• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حسین حقانی صاحب کے مضمون پر خیالات کی رعنائی اور ان کےکردار پر انگشت نمائی کا سلسلہ شاید پیہم دراز رہتا تاہم حب الوطنی کے اسناد کی تقسیم پر فائزایسے خود ساختہ فائق حسبِ ماضی و حسبِ توقع’ پزیرائی‘ نہ ملنے پر رفتہ رفتہ اپنی دکان سمیٹنے پر مجبور نظر آتےہیں۔ وجہ ظاہر و باہر یہ ہے کہ اس سارے کشالے کی سزا و جزا ماضی دیکھ چکا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ایبٹ آباد واقعہ کے بعد حقانی صاحب اور زرداری و گیلانی حکومت کے ساتھ کس طرح حساب ’بے باق‘ کیا گیا۔ کیا کسی کو یاد نہیں کہ آج کے آزاد زرداری ایوان صدر میں کس قدر ’مقید‘ہوکر رہ گئے تھے۔
پھر 22مارچ کے اخبارات میں جہاں سابق صدر یہ کہتے ہیں ’’ہمیں گزشتہ( 2013)کاالیکشن لڑنے نہیں دیا گیا‘‘توکوئی تو وجہ ہوگی، کوئی تو ناراض ہوگا!یوں اعتراض یہ ہونا چاہئے کہ امریکہ نے ایبٹ آباد کارروائی اسٹیبلشمنٹ کو لاعلم رکھ کر ہی اگر کی تھی اور سول حکومت ہم راز تھی تو آج اس کے تذکرے کی ایسے عالم میں کہ نئی امریکی انتظامیہ سخت گیر اقدامات اٹھانے پر کمر بستہ ہے، کیوں ضرورت محسوس کی گئی؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ حقانی صاحب کو نوکری کی تلاش ہے تو عرض ہے کہ امریکی کسی شخصیت کو اس کی ذات کے لئےنوکری نہیںدیتے، اقتدار کی غلام گردشوں کے مکینوں سے راہ و رسم کی بنیاد پرہی دیتے ہیں، چنانچہ قیاس ہے کہ حضرت یہ سب کچھ ماضی کی حلیف ہی کی خاطر کررہے ہیں۔ سادہ الفاظ میں تحریر کا نفسِ مضمون یہ ہوسکتا ہے ’’بدلتے منظرنامے میں پیپلز پارٹی ہی دیگر کے مقابل نوکری کی زیادہ اہل ہے، ماضی کی کارکردگی کی دستاویزات منسلک ہیں۔‘‘ ہم تو کم فہم شہری اور لاعلم لکھاری ہیں، پھر شعر کی درست تفہیم تو بہر صورت وہی ہوتی ہے جو شاعر کہے، یوں اصل وہی سمجھا جانا چاہئے جس پر حقانی صاحب کا اصرار ہے! جہاں تک امریکی اہداف کی کہانی ہے تو قیام پاکستان تا امروز، آخر کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود ہے کہ کسی حکومت نے امریکہ کے سامنے ناں کی ہو۔ جو لوگ آج شیخ اُسامہ کے خلاف کارروائی کے معاون کرداروں پر لعن طعن کر کے خود کو زیادہ محب وطن ظاہر کرنے کے لئے کاغذ پر کاغذ کالے کررہے ہیں نہ جانے، یہ لوگ اس وقت کہاں تھے جب اُس ایمل کانسی کوجس پر پاکستان میں کوئی مقدمہ بھی نہ تھا، پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا۔مزید یہ کہ فوجی حکومت میں اس سے بھی زیادہ امریکی تابعداری کی دوڑیں لگی تھیں۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف اپنی کتاب ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کے صفحہ 297 پر ’’تعاقب‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔ ’’نائن الیون کے بعد جب القاعدہ کے بہت سے کارکن افغانستان سے بھاگ کر پاکستان آگئے، تب سے ہم ان کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل، کھیل رہے ہیں ان میں سب سے بڑا اسامہ بن لادن ہے جو اس کتاب کے لکھنے (اکتوبر 2006ء) تک آزاد ہے، لیکن ہم نے دوسرے بہت سے کارکن پکڑے ہیں ان میں کچھ دنیا بھر میں مشہور ہیں ہم نے پکڑے گئے افراد میں سے 369 کو امریکہ کے حوالے کیا۔ زین العابدین ابو زبیدہ کو سی آئی کے لوگوں کی تکنیکی معلومات کی بنیاد پر ہم نے القاعدہ کے 27 ساتھیوں سمیت گرفتار کیا جو تمام کے تمام غیر ملکی تھے ۔ان میں تیرہ یمنی، تین سعودی، تین لیبیائی، تین فلسطینی ایک روسی ایک مراکش ایک سوڈانی اور دو شامی تھے جن میں ایک مارا گیا۔ 30 مارچ 2002ء کو ابو زبیدہ کو امریکہ کے حوالے کیا گیا‘‘۔
