• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں حکمرانوں نے اداروں پر اثر انداز ہونے کی سعی ہمیشہ کی ہے تاہم انتظامی اداروں کو زیرِ نگیں کرنے کی کوشش بعض اوقات حکمرانوں کیلئے مشکلات کا باعث بنتی رہی ہے، پسند ناپسند کی بنیاد پر سرکاری افسران کے تقرر و تبادلے اور ترقیاں و عدم ترقیاںہر حکومت کی بنیادی ترجیحات رہی ہیں،پروموشن کے معاملہ میں حکمرانوں یا ان کے وفاداروں کی طرف سے سول سرونٹس کےساتھ زیادتیاں توگویا اب ہر سال کا معمول بن چکا ہے، شاید یہی وجوہ ہیں کہ 2014، 2015 اور 2016 کے سلیکشن بورڈ کو مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ بیورو کریٹ ہی حکومت کا نظام چلاتے ہیں، بلاوجہ سینئر افسران کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چار عشروں پر محیط اپنے صحافتی کیریئر میں آج تک ہمارے مشاہدہ میں یہ کبھی نہیں آیا کہ کوئی سول افسر اہلیت کی بنا پر گریڈ 21تک پروموٹ ہوتا گیا اور گریڈ 22کےلئے بلاوجہ وہ نااہل ہوگیا ہو،ایسی ایک مثال انتہائی اچھی شہرت کی حامل انکم ٹیکس کی ایک خاتون افسر رعنا احمد کی بھی ہے جنہیں گریڈ 22 میں محض اس لئے ترقی نہ دی گئی کہ موصوفہ کی ذہنی وابستگی حکمراں جماعت سے نہیںتھی، یہ قصہ 2016ء کے پروموشن بورڈ کا ہے جہاں سفارشات مرتب کروانے کیلئے حکمرانوں نے اپنے ایک قریبی رشتہ دار اور ایک دفتری وفادار کو اپنے نمائندے بنا کر بھیجا تھا، اوراس بات کااقرار خود سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کے روبرو کیا۔ ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے صد فیصد متفق ہیں کیونکہ ہماری نظر میں ایف بی آر کی حالیہ ترقیاں اس لئے بھی مشکوک ہیں کہ جن افراد کو پروموٹ کیا گیا، ان کے خلاف متعدد رپورٹیں موجود ہیں۔ حالیہ دنوں میں متاثرہ افسروں کے حق میں اور حکومت کیخلاف عدالت عظمیٰ نے یکے بعد دیگرے دو تین فیصلے صادر کئے ہیں، سپریم کورٹ کے ذریعے ایف بی آر کی یکم اگست 2016ء کی ترقیاں بھی کالعدم قرار دیئے جانےکے بعد اب وزیراعظم کے پاس نظرثانی اپیل کا کوئی جواز باقی نہیں رہا کیونکہ ایف بی آر افسران کی ترقیوں کے ازسر نو جائزہ کیلئے عدلیہ کی طرف سے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے، اس جائزہ سیشن کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے ایک ہائی پروفائل سلیکشن بورڈ کا اجلاس اپریل کے پہلے ہفتہ میں متوقع ہے جسکی صدارت وزیراعظم خود کریں گے، شنید ہے کہ اس اجلاس میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ اور وفاقی سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کے ’’صائب‘‘ مشورے وزیراعظم کیلئے ’’فری‘‘ ہونگے جن کی روشنی میں کچھ زیادہ تبدیلیوں کی تو امید نہیں، صرف گریڈ 22 میں ’’خصوصی بنیاد‘‘ پر ترقی پانےوالے ایف بی آر کے دو اہم عہدیداروں کی پروموشن رول بیک کئے جانےکا امکان ہے کیونکہ زیادہ تغیرات سے تو عدلیہ یہ سمجھے گی کہ ساری دال ہی کالی تھی۔ کیا ہی بہتر ہو ،اگر وزیراعظم اس ہائی پروفائل سلیکشن بورڈ کےساتھ ساتھ 2015ء کے سی ایس بی کے کالعدم ہونے پر بھی نظر ثانی اپیل کے بجائے ایک جائزہ کمیشن تشکیل دے کرکھوئے ہوئے میرٹ کی ساکھ بحال کریں،بہ ایں ہمہ 2016ء کی تازہ ترقیوں میں مسترد کئے گئے سینئر افسروں کی اہلیت کا بھی دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے انہیں فی الفور اگلے گریڈ میں پروموٹ کرکے مظلوموں کی بددعائوںسے بچیں اور نظر ثانی اپیل کے چکر میں نہ پڑیں کیونکہ حکومت کسی بھی طرح نظر ثانیوں کی فیور حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ، وجہ یہ ہے کہ اس کا کردار ’’ظالم‘‘ ظاہر ہوا ہے، نظر ثانی کی فیور صرف انہیں حاصل ہوتی ہے جن کا کردار ’’مظلوم‘‘ ظاہر ہوتا ہو، جس طرح کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے متاثرہ امیدواروں کے کردار کے بارے میں طے ہے ۔ عدالتِ عظمیٰ نے صوبہ سندھ میں منعقد ہونےوالے 2013ء کے تمام امتحانات اور انٹرویوز کو کالعدم قرار دے دیا ہے جس سے مختلف اسامیوں کیلئے بھرتی کئے گئے 227 امیدواروں میں سے اہل اور قابل افراد کی اکثریت کا مستقبل کھٹائی میں پڑچکا ہے۔ سندھ میں مقابلے کے ان امتحانات کا اعلان جولائی 2013ء میں کیا گیا تھا جن کے لئے لگ بھگ 28ہزار امیدوارں نے فارم جمع کرائے تھے۔ 28دسمبر 2014ء کو اسکریننگ ٹیسٹ کا انعقاد ہوا جس میں 18ہزار کے قریب امیدواروں نے شرکت کی، اسکریننگ ٹیسٹ کے نتائج کا اعلان 8جنوری 2015ء کو کیا گیاجن کے مطابق 3376امیدوار کامیاب قرار پائے جنہیں تحریری امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت ملی، تحریری امتحانات اپریل 2015ء میں منعقد ہوئے جن کے نتائج کا اعلان 16مارچ 2016ء کو کیا گیا جس کے مطابق کل 664امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا۔ 25 اپریل تا 11اگست 2016ء کو کراچی اور حیدر آباد میں انٹرویوز رکھے گئے جن کے حتمی نتائج کا اعلان 19اگست 2016ء کو کیا گیا جس میں سندھ بھر سے 227 امیدواروں کو مختلف آسامیوں کیلئے کامیاب قرار دیا گیا۔ حتمی کامیاب امیدواروں کو 30 ستمبر 2016ء سے جیسے ہی آفر لیٹر ملنا شروع ہوئے تو انہوںنے اپنی اپنی میڈیکل اور پولیس رپورٹیں جمع کرانی شروع کردیں، اسی دوران سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ممبران کےخلاف ایڈووکیٹ جنید فاروقی کی درخواست پر از خود نوٹس کی سماعت شروع کردی جسکی وجہ سے کامیاب امیدواروں کی تمام پیشرفت ساکت و جامد ہوکر رہ گئی۔ اس بابت سپریم کورٹ کا ازخود کیس آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا، صرف اتنا ہوا کہ کمیشن کے چیئرمین اور متعدد ممبران مستعفی ہوگئے مگر ان کی نااہلی کا فیصلہ پھر بھی نہ ہوسکا۔ ممبران کے استعفیٰ کے بعد ان کی مدت ملازمت کے دوران کی گئی تقرریوں کو عدالت میں زیرِ بحث لایا گیا تاہم کمیشن کے ذریعہ کی گئی دیگر تقرریوں کو بالائے طاق رکھ کر تمام مباحثہ سول سروس کے امتحانات تک محدود کردیا گیا۔ اب سپریم کورٹ نے 13 مارچ 2017ء کو اس کیس کا تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے امتحانات کے دوبارہ انعقاد کا حکم سنایا ہے۔ تعجب تو یہ ہے کہ چیئرمین اور ممبران سندھ پبلک سروس کمیشن کے دورِ ملازمت میں 3ہزار سے زائد اسامیوں پر تعیناتی عمل میں لائی گئی جن کا زبانی امتحان بھی انہی ممبران کے ذریعہ ہوا تھا (جن میں لیکچرار، ڈاکٹرز، انجینئرز اور فارسٹ آفیسرز کے علاوہ دیگر اسامیوں کیلئے مقابلے کے امتحانات بھی شامل ہیں) مگر ان کی پوزیشن اپنی جگہ قائم ہے۔ پاکستان بھر میں تمام صوبوں اور وفاق کی سطح پر مقابلے کے امتحانات سے متعلق گوناگوں شکایات منظر عام پر آتی رہتی ہیں،وفاقی سطح پر ہونیوالے حالیہ مقابلے کے امتحانات میں انگلش اور کرنٹ افیئرز کا پیپر آئوٹ ہونےکی خبر میڈیا کی زینت بنی رہی،جب انتہائی سخت چیکنگ کے باعث سی ایس ایس 2016ء کے امتحانات کا نتیجہ محض 2.1 فیصد رہا اور 92فیصد امیدوار انگریزی کے پرچے میں فیل ہوگئے تو اس کی بازگشت پارلیمان تک میں سنائی دی ، اسی طرح سال 2013ء کے دوران فیصل آباد سینٹر میں سی ایس ایس کے امتحانات میں ہونےوالی بے ضابطگی کے باعث سینٹر کے تمام امیدواروں کا امتحان دوبارہ لیا گیا، خیبر پختونخوا میں منعقد ہونےوالے حالیہ مقابلے کے امتحان میں کرنٹ افیئرز کا پرانا پرچہ دہرایا گیا، گزشتہ سال پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت ہونےوالے مقابلے کے امتحانات میں بھی امیدواروں کو دو سے تین اضافی نمبر دیئے جانےکی کہانی کافی خبروں میں رہی۔ اس نوعیت کے الزامات وفاقی اور صوبائی امتحانات کے بارے میں ہماری 70 سالہ تاریخ میں عام سی بات ہے تاہم ایسے کسی معاملے میں کبھی امیدواروں کو اجتماعی طور پر واجب التادیب قرار نہیں دیا گیا بلکہ امتحانات کے نظام میں نقائص کی نشاندہی یا کسی بھی مخصوص سینٹر سے منسوب کسی خرابی کی وجہ سے صرف متعلقہ امیدواروں کے امتحانات ازسرِ نو منعقد کروائے گئے،ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اگر کسی مخصوص سینٹر میں کچھ غلط ہوا ہو تو اس کی وجہ سے پورے صوبے یا وفاق کے امتحانات دوبارہ لئے جائیں۔ 2013ء کے ان امتحانات بارے یہ بھی مشہور کیا گیا کہ تحریری امتحان میں بے ضابطگیاں عام تھیں اور مختلف امتحانی مراکز میں موبائل فون کا بے دریغ استعمال ہوا، افسوس کہ اس الزام کی تفتیش کے بجائے اسے من و عن تسلیم کرلیا گیا،اس سے تو کہیں بہتر ہوتا کہ جن امتحانی مراکز میں بدبو دار ماحول کا شبہ تھا وہاں مکمل طور پر تحقیق کے بعد اگر کچھ ثابت ہوجاتا تو ان مخصوص مراکز میں امتحانات دوبارہ منعقد کروادیئے جاتے۔ ایک قباحت یہ بھی بیان کی گئی کہ تحریری امتحان اور حتمی نتیجہ کو بے وجہ طوالت کا شکار کیا گیا۔ سیدھی سی بات ہے کہ تحریری امتحانات کے پرچے یونیورسٹی اور کالج کے تجربہ کار اساتذہ چیک کرتے ہیں، جس میں انتہائی احتیاط اور وقت طلبی درپیش ہوتی ہے چنانچہ مقابلے کے امتحانات کی چیکنگ، ری چیکنگ میں اتنا وقت تو لگ ہی جاتا ہے۔ ایک اور الزام یہ ہے کہ انٹرویو 11 اگست 2016ء کو ختم ہوئے جس کے آٹھ دن بعد حتمی فہرست جاری کردی گئی۔ بِالفرض یہ تمام الزامات درست بھی ہوں تو بھی بہتر ہوتا اگر اس پورے معاملے کی تفتیش کرلی جاتی۔ تحریری امتحانات کو ہوئے تقریباً دو سال ہوچکے ہیں، اس عرصہ کے دوران اس معاملے کو کسی فورم پر اٹھایا کیوں نہ گیا؟ اگر ایک مفروضہ قائم کرلیا بھی جائے تو بھی 227میں سے غلطی سے ہی سہی، کچھ امیدوار تو میرٹ پر آئے ہوں گے۔ اگر نظام میں خرابیاں ہیں تو اسکی سزا امیدواروں کو دینے کی بجائے متعلقہ اداروں اور حکومت کو ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہرایا جاتا؟ ایک اور تاثر جو دانستہ پھیلایا جارہا ہے کہ ان امتحانات میں سندھ کے شہری امیدواروںکے ساتھ زیادتی ہوئی۔ عرض ہے کہ ان امتحانات کے ذریعہ مختلف اسامیوں کی تعداد 256 تھی جس کو شہری اور دیہی کوٹہ (60فیصد دیہی اور 40فیصد شہری) کےمطابق 153دیہی اور 103شہری نشستیں شامل تھیں۔
تحریری امتحانات میں کل 664امیدوار پاس ہوئے جن میں سے 140کا تعلق اربن جبکہ بقیہ 524 کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا، دیہی نشستوں پر تمام امیدواروں کی تعیناتی کی گئی جبکہ شہری نشستوں پر 135 میں سے 74امیدوار کامیاب ہوئے جن کو مختلف اسامیوں پر تعینات کیا گیا، یوں اربن سندھ کی 29 نشستیں خالی رہیں جن کی بنیادی وجہ ان نشستوں کے برعکس امیدواروں کا انٹرویو میں فیل ہونا ہے، وفاق کی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں بھی بسا اوقات تحریری امتحان میں کامیاب ہونےوالے امیدواروں کو زبانی امتحان میں فیل کردیا جاتا ہے، اربن سندھ کی نشستیں وفاق کی سطح پر ہونے والے مقابلے کے امتحانات میں بھی کئی بار خالی رہتی ہیں جس کی وجہ اربن سندھ میں امیدواروں کی ان امتحانات میں عدم شرکت ہے۔ اگر 2013ء میں بھی دیہی سندھ کے اکثر امیدوار انٹرویو میں کامیاب ہونے کے باوجود کوئی سِیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے تو اس کی بڑی وجہ دیہی سندھ میں قابل امیدواروں کا زیادہ تناسب سے کامیاب ہونا ہے۔ ارے بھئی، کوئی خود ساختہ تاثر ہی قائم کرنا ہے تو وہ دیہی سندھ کے بارے میں ضرور ہوسکتا ہے جہاں انٹرویو میں زیادہ امیدواروں کے کامیاب ہونے کی وجہ سے نشستیں زیادہ ہونے کے باوجود کم پڑگئیں۔ ذہن نشین رہے کہ ان امتحانات کے انعقاد میں جن غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ان میں سے ایک غلطی کے لئے بھی کوئی امیدوار براہ راست ذمہ دار نہیں ہے۔ تحریری امتحان کے انعقاد سے زبانی انٹرویو تک کوئی بھی مرحلہ کسی امیدوار کے ہاتھ میں نہ تھا۔ اداروں کی انتظامی غلطی کی سزا امیدواروں کی بجائے ادارے میں بیٹھے افسران کو دی جانی چاہئے۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ دیگر صوبوں کے برعکس سندھ میں مقابلے کے امتحانات 5 سے 6 سال بعد منعقد ہوتے ہیں۔ متاثرہ امیدواروں میں سے اکثر تیس سال کی قانونی حد کو پار کرچکے ہیں اور تین چار سال سے کتابوں سے بھی ناطہ توڑ چکے ہیں۔ کسی انسان کی ذہنی صلاحیت، سماجی حالات اور عمر یکساں نہیں رہتے، سو کہا جاسکتا ہے کہ جن امیدواروں نے 3سال پہلے امتحانات کے سارے مراحل ایک جذبہ کےساتھ عبور کئے، ممکن ہے وہ آج اس صلاحیت میں ماند پڑچکے ہوں،سب سے بڑھ کر یہ کہ اتنے عرصہ کی محنت کے بعد آج اگر یہ نتیجہ نکلا ہے تو آئندہ کی کس امید پر منتشر ذہن اور نئی محنت کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب میڈیا میں متذکرہ امتحان کے متنازع ہونے پر خبریں چلی تھیں اور بعد میں نیب نے حیدر آباد پبلک سروس کمیشن کے دفتر پر چھاپا مار کر کامیاب امیدواروں کا ریکارڈ سیل کردیا تھا، تبھی سندھ حکومت کو مسلمہ دیانتدار افراد پر مشتمل اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دیکر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردینا چاہئے تھا کیونکہ پاس ہونے والے امیدواروں میں سے کئی پر حکومتی اور سرکاری افسروں کے رشتہ دار ہونے کاالزام تھا۔ پھر جب سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر از خود نوٹس لیا، تب بھی سندھ حکومت نہیں جاگی اور پوری مستعدی اور ثبوتوں کے ساتھ اس کا دفاع نہیں کرپائی، وہ اگر بہترین قانونی ماہرین کو مامور کرتی جو عدلیہ کے فاضل جج صاحبان کو مطمئن کرپاتے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے عہدیداروں پر جو الزامات لگائے گئے وہ محض میڈیا رپورٹس اور سماعی باتیں ہیں اور یہ ایک ازخود نوٹس ہے جو ایک وکیل کے خط (درخواست) پر لیا گیا ہے جب کہ وکیل موصوف نے درخواست میں جو الزامات بیان کئے ، انکے ثبوت تک فراہم نہیں کئے، اور اگر اس میں سچائی ہوتی تو چیئرمین و ممبران سندھ پبلک سروس کمیشن مستعفی نہ ہوتے چنانچہ یہ 227 امیدواروں کے کیریئر کا سوال ہے جن میں اگر کچھ بااثر شخصیات کے رشتہ دار ہیں تو اس میں ان کا کیا دوش؟ (کیا ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر اور جج کا بیٹا جج نہیں بن سکتا؟) اور اگر ان کاواقعی دوش ہے تو اس میں دیگر امیدوار تو قصور وار نہیں ٹھہرتے۔ اگر بروقت عدالت سے استدعا کی جاتی کہ ایک عدالتی کمیشن تشکیل دے کر جن امیدواروں پر الزامات ہیں، صرف ان کی تحقیقات کی جائے، تو یقیناً آج سندھ کے ان تمام امیدواروں کو نظر ثانی کیلئے ملک کی سب سے بڑی عدالت سے رجوع کی تیاری نہ کرنا پڑتی۔ ہمیں امید ہے کہ اس کیس میں انصاف کے تمام تقاضے پورے ہونگے اور 227میں سے جو بھی درحقیقت مظلوم ہیں انکی داد رسی ضرور کرنا ہوگی۔
ہم کالم فائنل کر چکے تھے کہ جیو پر خبر چل رہی تھی کہ سردار احمد نواز سکھیرا کو وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات مقرر کر دیا گیا،ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے ان کی تقرری کرکے پہلی دفعہ اچھا کام کیا ہے۔ سردار صاحب سول سروس کے گریڈ22کے وفاقی افسر ہیں اور محنتی، دیانت دار اور مثبت سوچ کے حامل مشہور ہیں، ہمیں ان سے پوری توقع ہے کہ وہ حکومت اور پریس کے درمیان ایک مضبوط پل کا کردار ادا کریں گے اور اخبارات اور چینلز کو درپیش مسائل فوری حل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مثبت تجربات کی حامل محنتی، دیانتدار اور آئیڈیل ٹیم بناکر وزارتِ اطلاعات و نشریات کو مثالی ادارہ بنانے اور حکومت اور صحافیوں کے درمیان پائی جانےوالی غلط فہمیوں کو ختم کرنیکی بھرپور کوشش کریں گے۔




.
تازہ ترین