• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج میں نے سوچا کہ حکمرانوں کے وعدے اور ان کی کارکردگی کے بارے میں کچھ لکھوں۔
دیکھئے 28 مئی 1998 یقیناً بہت ہی اہم اور قابل فخر دن ہے۔ ہم سائنسدانوں اور انجینئروں نے وہ کر دکھایا جس کے بارے میں بہت سے لوگ شش و پنج میں مبتلا رہتے تھے اور اس کامیابی کو دیوانے کا خواب سمجھتے تھے۔ اس میں ہمارے سیاست دان بھی آگے آگے تھے۔ لیکن یہ وعدے سائنسدانوں اور انجینئروں نے کئے تھے سیاست دانوں نے نہیں جو وعدے اور قسمیں بھی چند دنوں بعد بھول جاتے ہیں۔ اس اہم کامیابی سے سائنسدانوں اور انجینئروں کی نیک نیتی، مصمّم ارادے اور ملک سے محبت کا جو اظہار ہوا تھا وہ کوئی سیاست داں نہ کر سکا تھا۔ حیرانی اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اتنی اعلیٰ اور ناقابل یقین کامیابی کے بعد آج بھی یہ دعویٰ تو ضرور کئے جاتے ہیں کہ ہم ایٹمی قوّت ہیں، ملک کا دفاع ناقابل تسخیر ہے اور دشمن میلی آنکھ سے ہمیں نہیں دیکھ سکتا مگر یہ کبھی نہیں کہا جاتا کہ ہمارے سائنس دانوں اور انجینئروں نے اس کے حاصل کرنے میں کتنی تکالیف اُٹھائیں اور قربانی دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی احسان فراموشوں کو معاف نہیں کرتا۔دیکھئے جب بھی حکمرانوں اور عوام کا تعلق ہوتا ہے تو حکمراں طبقہ بغیر سوچے (یا شاید جان بوجھ کر) جھوٹے وعدے شروع کردیتا ہے۔ قائداعظمؒ اور ان کے رفقائے کار نے بھی بہت وعدے کئے تھے لیکن ہماری بدقسمتی سے قائداعظمؒ بہت جلد رخصت ہو گئے اور حکومت پر بدعنوانوں نے قبضہ کر لیا اور مولانا ابوالکلام آزاد نے جو پیش گوئیاں کی تھیں ان کو صحیح ثابت کرنا شروع کر دیا۔ یہ مملکت خداداد پاکستان ایک اسلامی فلاحی مملکت کے وعدے پر بنائی گئی تھی اب یہ ایک غیر فلاحی مملکت بن گئی ہے۔ کرپشن کے میگا اسکینڈل سامنے آرہے ہیں اور بدعنوانی عروج پر ہے۔ کروڑوں کیا اربوں روپیہ کی رشوت ستانی اور لوٹ مار کے قصّے سامنے آرہے ہیں مگر پھر بھی منشیات کی اسمگلنگ اور رشوت ستانی کرنے والوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا جبکہ دوسرے ممالک میں موت یا عمر قید کی سزا ملتی ہے۔
ایک طرف تو قدرت نے ہمیں لاتعداد قدرتی وسائل سے نوازا ہے، اس کے علاوہ اعلیٰ دماغ بھی دیئے ہیں مگر ان کی قدر نہیں کی جاتی۔ ہمارے بہت کم اچھے سائنسداں اور انجینئر ہیں مگر پھر بھی جو نیک، دیانتدار ہیں اور وہ اس قابل ہیں کہ ناممکن کو ممکن بنا دیں اور انھوں نے یہ کر کے ھی دکھایا ہے اور جن کے بل بوتے طاقتور ملک ہونے کے دعوی کئے جاتے ہیں۔
آئیے آپ کی خدمت میں بعض حکمرانوں کی نااہلی کے چند ثبوت پیش کرتا ہوں:
(1)ہمیں جو قدرت نے قیمتی وسائل دیئے ہیں ہم ان کی مدد سے ایک ترقی یافتہ، اعلیٰ ملک بن سکتے ہیں مگر ایک زرعی ملک ہونے کے باجود ہم ٹماٹر، پیاز، ادرک، لہسن وغیرہ درآمد کرتے ہیں۔ زمین اتنی زرخیز ہے اور پھلوں کی پیداوار کو سائنسی بنیاد پر کرکے اس کی مقدار دگنی کرسکتے ہیں مگر آپ بازار میں دیکھئے کہ انگور، انار، ناشپاتیاں وغیرہ پڑوسی ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ آئیے اب دوسرے حقائق پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔
