• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجاب یونیورسٹی قلعہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔جنگلے ہٹا کر کنکریٹ کی اونچی اونچی دیواروں نے یونیورسٹی کے دو حصوں کے درمیان دیوار برلن والا کام کیا ہے۔نہر کے دلکش فٹ پاتھوں سے یونیورسٹی کاخوبصورت نظارہ ختم ہوچکا ہے۔مجھے یا د ہے جب ہم پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو دیوار تو دور کی بات ہے جنگلوں کا بھی کوئی نام و نشان نہیں ہوتا تھا۔ہوسٹل سے نکلتے اور نہر پر بنے عارضی پل کو پھلانگتے ہوئے یونیورسٹی میں داخل ہوجاتے تھے۔نہر کے کنارے کیا حسین شامیں ہوتی تھیں۔کینال روڈ کے دونوں اطراف وسیع و عریض رقبے پر پھیلی جامعہ پنجاب لاہور کی رعنائی و تابندگی کو چار چاند لگادیتی تھی۔مگر جب علم و دانش کی درسگاہوں میں نفرت اور تکفیر بٹنے لگے تو پھر اس سوسائٹی اور ملک میں امن و شانتی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر نے پہلے طلبہ تنظیم اور پھر دہشت گردی کے نام پر یونیورسٹی کو ایسے خوفنا ک قلعے میں تبدیل کیا کہ آج جامعہ پنجاب میں داخل ہوتے ہی ایک عجیب سا خوف طاری ہوجاتا ہے۔اسلامی جمعیت طلبہ کے سحر سے نکالنے کے لئے یونیورسٹی میں جو اقدامات کئے گئے۔آج وہ ایسی آگ کی طرح بھڑک رہے ہیں جس کے شعلے پورے شہرکو راکھ کرسکتے ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کی حکمرانی کی جنگ کوئی نئی نہیں ہے۔60اور 70کی دہائی میں این ایس ایف(نیشنل ا سٹوڈنٹ فیڈریشن)اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان رسہ کشی عروج پر ہوا کرتی تھی۔یونیورسٹی کا مشہور ہاسٹل نمبر 1اسلامی جمعیت طلبہ جبکہ ہاسٹل نمبر 2سرخیلوں کے قبضے میں ہوا کرتا تھا۔دائیں اور بائیں بازو کے درمیان پنجاب یونیورسٹی کو سر کرنے کی تگ و دو ہمیشہ جاری رہی۔
مشہور سرخیل راجہ انوراپنی کتاب بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک میں بھی پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل نمبر 2میں بیتے گئے لمحات کا ذکر کرتے ہیں۔پھر 70اور80کی دہائی میں پی ایس ایف(پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن)اور اسلامی جمعیت طلبہ کے درمیان محاذ عروج پر رہا۔90کی دہائی میں بھی یونیورسٹی پر حکمرانی کی یہ جنگ جاری رہی مگر کبھی بھی ایسے حالات سامنے نہیں آئے۔جن کا آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔طلبہ تنظیموں کے جھگڑوں میں کئی طلبا کی جانیں بھی چلی گئیں ۔اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان اس میں سب سے آگے رہے مگر جمعیت نے کبھی بھی پنجاب یونیورسٹی میں کسی طلبہ تنظیم کو قدم نہیں جمانے دئیے۔اس ساری صورتحال میں جمعیت پر برا وقت بھی آتا رہا،جو آج بھی چل رہا ہے۔ان کے کئی لوگ جیلوں میں بھی چلے گئے مگر پنجاب یونیورسٹی سے جمعیت کو ختم کرنے کی ہر کوشش کے بعد جمعیت مزید طاقت سے ابھر کر سامنے آئی۔پنجاب یونیورسٹی میںلمبا عرصہ گزارنے کی وجہ سے یونیورسٹی اور طلبہ تنظیموں کے بارے میں کافی کچھ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔جمعیت دعوی کرتی ہے کہ
یہ لازوال قصہ تاریخ میں رقم ہے
کہ جامعہ کی مٹی ہمارے لہو سے نم ہے
