• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
31دسمبر2016ء کو کمانڈ سنبھالنے کے فوری بعد بھارت کے نئے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے ہم ہمہ وقت چوکس ہیں اور سرحد پار سے ہونے والی کسی بھی کارروائی کا کسی بھی انداز میں جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ روایتی ردعمل کے علاوہ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن بھی ہمارے کارڈزپر ہے۔ یہ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن ہے کیا؟ بھارتی سپاہ کی یہ حکمت عملی خصوصی طور پر پاکستان سے متعلق ہے۔ جسے سرجیکل اسٹرائیک کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ محدود قسم کی اچانک جنگ کی حکمت عملی یہ ہے کہ دشمن کو غفلت میں پکڑا جائے۔ایکشن کچھ اس قدر برق رفتار ہو کہ اسے سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جائے اور عالمی برادری کی مداخلت او ور سیز فائر سے پہلے ہی مطلوبہ نتائج کچھ اس طورحاصل کر لئے جائیں کہ مقابل کو جوہری آپشن کا موقع بھی نہ ملے۔ بے شک بھارت، پاکستان کی جوہری استطاعت سے لرزہ براندام ہے اور اچھی طرح سے جانتا ہے کہ پاکستان نے یہ سب کچھ شوکیس میں سجا کر رکھنے کیلئے نہیں کیا۔ اگر اس کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ کچھ بھی کر گزرے گا۔ ایسے میں اپنے عوام کی طفل تسلی کیلئے بھارت کولڈ اسٹارٹ جیسی در فطنیاں چھوڑتا رہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پرستوں کے ہاتھوں زچ ہونے کے بعد پاکستان کے خلاف ’’خوفناک قسم کی کارروائی‘‘ ہمیشہ سے بھارتی سپاہ کی پروپیگنڈہ اسٹریٹجی کا حصہ رہی ہے۔ ستمبر 2016ء میں مقبوضہ کشمیر کی اُڑی چھائونی میںحریت پرستوں کے حملے میں 19فوجی مارے گئے تو بھارتی سپاہ پر سرجیکل اسٹرائیک کیلئے دبائو بڑھا اور بھارتی مہم جوئی کے نتیجے میں دو پاکستانی شہید اور 9زخمی ہو گئے جبکہ بھارتی فوجی بلیٹن دُہائی دے رہا تھا کہ دشمن کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد 35اور 50کے درمیان ہے اور سرحد پار کر کے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ملیامیٹ کردیا گیا ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اس مہم میں بھی 8بھارتی فوجی مارے گئے تھے اور ایک کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جسے 21جنوری 2017کو واہگہ بارڈر پر بھارتیوں کے حوالے کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد لوک سبھا میں اپوزیشن نے بھارتی عسکری قیادت کو خوب لتاڑا تھا کہ دشمن کارروائی کر کے چلا جاتا ہے اور تمہیں بعد میں ہوش آتا ہے۔
بھارت نے اس قسم کی حماقت 2001ء میں بھی کی تھی۔ پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، تو الزام پاکستان پر دھرا اور نہایت چتائونی دی کہ اس بار ہم دشمن پر کچھ اس طور وار کریں گے کہ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہو گی۔ مگر پاکستان اس سے پہلے ہی دفاعی انتظامات کو فول پروف بنا چکا تھا اوربھارتی عسکری قیادت کو اعتراف کرنا پڑا کہ ان سے دیری ہو گئی اور ایسے میں پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کائونٹر پروڈکیٹو ہوتی، جو جوہری جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی تھی۔ بعینہ یہی کچھ 2008ء میں ممبئی دھماکوں کے بعد بھی ہوا۔ اس وقت بھی سول سوسائٹی، میڈیا اور ریاستی حلقوں نے کولڈ اسٹارٹ اور سرجیکل اسٹرائیک کی دہائی دی تھی۔ مگر بھارتی سپاہ نے رسک لینے سے معذرت کرلی تھی۔ غرض پاکستان کو نیچا دکھانے کی بھارتی سائیکی ہمیشہ سے کارفرما رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ سا تھ اس میں شدت آئی ہے۔ زمین، وسائل اور عسکری لحاظ سے بات کہنا چھوٹے ملک کا بھارت کے سامنے یوں ڈٹ کر کھڑے رہنا۔ غنیم کو کسی طور پر قبول نہیں۔ سیکورٹی معاملات کو فول پروف بنانے اور پاکستان کو نیچا دکھانے کیلئے دہلی سرکار کچھ بھی کر سکتی ہے۔ چند ہفتے پیشتر دفاعی بجٹ میں 10%اضافہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کو کامیاب بنانے کیلئے عسکری قیادت نے پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی آہنی دیوار کھڑی کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ جس پر تیزی سے عمل درآمد ہو رہا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی سرحد پر900کے لگ بھگ روسی T-90ٹینکوں کی شکل میں آہنی دیوار پہلے ہی موجود ہے۔ جسے مذکورہ ٹینک کے جدید ترین ورژن T-90-SM کے ذریعے مزید مضبوط کیا جارہا ہے۔ 9HS جینز ڈیفنس ویکل کے مطابق 464عدد T-90-SM ٹینک پہلے ہی ڈیپلائے کئے جا چکے ہیں اور مستقبل کی ضرورت پوری کرنے کیلئے چنائی کے نواح آوادی میں واقع فوجی گاڑیاں بنانے والی فیکٹری میں T-90-SM ٹینکوں کا پلانٹ بھی نصب کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں تنظیمی سطح پر بھی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بارڈر پر متعین پوٹ کور Pivot Corpsکو مزید آرٹلری، آرمز اور ایوی ایشن ساز وسامان سے لیس کیا جارہا ہے۔ بڑی فارمیشنز کی بجائے جدید اسلحہ اور سہولتوں سے لیس چھوٹے یونٹ تشکیل دیئے جا رہے ہیں جو بہتر کمانڈ کنٹرول اور موبیلٹی کی بدولت زیادہ پھرتی سے اُوپریٹ کر سکیں۔
بعض مسلم ممالک کیلئے امریکہ کی جانب سے ویزے کی پابندیاں سخت کرنے سے مشکلات میں اضافہ ہوا ہے گوپابندی کی زد میں آنے والے ممالک میں پاکستان شامل نہیں۔ تاہم خطرہ بدستور موجود ہے۔ امریکہ کی طرف سے مستقبل میں اس قسم کے امکان کی توثیق کی گئی ہے اور نہ تردید۔ ایک لمحے پاکستان کی توصیف کی جاتی ہے، تو دوسرے لمحے چارج شیٹ تھما دی جاتی ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے دوست ضرور ہیں مگر بدقسمتی سے ہم انہیں بروئے کار لانے میں ناکام رہے ہیں جبکہ بھارتی لابی اس حوالے سے بے حد متحرک ہے اور مسلم مخالف امریکی رویئے کو اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ کیش کرانے کیلئے کوشاں ہے۔ خاص طور پر پاکستان کو بین لسٹ میں شامل کرانے کیلئے رات دن ایک کئے ہوئے ہے۔پاکستان کو دہشت برآمد کرنے والے ملک کے طورپر پینٹ کیا جارہا ہے۔ حافظ سعید کی نظر بندی کو اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر پیش کیا گیا ۔ واشنگٹن میں انڈین ایمبسی میں پچھلے ہفتے ایک نشست میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی دہشت کی تمام کارروائیوں کو پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی بھرپور کوشش ہوئی، اور اس بہانے اسے دہشت گرد ملک قرار دیئے جانے کا مطالبہ کیا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے،بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرارہا ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک خونی واردات ہو رہی ہے اوراس گھنائونے عمل میں افغانستان کی ہمدردیاں سمیٹنے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ سی پیک سے اس کی نفرت بھی ڈھکی چھپی نہیں اور اسے ناکام بنانے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ایسے میں جبکہ بہت سے محاذ بیک وقت کھل گئے ہیں پاکستان کو بے حد محتاط رہنا ہوگا امریکہ کے ساتھ معاملات کو رواں دواں رکھنے کیلئے سفارتی کوششیں تیز کرنا ہوں گی۔ چین اور روس سمیت نئے اور پرانے روابط میں نئی روح پھونکنا ہو گی۔ بھارت پر ہمہ وقت نظر رکھنا ہو گی اور اس کی سازشوں کو ہرقیمت ناکام بنانا ہوگا جو طاقت اورسرمائے کے بل پر خاکم بدہن پاکستان کو روند دینا چاہتا ہے۔ اُسے کھلے لفظوں میں بتانا ہو گا کہ یہ کولڈ اسٹارٹ اور سرجیکل اسٹرائیک کی تھیوریاں پرانی ہو چکیں۔ مہم جوئی کی معمولی سے معمولی جسارت کا انجام کس قدر بھیانک ہو گا، بھارت سرکار شاید تصور بھی نہیں کر سکتی۔

.
تازہ ترین