• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روسی دفترخارجہ کے افغانستان کیلئے خصوصی نمائندے نے روس کے سرکاری ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ امریکہ نے افغان امن کیلئے ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے یہ کہہ کر انکار کیا ہے کہ امریکہ کو اس معاملے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ہمیں روس کے مقاصد کا علم نہیں۔ امریکہ اور روس کے تعلقات اپنی جگہ لیکن افغانستان کا مسئلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے اجتماعی ہے ۔ عالمی طاقتوں کے مفادات کی کشمکش کے باعث گزشتہ چالیس سال سے جنگ اور خوں ریزی کا سامنا کرنے والے اس ملک میں امن وامان کا قیام پوری عالمی برداری کی ذمہ داری ہے۔ اس بارے میں اگلے ماہ ہونے والی ماسکو کانفرنس میں پاکستان، چین، افغانستان، ایران، بھارت اور کئی وسطی ایشیائی ممالک کومدعو کیا گیا ہے لیکن امریکہ جو افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کاعلمبردار رہاہے، اسے ایسے فورم کی لازماً حوصلہ افزائی کرنی اور اس کا سرگرم شریک بننا چاہئے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ افغانستان میں پائیدار من کے قیام کے لئے مخلصانہ کاوشیں کی جائیں تاکہ داعش جیسے شدت پسند گروپ علاقے میں سر نہ اٹھا سکیں۔ افغانستان میں امن کا قیام پاکستان کی ترجیحات میں سر فہرست چلا آرہا ہے ا ور افغانستان میں بدامنی کا سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑا ہے۔ اس سے ایک طرف طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف انہیں مذاکرات پر آمادہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔جمعہ کے روز پاکستان دفترخارجہ کے ترجمان نے اسی بناپر وضاحت کی ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور اگلے ماہ ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرے گا تاہم افغان طالبان کی اس کانفرنس میں شرکت کے بارے میں فی الوقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ماسکو کانفرنس کی کامیابی کیلئے پوری دنیاکو تعاون کرنا چاہئے کیونکہ یہ عالمی امن کے لئے بھی ناگزیر ہے۔

.
تازہ ترین