بھر میں جو ریسرچ ہورہی ہے اس سے وہ بھارت کو آگاہ کریں گے۔ اس طرح بھارت ایک مجموعی ریسرچ سے استفادہ حاصل کرکے پاکستان سے آگے نکل سکتا ہے، جو نہ پاکستان چاہتا ہے اور نہ ہی چین۔ بھارت نے امریکی ایما پر اس گروپ میں ممبر شپ کی درخواست دی تو پاکستان نے بھی اس گروپ کی ممبر شپ کیلئے اپنے آپ کو اہل سمجھا اور وہ ممبر شپ کا خواہاں ہوا، اِس کے بعد یہ بحث شروع ہوئی کہ اگر اُن ممالک جنہوں نے ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدہ (NPT) پر دستخط نہ کئے ہوں اور اُن کو ممبر بنایا جائے تو وہ کیا معیار متعین کیا جائے۔ پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی 18 مارچ 2017ء کو اس ضرورت پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں کسی نئے رکن کی شمولیت کیلئے معیار وضع کرنے کی ضرورت درپیش ہوگئی ہے، یہ بات انہوں نے لندن میں برطانیہ کے قومی سلامتی کے مشیر سرمارک لائل گرانٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ معیار کیا ہو، ہمارے نزدیک معیار کا تعین کرنے کیلئے کئی اصول وضع کرنا پڑیں گے، کہ کسی ملک کا ایٹمی پروگرام کس قدر محفوظ ہے اور کیا وہ اس قابل ہے کہ اس نے ایٹمی اثاثہ جات کی حفاظت کیلئے جو اقدامات اٹھائے ہیں اس سے کسی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے ممبر مملک کو ایٹمی پروگرام کو محفوظ بنانے میں مدد مل سکتی ہے، یہ کہ اس نے جب اس ایٹمی پروگرام کو محفوظ بنایا تو کیا اقدامات اٹھائے، یہ کہ اس نے ایٹمی مواد یا اثاثہ جات کو محفوظ بنانے کیلئے کوئی آزاد ادارہ بنایا جو حکومت کے اثر سے آزاد ہو اور اس نے اپنے پروگرام کو محفوظ بنانے کیلئے کتنا مضبوط و مربوط نظام بنا رکھا ہے کہ وہ مخالف ممالک کے منظم اور جدید منصوبہ سازوں کے دہشت گردوں کے منصوبہ جات کو نہ صرف ناکام بنا چکا ہے بلکہ اس نے ایٹمی اثاثہ جات کے معاملے میں ان دہشت گردوں کو ایٹمی تحفظ کے دائرہ سے بہت دور اس طرح رکھا ہو کہ بھرپور دہشت گردی کے وقت بھی وہ اس کے قریب بھی نہ پہنچ سکے ہوں، اس کے ملک میں ایٹمی حوالے سے کوئی حادثہ نہ ہوا ہو، اگرچہ اس کے ملک میں زلزلے آئے ہوں یا سیلاب، دونوں یا کسی اور شکل میں بھی اس ملک کا ایٹمی پروگرام محفوظ رہا ہو۔ اس کے پروگرام کی مسلح افواج حفاظت کررہے ہوں، یہی نہیں بلکہ حفاظت کا نظام اس قدر پیچیدہ اور مشکل رہا ہو کہ جدید سے جدید ترین ملک اُس حفاظتی حصار کو خواہش کے باوجود نہ توڑ سکا ہو، اس کے علاوہ یہ دیکھا جائے کہ کسی اور عالمی ایٹمی ادارے کے درمیان اس کا سول اور ملٹری پروگرام جدا ہو اور اتنا شفاف ہو کہ کوئی اس پر انگلی نہ اٹھا سکے اور وہ ملک رضاکارانہ طور پر اپنے ایٹمی تنصیبات عالمی تحفظ جوہری پروگرام کے تحت لایا ہو اور جو IAEA کے ہر قانون کو رضاکارانہ طور پر قبول کرتا ہے اور اس پر عمل درآمد کرتا ہے، اس نے ازخود ایٹمی اسلحہ کا تجربہ خود سے ممنوع قرار دیا ہو اور امریکہ کے ساتھ مل کر اس معاملے پر کام کررہا ہو کہ کب ایٹمی مواد کی افزودگی روک دی جائے اور اس نے یہ اصول وضع کر رکھا ہو کہ وہ کسی ملک کو ایٹمی مواد کی افزودگی کی صلاحیت حاصل کرنے میں نہ مدد دے گا اور نہ ہی اس کو ایسا مواد فراہم کرے گا۔ اسی طرح ایسے کسی مواد کے تحفظ کے اقدامات اٹھا رکھے ہوں۔ اگر اِن اصولوں کو بغور مطالعہ کیا جائے تو پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو اِس معیار پر پورا اترتا ہے، پاکستان اور IAEA کے درمیان تعلق دیرینہ ہے، پاکستان عالمی ادارہ برائے ایٹمی ایجنسی (IAEA) سے 2003ء میں جڑا جبکہ بھارت 2005ء میں، پاکستان نے آزاد ایٹمی تحفظ کا ادارہ بنایا ہوا ہے جبکہ بھارت نے ایٹمی پروگرام کے تحفظ کا ادارہ ایک تو دیر سے بنایا اور ابھی تک اس نے اس کو مکمل طور پر حکومت کے اثر سے آزاد نہیں کیا ہے۔ پاکستان میں جتنی دہشت گردی ہوئی، مسلح افواج کی تنصیبات پر حملے ہوئے مگر ایٹمی اثاثہ جات کے معاملے میں دہشت گرد قریب سے بھی نہیں گزر پائے، 2005ء میں پاکستان کے پہاڑی علاقہ جات میں سخت زلزلہ آیا مگر ایٹمی اثاثہ جات اللہ کے حکم سے محفوظ رہے اور 2010ء میں بڑے سیلاب نے پاکستان کو اپنے گھیرے میں لیا لیکن اس وقت بھی ایٹمی اثاثہ جات پر کوئی بات تک نہیں ہوئی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام کے محفوظ ہونے کا اعتراف امریکی صدر باراک حسین اوباما نے 20 اکتوبر 2015ء اور 31 مارچ 2016ء کو دو مرتبہ کیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بلاشبہ محفوظ ہے، پاکستان نے ساری دُنیا کو ایٹمی پروگرام کو محفوظ بنانے کیلئے تربیت دینے کی پیشکش کر رکھی ہے۔ اِس کے مقابلے میں بھارت کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کئی خبریں اخبارات کی زینت بنیں کہ اُس کے کئی سائنسدانوں نے خودکشی کی، یورینیم کو فروخت کرنے یا خریدنے کی کوشش کی، بھارت کا پوراایٹمی پروگرام عالمی ادارہ تحفظ ایٹمی انرجی کے تحت نہیں ہے، پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور بھارت کو کئی بار یہ پیشکش کرچکا ہے کہ دونوں ممالک مل کر بیٹھیں اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کچھ اصول وضع کریں جو نہ صرف خطہ بلکہ دُنیا کو محفوظ بنانے کا باعث بنے، مگر بھارت نے اس پر توجہ نہ دی کیونکہ اس کو پاکستان پر سبقت لے جانے کا بھوت سوار ہے، جو ہر دفعہ اس کو سبکی کا شکار کرتا ہے۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ بھارت کو ایٹمی سپلائرز گروپ کا ممبر بنا لیا جائے اور پاکستان کو نہیں جبکہ پاکستان کا ٹریک ریکارڈ بھارت سے کہین بہتر ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جو جدید ایٹمی صلاحیت کے فن پارے کی نمائش کرتا رہتا ہے، جیسے محدود پیمانے کے ایٹمی ہتھیار، جیسے میزائلوں سے لیس اور ریڈار پر نظر نہ آنے والے میزائل و طیارے، جیسے ایک سے زیادہ سمت میں مار کرنے والے ایٹمی میزائل یا دوسرے حملے کی صلاحیت جو بھارت کو یہ سمجھانے کیلئے ہے کہ لڑائی جھگڑے کا وقت گزر گیا اب گفتگو اور مسائل کو حل کرنے کا دور ہے اور دونوں ممالک ایسا کریں تو وہ ایٹمی سپلائرز گروپ میں بھی شامل ہوسکتے ہیں اور اپنے خطے کو ایٹمی جنگ سے محفوظ بنا سکتے ہیں جبکہ خطے میں ایٹمی جنگ کے خطرے کا چرچا دُنیا بھر میں ہورہا ہے تو کیا بھارت خودکشی کی طرف بڑھ رہا ہے اور انسانیت کیلئے خطرہ بن رہا ہے، جس طرح امریکی جنرل جوزف ووٹل نے امریکی کانگریس میں اس خطے میں ایٹمی جنگ کا ذکر کیا ہے، ہمارا خیال ہے کہ عقلمندی یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔

.
تازہ ترین