• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہو گا اور ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کیا ہو گی ؟ پاناما کیس کے فیصلے اور ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کے بعد سیاسی منظر نامے میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی ؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں ، جو اس وقت زیادہ شدت کے ساتھ پوچھے جا رہے ہیں لیکن پاکستان کے لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کچھ بھی ہو ، پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو کر رہے گا اور ’’ اسٹیٹس کو ‘‘ برقرار نہیں رہے گا ۔
قیاس آرائیاں اور اندازے جاری ہیں ۔ پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے زیادہ تر حلقے اور تجزیہ کار اس بات پر فوکس کر رہے ہیں کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا سیاسی کیریئر ختم ہو جائے گا یا وہ آئندہ عام انتخابات میں چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے امیدوار ہوں گے ۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ میاں محمد نواز شریف کے سیاسی کیریئر کا تعین کریں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی صحت بھی ایک ایسا فیکٹر ہے ، جو ان کے سیاسی کیریئر کے حوالے سے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے ۔ آج کل وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کسی عوامی یا سرکاری اجتماع میں آتے ہیں تو لوگ نہ صرف ان کی تقاریر اور باتیں غور سے سنتے ہیں بلکہ ان کی باڈی لینگویج کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کے اصل مفہوم تک پہنچنے کے لئے مباحثے ہوتے ہیں ۔ ان کے چہرے کے تاثرات اور ان کی ہنسی پر بھی اس طرح تحقیقات کی جاتی ہے ، جس طرح گزشتہ 5 صدیوں سے مونا لیزا کی مشہور عالم تصویر میں مونا لیزا کے چہرے کے تاثرات اور اسی کی ہنسی پر تحقیقات ہو رہی ہے ۔ اگر جرمن سائنس دانوں نے حال ہی میں سائنسی اور نفسیاتی بنیاد پر تحقیقات کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مونا لیزا خوش ہے لیکن دنیا اب بھی اس معاملے پر تقسیم ہے ۔ ایک بڑے حلقے کا کہنا ہے کہ مونا لیزا کی مسکراہٹ کے پیچھے دکھ اور غم چھپا ہوا ہے جبکہ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ وہ خوش ہیں ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف گزشتہ کچھ دنوں سے اپنی تقاریر میں زیادہ مزاح کا مظاہرہ کر رہے ہیں حالانکہ یہ مزاح ان کی شخصیت سے میل نہیں کھاتا ۔ لوگ ان کے چہرے کے تاثرات اور مسکراہٹ کو سمجھنے میں اس لئے الجھے ہوئے ہیں کہ وہ کچھ اندازے لگانا چاہتے ہیں ۔ مثلاً وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے سپریم کورٹ کے فیصلے اور ڈان لیکس کی انکوائری رپورٹ کے حوالے سے کیا توقعات رکھ رہے ہیں یا ان کی اطلاعات کیا ہیں اور ان کا اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں کیا منصوبہ ہے ۔
22 فروری 2017 کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا ۔ بعض حلقوں کو یہ توقع تھی کہ یہ فیصلہ مارچ کے دوسرے یا تیسرے ہفتے میں آجائے گا لیکن ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے ۔ سپریم کورٹ کے سماعت کرنے والے پانچ رکنی لاجر بنچ کے فاضل جج صاحبان کا کہنا یہ تھا کہ اس کیس میں کئی ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں ۔ ان دستاویزات کا جائزہ لیا جائے گا اور تفصیلی فیصلہ لکھا جائے گا ۔ ان وجوہ کی بناپر فیصلے میں تاخیر سمجھ میں آتی ہے ۔ دوسری طرف ڈان لیکس کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ 7 دسمبر 2016 کو جمع کرانا تھی لیکن کمیٹی نے رپورٹ جمع کرانے کی تاریخ میں مزید ایک ماہ کی مہلت حاصل کی اور جنوری 7 کے وسط میں اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو جمع کرادی ہے ۔ اس رپورٹ کو منظر عام پر نہ لانے کے اسباب سمجھ سے بالاتر ہیں ۔ پاناما کیس کے فیصلے اور ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے اسباب اگرچہ مختلف ہیں لیکن اس تاخیر سے پاکستان کے مقتدر حلقوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے بارے میں فیصلے کرنے کی مہلت مل گئی ہے ۔ اس مہلت میں ایسی بھی سرگرمیاں جاری رہی ہیں جن کے بارے میں لوگ بہت کم جانتے ہیں ۔ اس دوران کئی جوڑ توڑ بھی ہوئے ہیں اور کئی معاملات طے بھی ہوئے ہیں ۔ کئی معاملات طے ہونے کے بعد ختم ہو گئے ہیں ۔ کچھ باخبر لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے اور ڈان لیکس انکوائری رپورٹ کے بارے میں ایسے اندازے بھی قائم کر لئے ہیں ، جن پر بہت سے باخبر لوگوں کا اتفاق بھی ہے ۔
اس بات پر بھی سب لوگوں کا اتفاق ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پاناما کیس کے فیصلے اور ڈان لیکس انکوائری رپورٹ میں شاید براہ راست زد میں نہیں آئیں گے لیکن انہوں نے سیاست میں اپنا جانشین مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ وزیر اعظم آئندہ کچھ دنوں میں علاج کی غرض سے بیرون ملک جا سکتے ہیں ۔ وہ وہاں کسی اسپتال میں داخل ہو سکتے ہیں اور ان کا علاج طویل ہو سکتا ہے ۔ اس دوران قومی اسمبلی میں ان ہاؤس تبدیلی کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے کسی رکن قومی اسمبلی غالباً احسن اقبال یا شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ نیا وزیر اعظم آئندہ اکتوبر میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کر سکتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کا جانشین کون ہو گا ؟ ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف یا ان کے بھائی میاں شہباز شریف میں سے کسی ایک کو جانشین بنانے کے لئے خاندان کے اندر اور باہر ایسا فیصلہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ، جس سے شریف خاندان میں اختلافات کا تاثر پیدا نہ ہو ۔ اسی اثناء میں پاناما کیس کا فیصلہ بھی آسکتا ہے اور ڈان انکوائری رپورٹ بھی منظر عام پر آجائے گی۔ اس فیصلے اور رپورٹ کے منظر عام پر آنے میں تاخیر کا سبب بھی لوگوں کو سمجھ میں آ جائے گا ۔ اس سے پہلے سب سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں کو معاملات طے کرنے کی مہلت بھی مل گئی ہے بقول غالب ’’ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا ۔ ‘‘



.
تازہ ترین