• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں 19سال کے بعد ہونے والی مردم و خانہ شماری پر بہت سے حلقوں کے تحفظات سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کی طرف سے مردم شماری کے طریقہ کار کو عدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ان تحفظات کو فوری طور پر دور کرے تاکہ مردم و خانہ شماری کا عمل جب مکمل ہو تو اسے کوئی حلقہ مسترد نہ کر سکے اور اس کے نتائج متنازع نہ ہوں۔ ہمارے ہاں یہ روایت رہی ہے کہ مردم و خانہ شماری اور عام انتخابات کے حوالے سے تحفظات کو کبھی دور نہیں کیا گیا اور مقتدر حلقے ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس بات سے مطمئن ہیں کہ سیاسی حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے، ان پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہی سیاسی حلقے بعد ازاں مردم و خانہ شماری اور عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ اسی طرح ملک کی خارجی اور داخلی پالیسیوں کے حوالے سے بھی اعتراضات اور تحفظات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور حکمراں سیاسی جماعتیں یا مقتدر حلقے وہی کرتے ہیں، جو ان کے نزدیک ’’ملک کے عظیم تر مفاد‘‘ میں ہوتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس رویے کو ترک کیا جائے۔ زمانہ بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ ملک اب عام انتخابات، داخلہ و خارجہ پالیسیوں اور مردم و خانہ شماری کے متنازع ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
آئین کی رو سے 1951ء سے اب تک ملک میں 7مرتبہ مردم و خانہ شماری کا انعقاد ہو جانا چاہئے تھا اور اب ہمیں 8ویں مردم و خانہ شماری کی منصوبہ بندی میں مصروف ہونا چاہئے تھا۔ ہر 10سال بعد مردم و خانہ شماری کا انعقاد نہ صرف آئین کا بنیادی تقاضا ہے بلکہ بہتر منصوبہ بندی کیلئے ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہم 8ویں کی بجائے چھٹی مردم و خانہ شماری کرا رہے ہیں اور اس حوالے سے بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنی مرتبہ بھی مردم و خانہ شماری کرائی گئی ہے، اس کے نتائج سیاسی بنیادوں پر مرتب کئے گئے ہیں۔ یہ نتائج حقیقی نہیں تھے۔ پاکستان کے مقتدر حلقے ازخود یہ تصور کر لیتے ہیں کہ پاکستان کے مفاد میں کیا ہے۔ پہلے یہ نعرہ دیا گیا کہ پاکستان کے عظیم تر مفاد میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی آبادی کو برابر تسلیم کر لیا جائے۔ پیرٹی (Parity) یعنی ’’معادلت‘‘ کا تصور دیا گیا۔ یہ کہاں کا عدل ہے کہ ایک حصے میں رہنے والے 5افراد کو بھی 5روٹیاں دی جائیں اور دوسرے حصے میں رہنے والے 8افراد کو بھی 5روٹیاں دی جائیں۔ کہا گیا کہ اس سے پاکستان مضبوط ہو گا۔ 1951ء سے 1998ء تک 5مرتبہ مردم و خانہ شماری کا انعقاد کیا گیا اور پاکستان کیلئے فکرمند مقتدر حلقوں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اگر حقیقی اعداد و شمار سامنے آ گئے تو ملک کی یکجہتی اور استحکام کو نقصان ہو گا۔ لہٰذا انہوں نے ملک بچانے کیلئے اپنی مرضی کے نتائج مرتب کئے۔صرف یہی نہیں پاکستان کے عظیم تر مفاد میں عام انتخابات میں بھی اپنی مرضی کے نتائج مرتب کئے گئے اور اس کا یہ جواز پیدا کیا گیا کہ پاکستان میں ایک مرتبہ 1970ء میں عام انتخابات شفاف ہوئے اور مقتدر حلقوں نے مداخلت نہیں کی، جس کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا۔ پاکستان کے عظیم تر مفاد کے نام پر پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بھی اسی سوچ کے تحت تشکیل دی گئیں۔ قیام پاکستان کے بعد شدت پسندی کی سوچ رکھنے والے نسلی و فرقہ ورانہ (Ethno-Sectarian) گروہوں کو پاکستان کا نظریاتی محافظ قرار دیا گیا اور ان کی ریاستی سطح پر پشت پناہی کی گئی۔ ملک کی ترقی پسند، روشن خیال، اعتدال پسند اور مقبول سیاسی قوتوں کو ملک کیلئے خطرہ قرار دیا گیا اور جب مجبوراً عام انتخابات منعقد کرانا پڑے تو ’’ملک بچانے‘‘ کیلئے اپنی مرضی کے نتائج مرتب کئے گئے۔ ضیاءالحق کے بعد انہیں شدت پسندانہ سوچ کے حامل گروہوں کو عالمی ایجنڈے میں کارگر ثابت کرکے ان کی عالمی پشت پناہی کرائی گئی اور انہیں دہشت گردی کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ اب انہیں یہ کام سونپا گیا کہ روشن خیال اور اعتدال پسند قوتوں کو ریاست نہیں بلکہ یہ دہشت گرد گروہ کنٹرول کرینگے۔ پھر جب دہشت گردی کے خاتمے کیلئے داخلی پالیسیاں بنانے کی بات آتی ہے، تب بھی وہی ملک کا عظیم تر مفاد سامنے آجاتا ہے اور پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں کسی ایک یا دوسری وجہ سے گذشتہ ساڑھے تین عشروں سے دہشت گردی جاری ہے۔
مردم و خانہ شماری کے حوالے سے لوگوں کے جو تحفظات ہیں، ان کا بنیادی سبب مذکورہ بالا حالات ہیں۔ عام انتخابات اور ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی طرح مردم و خانہ شماری کے بارے میں بھی لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیئے گئے ہیں اور ہر قومی، لسانی گروہ کو اس معاملے پر بھی انتہائی حساس بنا دیا گیا ہے۔ ہر گروہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی آبادی زیادہ دکھائے۔ ماضی میں کچھ گروہوں کو اپنی آبادی زیادہ دکھانے کے حربے بھی سکھائے گئے۔ اب پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو وہ خشک زمین میسر نہیں ہے، جو پہلے تھی۔ مردم و خانہ شماری کے عمل کو اس طرح شفاف بنانا چاہئے، جس طرح لوگ مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مردم و خانہ شماری ایک ایسے مرحلے پر ہو رہی ہے، جب دنیا میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا موڑ بھی سامنے آ چکا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان ایشیا میں ابھرتی ہوئی معیشتوں کا مرکز بن گیا ہے۔ یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کا سیلاب آ رہا ہے۔ اگر ملک میں صحیح مردم و خانہ شماری نہیں ہوئی تو نہ صرف پاکستان کو اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مشکلات کا سامنا ہو گا بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے بھی کوئی واضح تصویر نہیں ہو گی۔ لہٰذا درست مردم و خانہ شماری کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کی تزویراتی (اسٹریٹجک) اور اقتصادی اہمیت میں اضافے کی وجہ سے اس کے خلاف عالمی سازشوں میں بھی شدت آگئی ہے۔ مردم و خانہ شماری اگر متنازع ہوئی تو ہم صرف اس بات کا اندازہ ہی کر سکتے ہیں کہ پاکستان دشمن قوتیں اس تنازع کو کیا رنگ دے سکتی ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ یہ مردم وخانہ شماری فوج کی نگرانی میں ہو رہی ہے، اس میں فوج کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ اسے ہرحال میں بچانا ہے۔ آج پاکستان کا ’’عظیم تر مفاد‘‘ یہ ہے کہ مقتدر حلقوں کی روایتی سوچ سے نجات حاصل کی جائے اور درست اور شفاف مردم و خانہ شماری کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ جو بھی حقیقی اعداد و شمار سامنے آئیں، ان سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسی مرحلے پر مردم و خانہ شماری کے حوالے سے سامنے آنے والے تحفظات کو فوری طور پر دور کیا جائے۔

.
تازہ ترین