• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے حالیہ دورہ کراچی کے موقع پر گورنر ہائوس میں کراچی کے ممتاز صنعتکاروں، اسٹاک ایکسچینج بروکرز، کراچی چیمبر، پاک امریکن بزنس کونسل، پاکستان بزنس کونسل، پاکستان اوورسیز انویسٹر چیمبرز، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سربراہان، ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل، نائب صدر اشتیاق بیگ، ٹی ڈیپ کے چیف ایگزیکٹو ایس ایم منیر اور عبدالسمیع خان سے اہم ملاقاتیں کی جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا جبکہ اجلاس میں حکومت کی طرف سے وفاقی وزراء احسن اقبال، سعدرفیق، مفتاح اسماعیل، گورنر سندھ محمد زبیر عمر، وزیراعظم کے سیکریٹری فواد حسن فواد، اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ڈپٹی گورنر شریک ہوئے۔ اس موقع پر میں نے ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں کے اثاثوں کیلئے ایمنسٹی اسکیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ایک چارٹرڈ اکائونٹس کمپنی کے پارٹنر شبر زیدی کی حالیہ کتاب کے حوالے سے بتایا کہ ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال، بھتہ کلچر اور اغواء برائے تاوان جیسے عوامل کے باعث پاکستانیوں نے اپنی دولت بیرون ملک منتقل کرکے مختلف کاروبار میں لگائی۔ ان اثاثوں میں سے تقریباً115ارب ڈالر بزنس مینوں کے ہیں جبکہ 35ارب ڈالر سے زائد ایسے اثاثے ہیں جو بدعنوانی اور کرپشن سے حاصل کئے گئے تاہم آف شور کمپنیوں کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ کے نئے سخت قوانین کے باعث ان اثاثوں کو بیرون ملک رکھنا اب مشکل ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان اثاثوں کے مالکان اُنہیں کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر میں نے انڈونیشیا کی اپنے HNW شہریوں کے غیر ظاہر شدہ اثاثوں کو واپس لانے کیلئے اعلان کردہ ایمنسٹی اسکیم کا حوالہ بھی دیا جس میں رواں سال کے پہلے 3مہینوں (مارچ 2017ء تک) 2سے 5فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر بیرونی اثاثے وطن واپس لانے کی اجازت دی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق انڈونیشین باشندوں کے تقریباً 200ارب ڈالر کے اثاثے سنگاپور اور دیگر ممالک میں موجود ہیں۔
اجلاس کے دوران عارف حبیب نے 5فیصد ٹیکس پر بیرونی اثاثے ظاہر کرنے کی حکومتی ایمنسٹی اسکیم کی حمایت کی جبکہ عقیل کریم ڈھیڈی نے بتایا کہ بیرون ملک اثاثے رکھنے والے لوگ ایمنسٹی اسکیم چاہتے ہیں جس سے بیرون ملک سے بہت سارا پیسہ وطن واپس آئے گا جس پر وزیراعظم نے اُنہیں کہا کہ ’’آپ کھل کربات کریں‘‘۔ عقیل کریم ڈھیڈی نے بتایا کہ پاکستان کابہت سارا پیسہ باہر چلا گیا ہے جسے ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے کم ٹیکس لگاکر وطن واپس لایا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں ملکی کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی ختم ہوجائے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک اشرف محمود وتھرہ نے بتایا کہ حکومت پہلے بھی ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے ایمنسٹی اسکیم لاچکی ہے مگر صرف چند ہزار نئے لوگ ہی ٹیکس نیٹ میں آئے، اس لئے نئی ایمنسٹی اسکیم کیلئے ہمیں تجزیہ کرنا ہوگا جس پر وزیراعظم نے کہا کہ ’’آپ تجزیہ کریں، ہم کام کریں گے۔‘‘ اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف نے گورنر سندھ محمد زبیر سے ایمنسٹی اسکیم کیلئے بزنس کمیونٹی کی تجاویز لے کر دو ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ دوران اجلاس فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل نے حکومت کی بہتر معاشی کارکردگی اور ٹی ڈیپ کے سی ای او ایس ایم منیر نے ایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کے بارے میں وزیراعظم کو آگاہ کیا جبکہ دائود گروپ کے چیئرمین حسین دائودنے کہاکہ ہمیں 1992ء کا وزیراعظم چاہئے جب گرین چینل کھولا گیاتھا، حکومت لوگوں پراعتماد کرے اور شارٹ ٹرم کے بجائے لانگ ٹرم پالیسیاں تشکیل دے۔ حسین دائود کی اس تجویز کی شازیہ سید، سمیع احمد اور برونو اولیرہوک نے بھی تائیدکی اور کہا کہ ملکی پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہئے، منی بجٹ سے اچھا تاثر نہیں ملتا۔ اُن کاکہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی صورتحال بہترہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ چین کے معروف اسٹاک ایکسچینج کے نمائندے آج پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ڈائریکٹرز کی حیثیت سے موجود ہیں جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
