• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیشے سے وہ وکیل تھا، برصغیر کبھی آیا نہ اُس کے جغرافیہ سے کوئی واقفیت۔ اپنے سات ہفتوں کے قیام میں اُس نے نقشہ اُٹھایا اور ایسی لائن کھینچی کہ خون کے دریا بہہ گئے، آدھے خاندان اُدھر، آدھے اِدھر۔ پاکستان کے دو حصوں میں 1000 میل کا فاصلہ اور بیچ میں بھارت اور دوسری طرف کشمیر کا تنازع۔ یہ تھے لارڈ ریڈ کلف جنہیں ہدایت تھی کہ بس خطِ تقسیم (Partition) کھینچ دو اور پلک جھپکتے، کہ نحیف برطانوی سامراج مزید قیام کے قابل نہ رہا تھا اور اپنی نوآبادی کا مقروض بھی۔ برصغیر کی تقسیم کے اصل منصوبے کو 11 ماہ قبل ہی 14/15 اگست 1947ء کی شب پایۂ تکمیل کیا جانا تھا۔ بٹوارہ تو ہونا ہی تھا، لیکن اتنی جلد بازی، اتنی بے سمجھی، اتنی لاپروائی اور جانبداری سے کہ اسے تاریخ دان اسٹینلے وولپرٹ نے ’’شرمناک فرار‘‘ (Shameful Flight) سے تعبیر کیا۔ برصغیر ہندوستان (جسے تہذیبی، ثقافتی، لسانی، نسلیاتی اور مذہبی اعتبار سے کثرتوں کی کثرت کا جمِ غفیر کہا جاتا ہے) کا دردناک بٹوارہ ایسے ہوا کہ ریاستی مشنری کے اُکھڑنے کے باعث ایسا باہمی قتلِ عام اور آبادیوں کا اپنے آبائی علاقوں سے انخلا تاریخ نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ جنگِ آزادی میں کام آنے والے پروانوں کی تعداد بٹوارے میں مارے جانے والوں کی تعداد ایسے ہے جیسے آٹے میں نمک۔ دوسری جنگِ عظیم میں اتحادی کامیاب تو ہوئے لیکن برطانیہ عظمیٰ کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔ اور اب پالیسی بنی نوآبادکاری کے خاتمے کی (De-colonization)۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی اور اس کے سوشلزم کا تقاضا تھا کہ وہ برصغیر کے حقِ خودارادیت کے آگے سرنگوں کرے۔ جلدی میں کیبنٹ مشن بھیجا گیا، جس نے آزاد علاقوں کی خودمختاری کو ایک رضاکارانہ نیم وفاق (Confederation) کی صورت میں ایک نہایت لچکدار منصوبہ پیش کیا جو کیبنٹ مشن پلان کے نام سے مشہور ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناح جو برصغیر کے شمال مغربی اور مشرقی حصوں کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مبنی ایک نیم وفاقی ریاست کے قیام کے علمبردار تھے، کیلئے اس پلان میں کافی کشش تھی۔ لیکن جونہی پلان سامنے آیا، خاص طور پر اس میں جو کسی بھی علاقے/ ریاست کیلئے حقِ علیحدگی کی تجویز تھی، اُسے دیکھتے ہی مہاتما گاندھی، نہرو اور پاٹیل نے اُسے بُری طرح ردّ کر دیا۔ کانگریسی قیادت ایک طاقتور مرکزی ریاست پہ مُصر تھی۔ لہٰذا کیبنٹ مشن ناکام لوٹا اور برطانیہ نے جلدی سے بوریا بستر گول کرنے کی ٹھانی۔ ریاستی کنٹرول ڈھیلا کیا پڑا، ہر جانب مارا ماری کا بازار گرم اور ایک حشر تھا کہ بپا ہو گیا۔
اتنے ہمہ گیر برصغیر کی سادہ سی مذہبی تقسیم سے سمجھا گیا کہ بس رضاکارانہ تقسیم سے شانتی ہو جائے گی۔ لیکن شانتی ہے کہ اس کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ محمد علی جناح جو گوکھلے کے پیرو اور نہایت سلجھے ہوئے آئینی جمہوریت پسند اور سیکولر سیاست دان تھے، نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں میں گزارا اور اقلیتوں کے حقوق، خاص طور پر بھاری بھر کم مسلم اقلیت کے حقوق کے لئے سرگرم رہے۔ لکھنؤ پیکٹ اور بعد کے مسلم اقلیت کے حقوق کے بارے جتنے ایوارڈ جاری ہوئے اُنہوں نے کمیونل یعنی مذہبی تفریق اور اقلیتوں کے حقوق کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی اور ان بیشتر کوششوں میں مسٹر جناح سب سے آگے تھے۔ لیکن کمیونل تقسیم کی جڑیں بہت گہری اور تاریخی تھیں اور بقائے باہم کو تلپٹ کرنے والے فرقہ پرست ہر جانب متحرک تھے۔ کانگریس سارے ہندوستان کی واحد نمائندہ جماعت ہونے پر بے حد مُصر اور متکبر بھی۔ یہاں تک کہ سیکولر جناح جو ہندو مسلم اتحاد ایکتا کے سفیر مانے جاتے تھے اور گاندھی جی کے ہندو بھیس اور ابلاغ پر معترض بھی نے گاندھی کی جانب سے تحریکِ خلافت کی حمایت کی سخت مخالفت کی۔ پھر کیا تھا خلافت والے علماء ہوں یا ہندو مہاسبائی سب جناح صاحب پر ٹوٹ کے برسے۔ تحریکِ خلافت والوں کے دانت تو اُس وقت کھٹے ہوئے جب یہ کابل پہنچے تو وہاں حمایت کی بجائے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا اور کاسۂ گدائی اُن کے ہاتھوں میں تھما دیا گیا۔ جان چھوٹی بھی تو جب کمال اتاترک نے خلافتِ عثمانیہ کے تسلط سے ترکوں کو آزاد کر کے جدید سیکولر ترکی کی بنیاد ڈال دی۔ اور یوں بدھو لوٹ کر گھر کو آئے۔ اب جناح بدل گئے تھے اور کانگریس سے مایوس۔ وہ اپنی خود ساختہ جلاوطنی سے واپس آئے اور پھر مسلم لیگ کے مردہ جسم میں جان تو پڑ گئی لیکن ابھی یہ مسلمانوں کی نمائندگی کی دعویدار ہونے کے باوجود اکثریتی ہندو علاقوں میں مسلم اقلیت اور اُس کے نظریئے کی نمائندہ بنی رہی یا پھر جاگیردار اور نواب اس کے سر پر سوار تھے۔ حمایت تھی بھی تو بنگال میں اور دیگر مسلم اکثریتی علاقوں میں، سندھ کے سوا اسے کہیں پذیرائی نہیں تھی۔
پھر ہوا یہ کہ 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کا عظیم اجتماع ہوا اور قراردادِ لاہور پاس کی گئی۔ جسے بعد ازاں قراردادِ پاکستان کہا جانے لگا۔ یہ قرارداد اپنے ماخذ میں سائمن کمیشن اور بعد ازاں کیبنٹ مشن پلان سے ملتی جلتی پائی گئی۔ اس قرارداد کے چار اہم نکات اور اُصول ہیں۔ اوّل: حقِ خودارادیت اور علیحدگی پسندی: مسلم اکثریتی علاقوں کے مسلمانوں کے لئے حقِ علیحدگی۔ دوم: علاقائی بنیاد: ہندوستان کے شمال مغرب اور مشرق کے علاقوں کی گروپ بندی۔ سوم: وفاقیت اور نیم وفاقیت: ایسی ’’آزاد ریاستوں‘‘ کی تشکیل جن میں ’’اکائیاں‘‘ خودمختار اور آزاد (Autonomous and Sovereign) ہوں گی۔ چہارم: اقلیتوں کے مساوی حقوق: اقلیتوں کو لازمی اور موثر مساوی حقوق اور اُن کی منشا سے آئین میں فراہم کیے جائیں گے اور اسی طرح اُن علاقوں میں جہاں مسلم اقلیت میں ہیں۔ ان چار رہنما اُصولوں یا نکات سے ظاہر ہے کہ علیحدگی کے مطالبے میں صرف مسلم اکثریتی علاقوں کو شامل کیا گیا نہ کہ برصغیر کے تمام مسلمانوں کو۔ اس میں اسلامی ریاست کے قیام کا منتہائے مقصود تھا اور نہ اقلیتوں کے انخلا کا عندیہ۔ بلکہ ہر دو اطراف کی اقلیتوں کو بلاتفریق مذہب برابر شہری حقوق کی یقین دہانی کی گئی تھی۔ کوشش یہ کی گئی کہ کمیونل مسئلے یا مذہبی تفریق کو ختم کیا جائے اور دو ریاستیں مجبور ہوں گی کہ اپنی اپنی اقلیتوں کو مساویانہ حقوق دیں۔ یہ 1946ء کے انتخابات تھے جنہوں نے مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کی مستند حیثیت دی اور جب قائداعظم نے ڈائریکٹ ایکشن کی کال دی تو پہلے سے ہی سلگتے ہوئے فرقہ وارانہ ماحول میں جیسے آگ لگ گئی۔ اور ہندو مسلم تقسیم ناقابلِ عبور ہوگئی۔ کانگریس اور مسلم لیگ کی مرکزی کابینہ نہ چل سکی اور معاملہ بٹوارے تک پہنچ گیا۔ قائداعظم کو معاملے کی نزاکت کا احساس بڑھتا گیا، لیکن فرقہ وارانہ جن بوتل سے نکل چکا تھا۔ ’’تقسیم کے منصوبے‘‘ پر ہونے والی بات چیت کی آخری رات کے آخری لمحے تک قائداعظم آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ پنجاب اور بنگال کو تقسیم نہ کرنے کے لئے آخری جتن کرتے رہے، لیکن وائسرائے نے جناح صاحب ہی کے ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر متحدہ پنجاب اور متحدہ بنگال کے دلائل کو ردّ کر دیا۔ اور اگلے روز جب سب نیتاؤں کا اجلاس ہوا تو بٹوارے پر سب نے ساد کرتے ہوئے حمایت میں سر ہلا دیئے لیکن جناح بلاجنبش بیٹھے رہے۔
قائداعظم ہی نے سہروردی کو اجازت دی کہ وہ متحدہ بنگال کے لئے آخری کوشش کریں اور سہروردی گاندھی کے ہمراہ فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لئے کلکتہ میں مرن برت پر بیٹھے۔ یہ عجیب بات نہیں ہے جب متحدہ بنگال کی اسمبلی کا آخری اجلاس ا سپیکر نور الامین کی صدارت میں ہوا تو مسلم اراکین نے صبح کے سیشن میں متحدہ بنگال کے حق میں اور ہندو اراکین نے بنگال کی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا۔ لیکن شام کے سیشن میں بساط اُلٹ گئی اور مسلم اراکین نے بنگال کی تقسیم اور ہندو اراکین نے متحدہ بنگال کے حق میں ووٹ دیا۔ پنجاب میں بھی یونینسٹ متحدہ پنجاب کے حق میں تھے۔ لیکن تاریخ کے قدم آگے بڑھ چکے تھے۔ جو پاکستان بنا اُسے قائداعظم نے ’’کرم خوردہ‘‘ قرار دیا۔ لیکن وقت آگے بڑھ کر مینا اُٹھا لینے کا تھا، سو قائداعظم نے بڑھ کر پاکستان کی کمان سنبھال لی۔ دلی سے روانہ ہونے سے قبل اُنہوں نے دہلی کی مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو بھارت ہی میں رہنا ہے اور اس کے وفادار شہری کے طور پر۔ اور جب وہ کراچی پہنچے تو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے اپنے پہلے خطاب میں 11 اگست 1947ء کو وہ کہا جس کا کہ وعدہ 1940ء کی قراردادِ لاہور میں کیا گیا تھا۔ یعنی ریاست کی نظر میں تمام شہری بلاتفریق مذہب و عقیدہ مساوی ہیں اور ہر شہری کو آزادی ہے کہ وہ اپنے اپنے مذہب پر گامزن رہے اور ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ریاست کی نظر میں تمام مذاہب کو ماننے والے شہریوں کا برابر ہونا اور اُن کے مذہبی امور میں عدم مداخلت ہی سیکولرازم ہے۔
بعد ازاں سیکولر بھارت نے جو اپنی اقلیتوں اورچاہئے محروم قومیتوں بشمول محروم کشمیریوں کے ساتھ کیا اور آج ہندتوا جو مسلم اقلیت سے کر رہی ہے، اُس سے ہندو راشٹرا کا قیام ہوتا دکھائی پڑتا ہے۔ اور جو کچھ ہم نے مشرقی پاکستان میں بنگالی بھائیوں اور نہایت قلیل اقلیتوں کے ساتھ کیا اور مذہبی نظام کے قیام کے لئے جس طرح راہیں ہموار کی جا رہی ہیں، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ برصغیر کی تینوں ریاستیں ابھی اُسی سفر پر رواں دواں ہیں جس سے بچنے کے لئے محمد علی جناح، گوکھلے اور امبیدکر جیسے لیڈروں نے بہت کوشش کی لیکن تاریخ کا لکھا کون مٹا سکتا ہے۔ اب ہم برصغیر کی تین ہمسایہ خود مختار ریاستیں ہیں۔ کیوں نہ تاریخ سے سبق سیکھیں اور ایک دوسرے کے قومی و ریاستی وجود کو تسلیم کرتے ہوئے بقائے باہم کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں۔ ورنہ پھر خدانخواستہ بھارت میں ہندو راشٹرا اور پاکستان میں داعش کی طرح کا نظام کہیں ہمارا مقدر نہ ہو۔ ایک جمہوری و پائیدار اور ترقی یافتہ پاکستان اور ہمسایوں کے درمیان پائیدار دوستی کی دُعا کے ساتھ کالم تمام کرتا ہوں۔ سب کو یومِ جمہوریہ اور ہم سب کا پاکستان مبارک!



.
تازہ ترین