• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک نوجوان پاکستانی دوست جو چند سال پہلے اپناکاروبار ہانگ کانگ ، یورپ اور خلیج سے سمیٹ کر پاکستان تشریف لائے ہیں۔ ان سے ایک پارٹی میں ملاقات ہوئی تو اس نوجوان نے جو دیارِ غیر میں رہتا تھا ، پاکستانی اخبار پڑھتا تھا پاکستان سے بڑا خائف بھی تھا کہ نہ جانے پاکستان کیسا ملک ہو اور اس سے اس کے پاکستانی بھائی کیسا سلوک کریں۔ کراچی کا بھیانک نقشہ جو امریکیوں نے کھینچا ہوا تھا وہ اس کے دماغ میں سمانے کے باوجود پاکستان کی محبت آخر کار اسے کراچی لے آئی۔ آج اسی کراچی میں اس کا کاروبار بھی سیٹ ہے اور سرمایہ بھی محفوظ ہے ۔ وہ کیا کہتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کے لئے پاکستان دنیا میں جنت سے کم نہیں ہے ۔ خدارا پاکستان کو برا مت کہو ، اس کی قدر کرو، اس ملک کا ہر صوبہ اپنی جگہ قدرتی دولت سے مالا مال ہے ۔ ایک طرف 3صوبے دنیا میں پیدا ہونے والے تمام پھل اپنے اپنے موسم کے لحاظ سے بھر پور طریقے سے پیدا کر رہے ہیں۔ کونسی سبزی ہے جو ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتی ۔ کونسا اناج ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی سر زمین پر پیدا نہیں کیا۔ یعنی فار ایسٹ ، خلیج اور یورپ میں کوئی ایک ملک تمام اناج نہیں پیدا کر سکتا ۔ یعنی اگر چاول پیدا کر رہا ہے تو گیہوں پیدا نہیں کر سکتا جو گیہوں پیدا کر رہا ہے وہ مکئی ، جوار نہیں پیدا کر سکتا ۔ جو مکئی پیدا کر رہا ہے وہ دالیں پیدا نہیں کر سکتا ۔ یہی حال سبزیوں اور پھلوں کا ہے ۔ اس ملک کو اللہ تعالیٰ نے قحط سے بھی محفوظ کر رکھا ہے ۔ کیونکہ تمام اناج الگ الگ موسم میں بوئے جاتے ہیں اور الگ الگ موسم میں کاٹے جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایک فصل خراب ہو تو اس کی جگہ دوسری فصل لے لیتی ہے۔ ہر چیز ہماری ضرورت سے زیادہ پیدا ہو رہی ہے ۔ جبکہ پاکستان میں اس کو صحیح طریقے سے محفوظ رکھنے اور ذرائع دستیاب نہ ہونے کے باعث یہ فاضل پھل ، سبزیاں اور اناج سڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے چوتھے صوبے بلوچستان میں زمین کے اندر اور باہر قدرت نے انمول پتھر ، کوئلہ ، پیٹرول اور گیس کے ذخائر کے ساتھ ساتھ سیب ، بادام ، خوبانی ، انجیر ، شہتوت ، اخروٹ ، اسٹرابری ، کھجوریں وافر مقدار میں پیدا کیں تاکہ پاکستان کسی بھی ملک کا دست نگر نہ ہو۔ بلوچستان کی بندرگاہ خلیجی ملکوں کے رابطے کے علاوہ سمندری پیدا وار میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ بہترین جھینگے اور مچھلیاں اپنا جواب نہیں رکھتیں ۔ اس صوبے میں پیٹرول کے بھاری ذخائر ہیں مگر ہم نے ابھی تک صحیح منصوبہ بندی نہیں کی ۔ ہماری اسی سر زمین سے پیٹرول گزر کر ایران جارہا ہے ۔
اسی طرح گیس کے بھی ذخائر وافر مقدار میں ہیں مگر ہمیں اس کی قدر نہیں ہے ۔ کراچی کی بندرگاہ ، یورپ اور فارایسٹ کے رابطے کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے لئے تجارتی گزرگاہ ہے اور پاکستان کی معیشت میں 65سے 70فیصد اخراجات کا بوجھ برداشت کرتی ہے ۔ الغرض اس ملک کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے ۔ البتہ اتنی خوبیوں کو ہمارے کئی سیاستدان گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ ہمارا بنیادی انتظامی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ آنے والی حکومت صرف جانے والی حکومت کا احتساب کرنے اور بیان بازی میں وقت گزار دیتی ہے ۔ منصوبہ بندی کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ شہروں اور دیہات میں سڑکوں اور بجلی کا نظام بہت خراب ہے مگر ہائی ویز اور موٹر ویز بن رہے ہیں۔
