• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوچتا ہوں کہ اگر خوشی۔ حقیقی مسرت، خریدی جاسکتی اور دکانوں پر دستیاب ہوتی تو اس پر صرف دولت مندوں کی اجارہ داری ہوتی۔ یعنی خوشی صرف رئوسا کی لونڈی اور گھر کی باندی ہوتی اور غریب گھرانے اس سے محروم رہتے۔ قدرت اولاد آدم سے بے انصافی نہیں کرتی ا س لئے قدرت کے عطیے سب انسانوں کے لئے ہوتے ہیں۔خوشی قدرت عطیہ ہے اس پر کسی کلاس، طبقے یا قوم کی اجارہ داری نہیں۔ آج کل بہار کا موسم جوبن پر ہے۔ پھول کھلے ہوئے ہیں اور درختوں کی بور بھری ٹہنیاں جھکی ہوئی ہیں۔ پھولوں اور بور کی بھینی بھینی خوشبو امیر اور غریب ہرقسم کے انسان کے سانس کو معطر کرتی ہے اور طبیعت کو انجانی سی خوشی سے روشناس کراتی ہے۔ پھول موسمی بھی ہوتے ہیں اور سدا بہار بھی۔ موسمی پھول قدرت کے موسموں کا شاخسانہ ہیں جبکہ سدا بہار انسان کی ایجاد۔ سدا بہار پھول آنکھوں کو بہلاتا ہے لیکن قدرتی خوشبو سے محروم ہوتا ہے۔ موسمی پھول کھلتا اور پھر مرجھا جاتا ہے لیکن فضا میں خوشبو بکھیر جاتا ہے۔ گویا سدا بہار پھول آنکھوں کا سامان ہوتا ہے جبکہ قدرتی پھول قلب و روح کو معطر کرتا ہے لیکن تھوڑے عرصے کے لئے۔ قلیل مدت،عارضی حسن، کھلنا اور مرجھانا ہی اس کا حسن ہوتاہے کیونکہ فنا کا بھی اپنا حسن ہوتا ہے۔ اگر یہ قدرتی خوشبو ہمیشہ قائم رہتی تو اپنی قدر کھو بیٹھتی۔ قدر، اہمیت قدرت نے عارضی پن میں رکھی ہے، یہی اس کا باطن اور یہی اس کا ظاہر ہے۔
اسی طرح خوشی کا بھی ایک باطن ہوتا ہے اور ایک ظاہر۔ ظاہری طور پر آپ خوشی خریدسکتے ہیں۔ اچھا، خوبصورت محل نما گھر بنا کر، قیمتی فرنیچر سے سجا کر، مہنگی کاریں اور زرق برق قیمتی لباس پہن کر، دولت کے انبار لگا کر۔ لیکن اگر آپ اس ظاہر کے پس پردہ دیکھیں تو راز کھلے گا کہ اس کے پیچھے اندیشوں ، تفکرات، حساب کتاب کی ایک بارات ہے جو انسان کو تمام تر دولت کے باوجود حقیقی خوشی سے محروم رکھتی ہے۔ آرام، سہولتیں اور زندگی کی بے شمار نعمتیں حقیقی خوشی کی ضمانت نہیں ہوتیں۔ آرام دہ زندگی اور شے ہے اور حقیقی خوشی دوسری چیز ہے۔ دولت آتی ہے تو ہوس اور ان گنت خواہشات ساتھ لاتی ہے۔ یقین کیجئے خواہشات اور اندیشے خوشی کے دشمن ہوتے ہیں۔ خواہشات ہر وقت ا نسان کو مزید اور مزید تر کی بے چینی میں مبتلا رکھتی ہیں اور اندیشے.......دولت میں کمی یا چھن جانے کا اندیشہ........ خوشی کو گہن لگادیتا ہے یوں بھی ایسی دولت میں خوشی کہاں سے آئے جس میں حرام کا دانہ شامل ہو۔ کرپشن، رشوت، ٹیکس چوری، سود، جھوٹ، فراڈ، ہیرا پھیری عام طور پر دولت کے حصول کے ذرائع اور ہتھکنڈے ہیں۔ اس لئے ایسی چیز جس میں ملاوٹ ہو، حقیقی خوشی اور قلبی سکون کیونکر دے گی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ خوشی کے دو روپ ہیں۔ ایک ظاہراور دوسرا باطن۔ ظاہری خوشی لمحاتی ہوتی ہے اور اکثر نائونوش کی جانب لے جاتی ہے۔ حقیقی خوشی روح سے پھوٹتی اور قلب کے گلستان کو آباد کرکے سدا بہار پھول کھلاتی ہے۔ ظاہری خوشی دولت سے خریدی جاسکتی ہے لیکن حقیقی خوشی قناعت ،خدمت اور توکل کی دین اور عطاہوتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ حقیقی خوشی بہت بڑی دولت ہے جسے چوری کا خدشہ نہیں ہوتا۔ یہ نظر نہیں آتی، صرف محسوس ہوتی ہے۔ یہ آنکھ کا سامان نہیں بلکہ باطن کا اثاثہ ہوتی ہے۔ دولت صرف اسی صورت خوشی کا ذریعہ بنتی ہے جب اسے بے دریغ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔ گویا خدمت اور خوشی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خدمت چھوٹی ہو یا بڑی، جو خدمت صرف رضائے الٰہی کے لئے خلوص نیت سے کی جائے وہ خوشی کے خزانے عطا کرتی ہے لیکن جب دولت کے ڈھیر لگانے کا خبط طاری ہو تو اسے ہوس کہتے ہیں۔ ہوس خوشی کی سب سے بڑی دشمن ہے، ہوس اور مسرت ایک جگہ اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔ دولت کی یہی ہوس امارت اور احساس برتری کو اندر اندر ہی جنم دیتی اور پھر غرور پیدا کردیتی ہے۔ تکبر انسان کا سب سے بڑا دشمن اور سبق آموز انجام کا آغاز ہوتا ہے۔ کانپ جاتا ہوں اس حدیث مبارک کا خیال آتے ہی کہ یوم حساب متکبر لوگ چیونٹیوں کی مانند پیش ہوں گے جو دنیا میں خود کوہاتھی اور شیر سمجھتے ہیں یوم حساب چیونٹی بنادئیے جائیں گے۔
میں چھٹی یا ساتویں جماعت کا طالبعلم تھا جب انور سے میری دوستی ہوئی۔ ہم ایک چھوٹے سے پرسکون قصبے میں رہتے تھے اور ایک ہی ا سکول میں پڑھتے تھے۔ یہ اس ز مانے کی بات ہے جب گائوں اور قصبوں میں لوگ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے تھے۔ زندگی سادہ تھی لیکن نہایت پرسکون۔ پرسکون اس لئے کہ بڑی بڑی، غیر حقیقی اور بلند و بالا خواہشات سے پاک زندگی ہوتی ہی پرسکون ہے.... بلند و بالا خواہشات سکون کو غارت کرتیں، رشک و حسد پیدا کرتیں اور ہمہ وقت بے چین رکھتی ہیں۔ انور کے والد پرائمری ا سکول میں استاد تھے۔ نہایت سادہ لوح، مخلص، عبادت گزار اور خدمت کے جذبے سے معمور تھے۔ میرا انور کے گھر آنا جانا اور شام کو اکٹھے والی بال یا فٹ بال کھیلنا معمول کی بات تھی۔ اس کا پانچ مرلے کا سادہ سا گھر تھا جس کے صحن میں بھینس بندھی رہتی تھی۔ گرمیوں کی ایک دوپہر کو انور نے مجھے زبردستی دوپہر کے کھانے کے لئے روک لیا۔ کمرے کے فرش پر کھجور کی چٹائی بچھائی گئی اور اس پر سارا خاندان کھانے کے لئے بیٹھ گیا۔ صحن میں لگے ہوئے تندو ر سے انور کی والدہ تازہ تازہ روٹیاں لگا کر لائیں، پودینے، اناردانے کی چٹنی، آم کے دیہاتی اچار اور خربوزوں کو کاٹ کر دستر خوان سجایا گیا اور درمیان میں تازہ لسی کا جگ رکھ دیا گیا۔ میں نے زندگی میں بڑے رئوسا ،حکمرانوں، اعلیٰ ترین ریستورانوں بلکہ بادشاہوں کے کھانے بھی کھائے ہیں لیکن جو لطف اور خوشی مجھے انور کے گھر کے کھانے میں میسر آئی کہیں نہ مل سکی۔ انور کا سارا گھرانہ ہی خوشی اور قناعت کی دولت سے مالا مال تھا۔ اس کا والد شام ہوتے ہی بھینس کو چارہ ڈالنے کے بعد صحن میں چارپائی بچھا کر بیٹھ جاتا۔ شاگردوں کی آمد شروع ہوجاتی۔ وہ کھجور کی چٹائیوں پر بیٹھ کر ہوم ورک کرنے لگتے اور اپنے استاد سے بلا تکلف سوالات پوچھتے اور رہنمائی حاصل کرتے۔ یہ خدمت سو فیصد بے لوث تھی۔ ٹیوشن یا اجر کا سوال ہی نہیں کیونکہ انور کے درویش والد اسے صدقہ جاریہ کہتے تھے۔انور کی ماں نے نہ کبھی تنگ دستی کی شکایت کی نہ زیادہ کمانے کی فرمائش کی۔ میرے نزدیک یہی اس گھرانے کی خوشی کا راز تھا کیونکہ عام طور پر دولت کی ہوس کے پس پردہ بیویوں کا دبائو ہوتا ہے جس کے خلاف مزاحمت کرناہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ انور کے گھرانے نے بچپن ہی میں میرے ذہن پر ایک نقش ثبت کردیا۔ میں نے زندگی کے طویل سفر میں بہت کچھ نہایت غور سے دیکھا لیکن اتنی سچی، حقیقی اور باطنی خوشی مجھے بڑے بڑے اور دولت مند گھرانوں میں بھی نظر نہیں آئی جتنی مجھے کئی برس تک وہاں نظر آتی رہی۔ سچی خوشی قدرت کا عطیہ ہے، توکل خدمت اور قناعت کا انعام اور اسے ہرگز خریدا نہیں جاسکتا۔ اگر خوشی خریدی جاسکتی تو صرف دولت مند خوش رہتے، دولت سے محروم ہمیشہ خوشی سے محروم رہتے۔ یہ ایک طرح کی بے انصافی ہوتی لیکن قدرت کا تو سارا نظام ہی انصاف پر کھڑا ہے ...... درحقیقت قدرت نے خوشی انسان کے اندر رکھی ہے جبکہ ہم اسے باہر تلاش کرتے ہیں۔




.
تازہ ترین