یہ حقائق ہیں کہ آج بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے ارکان کی اکثریت کا تعلق خیبر پختونخوا اور میرے بلوچستان سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں زمانہ طالب علمی کے دوران جمعیت کے کافی اقدامات سے اختلاف رہا۔بدقسمتی رہی کہ اسلامی جمعیت طلبہ معاشرے میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھال نہیں سکی۔اکیسویں صد ی کا آغاز ہوگیا مگر جمعیت بیسویں صدی سے بہت سست روی سے باہر نکلنے میں لگی رہی۔سید مودودی کے پیرو کار الجہاد فل اسلام کا مطالعہ تو کرتے رہے مگر تنقیحات میں بتائے گئے اصول بھول گئے۔جس کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں کے دوران اس تنظیم کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن ان سب اختلافات کے باوجود کئی سرخیل لکھتے ہیں کہ "جب ہم پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو جمعیت کے سخت مخالف تھے مگر آج جب ہماری بیٹی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی جارہی ہوتی ہے تو ہم مطمئن ہوتے ہیں کہ ہماری بچی کی عزت محفوظ ہے کہ کیونکہ جمعیت وہاں موجود ہے"یہ بھی درست ہے کہ جمعیت کو آج کے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا چائیے تھے۔کاش جمعیت کو بھی اس دور میں سراج الحق جیسا ناظم اعلی مل جاتا تو حالات مختلف ہوتے۔
مجھے جس بات کا شدید خوف ہے ۔وہ گزشتہ ہفتے ہونے والی لڑائی ہے۔یونیورسٹی میں قیام کے دوران بھی کئی ایسی لڑائیاں دیکھنے کا اتفاق ہوا ،جس میں طلباء شہید ہوگئے۔مگر کبھی بھی ایسا خوف نہیں آیا جو آج آرہا ہے۔جمعیت کو پنجاب یونیورسٹی سے مٹانے والے ایسی آگ کو ہوا دے رہے ہیں جو جلد ان کے آشیانوں تک پہنچ جائے گی۔جمعیت اور پی ایس ایف کے جھگڑوں میں طلباء زخمی ہوتے رہے،دونوں گروپس پر مقدمات درج ہوتے رہے۔احتجاج کرکے اپنا حق مانگا جاتا رہا۔مگر کبھی بھی کسی تنظیم نے نسل،علاقے اور مخصوص طبقے کا نعرہ لگا کر خوفناک آگ نہیں سلگائی۔میرا اپنا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے،جو خیبرپختونخوا،بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔پختون اور بلوچ خاندانوں سے ہمارے تعلقات ایک صدی پرانے ہیںمگر اپنے خلاف بھی بات جائے تو حقائق بیان کرنے چاہئیں۔سابق وائس چانسلر کے دور میں بلوچستان کے طلباو طالبات کو ہر کلاس میںبغیر میرٹ کے مفت ایڈمیشن،مفت ہاسٹل اور ماہانہ تین ہزار روپے دینے کا آغاز کیا گیا۔پنجاب یونیورسٹی کے تقریبا 80سے زائد ڈپارٹمنٹ ہیں۔جن میں ہر ڈپارٹمنٹ میں چھ سے زائد مختلف کلاسز ہیں۔یوں ہر سال 300سے زائد بلوچ،پختون بھائی یونیورسٹی میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں ۔مگر میری تحقیق کے مطابق اس معاملے میں بھی 90فیصد مستحق اور غریب بلوچ طلبا داخلے سے محروم ہوجاتے ہیں اور جن لوگوں کے وہاں کریمنل ریکارڈ ہیں وہ یہاں آکر مفت داخلہ لیتے ہیں اور پھر گروپس بنا کر سیاست کرتے ہیں،جب کوئی ایکشن ہوتا ہے تو پھر لسانیت اور علاقائیت کو فروغ دیتے ہیں۔یونیورسٹی میں عام طلبا کے مقابلے میں مفت ایڈمیشن،اسکالر شپ کے وقت کوئی لسانیت نہیں ہوتی مگر جب کوئی لڑائی ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ لاہور بلوچوں اور پشتونوں پر ظلم کررہا ہے۔ سیاست کریں،آپس میں لڑیں،یونیورسٹی پر حکمرانی کی بات کریں مگر خدارا نسل پرستی اور لسانیت کو فروغ مت دیں۔اگر جمعیت والے تشدد کریں تو ان پر بھی مقدمات درج ہوں اور میرٹ پر کارروائی ہو لیکن اگر بلوچ بھائی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہو تو اس پر بھی کارروائی ہونی چاہئے مگر تعصب کا نعرہ مت لگائیں۔یہ وہ یونیورسٹی ہے جو آپ کو مفت تعلیم ،مفت داخلے اور ماہانہ اسکالر شپ دیتی ہے۔بجائے یہ کہ آپ طلبہ تنظیم سے ذاتی لڑائی کو اس کی ذات تک رکھیں ،آپ پنجابی ،بلوچی اور پختون کا نعرہ لگادیتے ہیں۔جو بہت زیادتی ہے۔ہم سب پاکستانی ہیں اور آپس میں متحد ہیں۔یونیورسٹی کے بھی نئے وائس چانسلر کو سوچنا چاہئے کہ جمعیت کے خلاف ایکشن یونیورسٹی میں آگ لگا کر نہ کریں۔ایک ایسی آگ جو جلد ہی آپکے گھر اور پھر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔



.
تازہ ترین