اس کے بعد پرویز مشرف صاحب نے خالد شیخ محمد، رمزی یوسف، مصطفیٰ الاوساوی، احمد خلیفان غیلان سمیت متعدد ایسے مطلوب عناصر کا ذکر کیا ہے جو امریکہ کے حوالے کئے گئے۔ اس کتاب کے صفحہ 322پر سابق جنرل مشرف رقم طراز ہیں۔ ’’مصطفیٰ محمد ابو فراج اللبی کی گرفتاری پر میں نے صدر بش کو فون کیا اور خبر سنائی، ’آپ نے اللبی کو پکڑ لیا‘صدر بش نے جوشیلی آواز میں کہا، اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر ایمن الزواہری کے علاوہ القاعدہ کے جس رکن کا نام بش جانتے تھے وہ ابو فراج اللبی تھا۔‘‘ جنرل پرویز مشرف میں تاہم یہ اخلاقی جرأت تھی کہ انہوں نے اعتراف کیا ’’امریکہ، خلیجی ملک اور پاکستان نے (نام نہاد) مجاہدین متعارف کرائے، مدرسوں میں انہیں مذہبی جوش و خروش سے سرشار کیا، مسلح کیا، پیسے دیئے اور افغانستان میں (نام نہاد) جہاد کے لئے بھیجا (صفحہ 261) طالبان کے متعلق کہتے ہیں ’’بے نظیر بھٹو کی حکومت نے طالبان کا سہرا اپنے سر لینے کی کوشش کی، ان کے وزیر داخلہ میجر جنرل نصیر ا للہ بابر نے انہیں میرے بچے کہا (صفحہ 264)
یہ تو ابھی کل ہی کی بات ہے جب مسلم لیگ (ن) جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، تحریک انصاف نے انہیں اپنے یا بھٹکے ہوئے بچے قرار دیا، یہاں تک کہ یہ جماعتیں طالبان کی ضامن ٹھہریں۔ یادش بخیر! امریکی صدر رونالڈ ریگن نے شیخ اسامہ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا۔‘‘
"Moral equivalents of America's founding fathers"
(اخلاقی اعتبار سے امریکی آزادی کے ہیروز ایسی عظمت کے امین) ...پھر دہر کا سازِ طربِ تاباں، سوز جہاں کے ’لے‘ لے آیا۔ شیخ اسامہ عالمی دہشت گرد اور طالبان را کے ایجنٹ قرار دئے گئے۔ سب کچھ واضح ہے لیکن چند سوالات تشنۂ جواب، جو شاید لاجواب ہی رہیں! مثلاً کہا جاتا تھا کہ (1) حکیم محسود سمیت فلاں فلاں کے ڈرون حملوں میں موت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو دھچکا لگا! تو کیا ہم را کے مبینہ ایجنٹوں سے مذاکرات کے آرزو مند تھے کہ ڈرون نے یہ کام ناممکن بنادیا؟ (2) افغان حکومت کی جانب سے موت کی خبرعام ہونے کی وجہ سے طالبان و افغان حکومت کے مذاکرات ناکام ہوگئے؟ تو جب جب وہ زندہ تھے تو پھر کیوں کامیاب نہ ہوسکے تھے؟ (3) ڈرون حملوں سے دہشت گردی میں اضافہ ہوا؟ تو کیا جو لوگ ڈرون حملوں میں مارے گئے، وہ حیات ہوتے تو آج نیر و چین کی بانسری بجارہا ہوتا! (4) ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کو پامال کرنے کا سبب ہیں؟ بالکل ہیں، کاش ہم اب تک اس کا جواب دے چکے ہوتے! تاہم جن کے پیچھے ڈرون پاکستان آئے،یعنی عرب، ازبک، چیچن، افغان وغیرہ وغیرہ،تو کیا یہ اسلحہ سمیت پاکستان علاقوں پر قابض ہوکر پاکستان کی خود مختاری پامال نہیں کررہے تھے؟ کیا ان کے پاس پاکستانی ویزے و پرمٹ تھے! بنابریں ڈرون تو ایک عرصے تک پاکستان سے اُڑتے رہے۔ مزید یہ کہ امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ ہم یہ سب کچھ پاکستانی حکمرانوں کی اشیرواد سے کرتے رہے ہیں!
عرض یہ ہے کہ جو صحافی، دانشور اور مذہبی عناصر تاویلات کے اختراکی تجارت کرتے ہیں، اُن سے مودبانہ التماس ہے کہ براہ کرم یہ بھی تو دیکھا جائے کہ کس اقدام سے پاکستان کے لئے شر اور کس سے خیر برآمد ہوتا ہے۔ ہم کیوں امریکی عزائم کی تکمیل کی خاطر دیوانے ہوتے رہے ہیں، کیوں آج برادر ممالک کے مفادات کا عَلم اُٹھائے اپنے پھول جیسے ملک کو اُس طرح بارود کا ڈھیر بنانے پر بضد ہیں جس طرح ہم امریکی یاری میں کرچکے ہیں۔ پھر بھی ہمارے کسی صحافی دوست کواگر اسامہ کی موت کا دکھ ہے تو ہم اُن کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں، لیکن اس سوال پر بھی ذرا غور فرمایا جائے کہ شیخ اسامہ کا زندہ رہنا کیا حب ِوطن و قومی مفاد کا تقاضا تھا!



.
تازہ ترین