دوران اجلاس امریکن بزنس کونسل کے سمیع احمد نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکسوں کا نفاذ منصوبہ بندی کے بغیر نہیں ہونا چاہئے۔ اوورسیز انویسٹرز چیمبرز کے خالد منصور نے کہا کہ سی پیک منصوبوں میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی فنانسنگ میں حائل رکاوٹیں دور کرکے کول پروجیکٹس کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے جس پر وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی فنانسنگ دستیاب ہے، سی پیک میں توانائی کے 34ارب ڈالر کے منصوبوں میں نجی شعبے نے سرمایہ کاری کی ہے جبکہ انفرااسٹرکچر منصوبوں کیلئے صرف 12ارب ڈالر دو فیصد شرح سود پر چینی حکومت کے قرضے ہیں۔ ایک ٹیکسٹائل ملک کے فواد انور نے حکومتی ٹیکسٹائل پیکیج کوخوش آئند قرار دیتے ہوئے کراچی میں صاف پانی کی فراہمی پرزوردیا۔ انجم نثار نے کہاکہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ٹیکس کمیشن بنایا گیا تھا، اگر اس کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے تو ملکی گروتھ ریٹ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس موقع پر طارق رفیع نے ملکی برآمدات بڑھانے اور جاپان، چین اور ترکی کے ساتھ جلد از جلد آزاد تجارتی معاہدے کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس پر وزیراعظم نے بتایا کہ ترکی سے مئی 2017ء تک آزاد تجارتی معاہدہ ہونے کی توقع ہے۔ میٹنگ کے دوران باقری انرجی کے کویتی سی ای او حسین ال شما نے وزیراعظم کے حالیہ دورہ کویت میں پاکستانیوں کیلئے کویتی ویزوں کی بحالی اور پاک کویت مشترکہ بزنس کونسل کے قیام کو بریک تھرو قرار دیا جس سے بزنس کمیونٹی کو بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔ اجلاس کے اختتام پر شرکاء کے اعزاز میں عشایئے کا اہتمام کیا گیا۔
میرے ساتھ بیٹھے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور سی پیک منصوبوں کے سربراہ احسن اقبال نے وضاحت کی کہ پاکستان میں سی پیک منصوبوں کی پروگریس اور سیکورٹی پر چینی حکومت پوری طرح مطمئن ہے جبکہ چین میں ہونے والی سی پیک کی گزشتہ میٹنگ میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے اضافی منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرنے پر صوبائی حکومتیں بھی نہایت خوش ہیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے پاکستان ریلوے کی کارکردگی کے بارے میں بتایا کہ نئے جدید امریکی انجنوں کی پاکستان ریلوے میں شمولیت سے ریلوے کی کارکردگی میں بہتری اور ادارے کے ریونیو میں اضافہ متوقع ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے 2013ء میں برسراقتدار آنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو اعتماد میں لے کر کراچی آپریشن کا فیصلہ کیا تھا جس کی سیاسی جماعتوں اور بزنس کمیونٹی نے مکمل تائید و حمایت کی تھی، آج تقریباً 4سال بعد کراچی آپریشن کے بہترین نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور شہر میں امن و امان کی بہتر صورتحال کے باعث نہ صرف ملکی معاشی کارکردگی بہتر ہوئی ہے بلکہ خوف و ہراس کی فضا کا خاتمہ بھی ہوا ہے جبکہ پاکستان کی معاشی صورتحال کی بہتری کا اعتراف عالمی معاشی و مالیاتی ادارے اور کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیاں بھی کررہی ہیں۔ پاکستان کی بہتر معاشی کارکردگی کراچی میں امن و امان سے وابستہ ہے کیونکہ ماضی میں کراچی میں امن و امان کی بدترین صورتحال سے نہ صرف شہر بلکہ پورے ملک کی معاشی کارکردگی متاثر ہوتی تھی جس کا اعتراف گورنر سندھ محمد زبیر بھی کرچکے ہیں۔ میں وزیراعظم نواز شریف کو صنعت کاروں اور بزنس مینوں کے ساتھ کامیاب میٹنگ کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور درخواست ہے کہ تیز معاشی ترقی کیلئے اسی طرح کی میٹنگز تواتر سے کی جائیں تاکہ حکومت کی معاشی کارکردگی، بزنس مینوں کو درپیش مسائل اور مستقبل قریب میں بہتر معاشی کارکردگی کیلئے حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔

.
تازہ ترین