• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیسی انا، کہاں کی ضد، کون سی ہٹ دھرمی جس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور اتنی بے باکی سے کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کو بھی ماننے سے انکار کر دیا جائے۔ یہاں تک کہہ دیا جائے کہ ہم آئندہ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے استحقاق کو بھی تسلیم نہ کیا جائے جس نے آپ کو وجود بخشا، کروڑوں عوام کے اس نمائندہ ادارے کے وقار پر شخصی عزت کو ترجیح دی جائے اور قومی خزانے سے تنخواہیں لینے کے باوجود یہ احسان جتایا جائے کہ انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی اور اس کی ذیلی کمیٹی کے اجلاسوں میں اس لئے شرکت کرتے رہے ہیں تاکہ نتیجہ خیز اور مؤثر اصلاحات متعارف کرائی جا سکیں۔ مان لیا آپ کی عزت نفس مجروح ہوئی، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ کے ادارے کی ساکھ پر حرف اٹھایا گیا، یہ بھی سچ ہے کہ بغیر کسی ثبوت کے آپ پر الزام تراشی کی گئی، یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ آپ کی نیک نیتی پر سوالیہ نشان لگایا گیا، لیکن جناب عالی اس کا حق آپ کو کس نے دیا کہ آپ جمہوریت کی نفی کریں، آپ آئین پاکستان کے منکر ہو جائیں، اپنی توہین کا بدلہ آپ کروڑوں پاکستانیوں کی تضحیک کرکے لیں، اس رویے کی اجازت آپ کو کس نے دی کہ آپ ریاست کے سامنے سینہ ٹھونک کر کھڑے ہو جائیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک رکن پارلیمنٹ کی اس غلطی کی سزا پوری پارلیمنٹ کو دیں جس پر انہوں نے فوری معذرت بھی کر لی تھی۔ قارئین آپ یقیناً سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ ذکر الیکشن کمیشن آپ پاکستان کے حکام کا کیا جا رہا ہے جنہوں نے رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں منعقدہ انتخابی اصلاحات کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک اس کا اجلاس منعقد نہیں ہو سکا اور انتخابی اصلاحات کا انتہائی اہم عمل تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کی زیر صدارت پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس جاری تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی رکن ڈاکٹر شیریں مزاری نے اجلاس میں شریک الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے از خود تین صوبائی الیکشن کمشنر کی تقرری کیسے کر دی ہے، انہوں نے تحفظات ظاہر کئے کہ کیا یہ تعیناتیاں قابل از انتخابات دھاندلی کی تیاریاں تو نہیں ہیں، بس اتنا سننا تھا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن اور دیگر حکام آگ بگولہ ہو گئے، ان ریمارکس کو اپنی توہین قرار دیا اور احتجاجاً کمیٹی کے اجلاس سے باہر چلے گئے، ڈاکٹر شیریں مزاری نے وضاحت کی کہ ان کا مطلب ہر گز وہ نہیں تھا جیسا سمجھا گیا ہے اور انہوں نے اپنے الفاظ واپس لیتے ہوئے معذرت بھی کر لی، وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد بھی الیکشن کمیشن حکام کو روکتے رہے ان سے اجلاس میں واپس شریک ہونے کی درخواست بھی کی لیکن الیکشن کمیشن حکام کی عزت نفس اس قدر مجروح ہو چکی تھی کہ انہوں نے پارلیمان کی عزت کا بھی خیال نہیں کیا اور اجلاس میں شریک ارکان پارلیمنٹ کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے واپس روانہ ہو گئے۔ وہاں موجود ارکان پارلیمنٹ نے سیکرٹری الیکشن کمیشن اور دیگر حکام کے اس رویے کو اپنی توہین قرار دیا اور تحریک انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے آئینی ادارے کے حکام کے اس طرز عمل کے خلاف سینیٹ سیکرٹریٹ میں تحریک استحقاق جمع کرا دی۔ ادھر الیکشن کمیشن کے سربراہ جناب جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد رضا نے بھی معاملے کو سلجھانے اور اس کا کوئی حل نکالنے کی بجائے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط تحریر کردیا جس میں نہ صرف ڈاکٹر شیریں مزاری کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا بلکہ یہ احسان بھی جتایا کہ الیکشن حکام نے انتخابی اصلاحات کی مرکزی کمیٹی کے 20اور ذیلی کمیٹی کے 78اجلاسوں میں اس لئے شرکت کی تاکہ بامعنی انتخابی اصلاحات عمل میں لائی جا سکیں۔ اسی خط میں ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے حکام یہ سب کچھ اس لئے نہیں کر رہے کہ ان کی تضحیک کی جائے اور انہیں طعنے دئیے جائیں اور الیکشن کمیشن کے حکام آئندہ پارلیمانی کمیٹی کے کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کے حکام کا یہ گلہ بجا کہ ڈاکٹر شیریں مزاری صوبائی الیکشن کمشنرز کی تقرری کے طریقہ کار سے لاعلم تھیں لیکن ان کا فرض تھا کہ وہ مذکورہ رکن اور ذیلی کمیٹی کو آگاہ کرتے کہ صوبائی الیکشن کمشنرز بنیادی طور پر الیکشن کمیشن کے ملازمین ہی ہوتے ہیں جو ترقی پاتے ہوئے اس عہدے پر پہنچ جاتے ہیں، اس طرح صوبائی الیکشن کمشنر کی مدت ملازمت پوری ہونے کی صورت میں ان کی ریٹائرمنٹ پر ان کی جگہ کسی دوسرے افسر کو تعینات کر دیا جاتا ہے جیسا اس معاملے میں کیا گیا لیکن بجائے وضاحت کرنے کے متعلقہ رکن کی الزام تراشی کو جواز بنا کر پارلیمنٹ کا ہی بائیکاٹ کر دیا گیا۔ ڈاکٹرشیریں مزاری کی طرف سے بیان کئے گئے تحفظات کا ایک خاص پس منظر ہے جس کا ادراک الیکشن کمیشن سے بہتر اور کسے ہو سکتا ہے۔ لیکن پارلیمان کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے والے الیکشن کمیشن کے حکام کیا اتنی جلدی بھول گئے کہ یہ وہی ادارہ ہے جس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا خمیازہ پاکستان کی جمہوریت کو ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنے کی صورت میں بھگتنا پڑا تھا، یہ وہی الیکشن کمیشن ہے جس کے اقدامات نے جمہوری نظام کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا۔ جناب عالی جب تاریخ اتنی درخشندہ اور ماضی اتنا شاندار ہو تب ایسی باتوں کو دل پر نہیں لیا کرتے بلکہ اپنے عمل سے ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ زمانہ لد چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام کو تو پاکستان تحریک انصاف کا شکر گزار ہونا چاہئے جس کے تاریخی احتجاج کی بدولت موجودہ حکومت جامع انتخابی اصلاحات پر راضی ہوئی ورنہ الیکشن کمیشن نے تو گزشتہ دور حکومت میں پانچ سالہ اسٹرٹیجک پلان بھی پیش کیا تھا جسے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کسی خاطر میں نہیں لائی تھی۔ اس موقع پر جب آئندہ عام انتخابات کو شفاف اور غیر جانب دار بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات کا کام آخری مراحل میں ہے الیکشن کمیشن کی طرف سے پارلیمانی کمیٹی کا بائیکاٹ کرنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ یہ طرز عمل تو اپنے پاؤں پر بھی کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے کیونکہ انہی انتخابی اصلاحات کی بدولت پہلی بار الیکشن کمیشن کو مالی اور انتظامی خود مختاری دی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے حکام کو یہ بھی باور ہونا چاہئے کہ ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا دینے والے عمران خان دھاندلی کے الزمات کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرنے والے ہیں اور انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اگر عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے ان کے مطالبات پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو اس بار وہ الیکشن کمیشن کے خلاف سڑکوں پر آئیں گے۔ الیکشن کمیشن حکام کا یہ فرض ہے کہ تحریک انصاف سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت اگر آئندہ انتخابات کے حوالے سے کسی بھی قسم کی شکایات یا تحفظات کا اظہار کرتی ہے تو اسے ہر طرح مطمئن کیا جائے۔ الیکشن کمیشن کو جلد از جلد انتخابی اصلاحات کے عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ وہ آئندہ سال شفاف اورغیر جانبدار انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنا کر اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے داغ دھوسکے۔ دوسری صورت میں اگر ہٹ دھرمی کا رویہ جاری رہتا ہے تو پارلیمنٹ کو الیکشن کمیشن حکام کے خلاف پیش کی گئی تحریک استحقاق پر کارروائی شروع کر کے اپنی بالا دستی ثابت کرنا ہو گی۔

.
تازہ ترین