عام شہری بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔اسپتالوں میں مریض دوائیں اور دیگر سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے سسک سسک کر جان دےدیتے ہیں۔ ان سیاستدانوں نے اربوں روپیہ قوم کا دبایا ہوا ہے ان کا کوئی احتساب کرنے والا نہیں ہے اور یہی اس ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ ہر شخص اس ملک کو برا بھلا کہتا ہے ، حالانکہ ہمارے عوام بڑے جفاکش ہیں۔ بغیر حکومت کی مدد اور حوصلہ شکنی کے تمام نجی سرمایہ کاری ہے اور ترقی میں صرف اور صرف عوام کی انتھک محنت کا دخل ہے ۔ ایکسپورٹر کو حکومت کی طرف سے کوئی مراعات میسر نہیں ہیں۔ مگر وہ پھر بھی اپنے بل بوتے پر غیر ملکی کرنسی لا رہا ہے۔ ہماری بیوروکریسی اس میں مدد کرنے کے بجائے طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔بھاری بھاری درآمدی ڈیوٹیاں لگا کر برآمد کے راستے بند کئے جاتے ہیں ۔
آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو خوش کرنے کے لئے ان کے پروگراموں پر عملدرآمد کیا جاتا ہے ۔ان سے پوچھ کر ہم اپنے روپے کی قیمت مقرر کرتے ہیں ۔ غیر ملکی زرِ مبادلہ نہ ہونے کے باوجود ان کے کہنے پر اشیاء تعیش اور ملک میں بننے والی ہر چیز درآمد کررہے ہیں ۔ پاکستان کے قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجودحکمراں خود بیرون ملک سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ پورے پاکستان میں جتنے قتل اور جرائم ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ صرف امریکہ کی نیویارک سٹی میں ہوتے ہیں۔ وہاں صرف 20ڈالر میں غیر ملکی کو یہی کالے اور گورے مار ڈالتے ہیں۔مگر امریکہ کو کوئی برا نہیں کہتا ، کوئی غیر محفوظ نہیں سمجھتا۔ جبکہ خود امریکی نیویارک شہر کے بھرے بازار میں اپنی خواتین کو اکیلے نہیں جانے دیتے ۔ ایک واقعہ تو میرے دوست نے سنایا کہ وہ ایک دن گرمی سے گھبرا کر نیویارک کے ایک پارک کے کونے میں درخت کے نیچے لیٹا ہوا تھا کہ ایک کالا آیا اور اس نے ٹانگ مار کر میرے دوست کو جگایا ۔وہ ہڑبڑا کر اٹھا تو اس کالے نے اس سے پرس مانگا ، چونکہ میرا دوست کمزور تھا اور کالا کافی بھاری بھرکم تو اس نے خاموشی سے اپنا پرس دے دیا۔ اس کالے نے جب پرس کھولا تو اس میں صرف 30ڈالر تھے ۔ وہ بڑا خفا ہوا اور اس نے میرے دوست کو ایک زور دار لات ماری اور گالی دے کرکہا کہ اس میں تو صرف 30ڈالر ہیں ۔ میرا وقت اس سے زیادہ قیمتی ہے ، آئندہ جب گھر سے چلو تو پرس میں زیادہ سے زیادہ ڈالر رکھا کرو۔ یہ کہہ کر ایک اور زوردار لات ماری اور خالی پرس منہ پر مار کر چلا گیا۔
میرا اپنے اس نوجوان دوست کا تجربہ لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم سب کو اللہ تعالیٰ نیک اور ایماندار قیادت نصیب کرے اور دعا کریں کہ خدا ہمارے سیاستدانوں کو ہدایت دے یا پھر ہمیں ایسا رہبر دے جو صحیح معنوں میں پاکستان کو اس کرپٹ ماحول سے نجات دلا دے اور اس ملک کو اتنی ترقی عطا کر دے کہ یہ دوسروں سے قرضہ مانگنے کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائے تاکہ پاکستان کو برا بھلا کہنے والے خود اپنے منہ کی کھائیں اور اگر ہم نے اپنی اب بھی اصلاح نہ کی تو 1سال اور ہم گنوا دینگے ۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم نے 69سال گنوا دیئے ہیں۔ ہماری نئی نسل ہم سے پوچھتی ہے کہ جس پاکستان کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا وہ اصل پاکستان کب بنے گا۔


.
تازہ ترین