(2)اللہ تعالیٰ نے میٹھا پانی (بارش کی شکل میں اور برف کی شکل میں) ہمیں دیا ہے۔ اس میٹھے پانی کی ایک بوتل باہر 30,25 روپیہ میں ملتی ہے ہم کئی بلین ایکڑ فٹ پانی ہر سال (حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے) سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔ ہر سال سیلاب آتا ہے گائوں ڈوب جاتے ہیں، مویشی مر جاتے ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ اتنی وافر مقدار میں پانی کی موجودگی کے باوجود بہت سے علاقے قحط سالی کا ہر سال شکار ہوتے ہیں۔
(3) ہماری تقریباً آدھی آبادی پڑھنے لکھنے سے بے بہرہ ہے۔
(4)بچوں کی بہت بڑی تعداد معمولی سی تعلیم حاصل کرنے سے بھی مجبور ہے۔ اسکول چھوڑنے والے بچوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ اور یہ معصوم بچے کم عمری میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
(5)عوام کی ایک بہت بڑی تعداد بنیادی سہولتوں مثلاً صاف پانی، گھر، باتھ روم وغیرہ کی سہولتوں سے محروم ہے۔
(6)آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی سطح سے نیچے رہ رہی ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس ایک یا دو کمروں کے گھر نہیں ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان بھی ایک جھوٹا وعدہ بن کر غائب ہو گیا۔
(7)ملک کے اندر نہ صرف کمانے والوں کی قلت ہے بلکہ ان مواقع کا فقدان بھی ہے جو آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ حکمراں محلات میں رہ کر اور جھوٹے وعدوں عوام سے کرکے مزے اُڑا تے ہیں۔
(8)ہماری برآمد سے درآمد بہت زیادہ ہے اور تقریباً 70سال میں ہم اس قابل نہیں ہوئے کہ جو درآمدات ہیں ان پر توجہ دے کر ان کی ملک میں پیداوار کر سکیں۔ ہر سال کئی بلین ڈالر کی درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی ہماری کمر توڑ دیتی ہے اور یہ چیز ہر سال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔
(9)ہم اپنے ترقیاتی پروگراموں کے مقابلے میں غیر ترقیاتی منصوبوں پر کئی گنا خرچ کرتے ہیں اور ہر سال اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔
(10)صحت کا پروگرام نہایت ناقص ہے۔ ملک کے اعلیٰ ترین اسپتالوں میں صفائی کا فقدان ہے۔ ایک طرف وعدے اور دعوے اور دوسری جانب، دوائوں کا فقدان، غلاظت کے ڈھیر۔ جرنلسٹس یہ چیزیں کئی بار ٹی وی پر دکھا چکے ہیں اور دکھاتے رہتے ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
(11)تعلیمی معیار کا یہ حال ہے کہ دنیا کی اعلیٰ درسگاہوں کی فہرست میں ہمارے ملک کا صرف ایک ادارہ 601نمبر پر ہے۔ اس سے کیا آپ ترقی کرسکتے ہیں؟
(12)ایک انگریز سائنسدان اور فلسفی سرکارل پوپر (Sir Karl Popper) نے کہا تھا کہ موسیقی اور آرٹ کے بعد سائنس سب سے خوبصورت اور روشن خیال دنیا کی ترقی میں شامل ہے۔ میں بلاجھجک یہ کہہ سکتا ہوں کہ سائنس کو موسیقی اور آرٹ پر فوقیت حاصل ہے۔
کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ ہمارے ملک کا آوے کا آوا بھی بگڑا ہوا ہے، حکمران عوام سے وعدے کرتے ہیں جو وفا نہیں ہوتے اور ہم آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پر پسماندگی کے غار کی جانب رواں دواں ہیں۔

.
تازہ ترین