• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن نے تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو خط لکھ دیئے ہیں کہ سال 2018ء سے 2سالہ بی اے، بی ایس سی جبکہ 2020ء سے دو سالہ ایم اے، ایم ایس سی پروگرام ختم کر دیا جائے گا۔ اس کی جگہ چار سالہ بی ایس آنر پروگرام میں صرف داخلے ہوں گے‘‘۔ اس فیصلے کو طلبہ تنظیموں، اساتذہ اور عوامی حلقوں کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی ایچ ای سی کو صوبوں میں مداخلت کا کوئی حق نہیں، یہ ایک شرمناک فیصلہ ہے اور نسلِ نو کو ملکی ترقی سے دور رکھنے کی سازش ہے۔ ایسے نادار طلبہ جو سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی فیس نہیں دے سکتے تھے وہ پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کر لیتے تھے، اب غریب اور متوسط طبقے کے کروڑوں نوجوانوں کیلئے سوشل سائنسز کی تعلیم کے دروازے بھی بند ہونے سے طبقاتی فاصلے مزید بڑھ جائیں گے۔ حکومتوں کے یہ نعرے’’تعلیم فار آل‘‘ کے جھوٹے دعوے ثابت ہو جائیں گے اور ’’تعلیم برائے فروخت‘‘ یا تعلیم برائے اشرافیہ‘‘ ہی رہ جائے گی۔
دوسری طرف وفاقی ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار کا کہنا ہے کہ ’’یہ کوئی نئی خبر نہیں بلکہ 2007میں یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ بین الاقوامی معیار کی تعلیم دینے کیلئے چار سالہ پروگرام ہی ملک کا مستقبل ہے۔ اس وقت ملک کی 182یونیورسٹیاں ہیں، چالیس لاکھ لوگ ایسے ہیں جنہیں یوینورسٹیوں تک رسائی نہیں مل رہی جبکہ ان یونیورسٹیوں میں 42ہزار فیکلٹی ممبر میں سے صرف 11سو کے قریب پی ایچ ڈی ہیں جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں 80فیصد اداروں کا معیار بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام بند کرائے ہیں اور 2025کے بعد کوئی بھی پی ایچ ڈی کے بغیر لیکچرار نہیں بن سکے گا‘‘۔
ان حالات کا معروضی انداز میں جائزہ لیتے ہوئے ملک اور صوبے کے سربراہ سے گزارش کریں گے کہ نئے نئے غیر عملی قسم کے تجربات کو تعلیمی میدان میں کرنے کی بجائے ٹھوس بنیادوں پر کسی ’’کامیاب تعلیمی ماڈل‘‘ کے تابع نظامِ تعلیم کو آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی کریں۔ اس وقت ملک میں تعلیمی نظام کو چوں چوں کا مربہ بنا دیا گیا ہے اور ہم ایک خاص سمت میں سفر کرنے کی بجائے دائرے کے سفر پر رواں دواں ہیں، جس کا نتیجہ صفر ہے۔ 2007میں کئے گئے فیصلے کی روشنی میں پنجاب کے 26کالجوں میں 2010میں چار سالہ بی ایس پروگرام دس مضامین ماس کمیونیکیشن، بی بی اے، بی کام، آئی ٹی، اکنامکس، میتھ، فزکس، کیمسٹری، انگلش اور نفسیات میں بغیر کسی تیاری کے شروع کیا گیا، اس دوران نہ تو اساتذہ کی خصوصی تربیت کی گئی، نہ اس بین الاقوامی معیار کی تعلیم کیلئے کلاس روم، لیبارٹریز اور دیگر سہولتیں فراہم کی گئیں، مزید یہ کہ نہ کتابیں اور لائبریریاں تھیں اور نہ ہی اساتذہ کو معلوم تھا کہ سمیسٹر سسٹم کیا ہوتا ہے چونکہ یہ سب ایک شاہی فرمان کے ذریعے شروع کیا گیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ کالجوں سے ڈراپ آئوٹ کا تناسب 90فیصد سے زیادہ ہو گیا، دوسرے سال ان میں سے بیشتر مضامین میں داخلے ہی نہ ہو سکے۔ شاہی فرمان کے ذریعے سے ہی یونیورسٹیوں کو بھی الحاق کرنا پڑا۔ اس طرح کے حالات میں فرمان جاری ہوئے کہ طلبہ کو فیل نہیں کرنا اور پہلے جو 20فیصد نمبر کالج اساتذہ کے پاس تھے انہیں بڑھا کر 40فیصد کر دیا گیا۔ اس طرح کے پروگرام کیلئے جس بین الاقوامی معیار کی ضرورت تھی، اُسے پورا کرنے کی بجائے اس کا معیار گرا دیا گیا۔ ٹیچرز نے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر بغیر کسی کرائیٹیریا نمبر لگانے شروع کر دیئے، حاضریوں کا معیار جو یونیورسٹی رولز کے مطابق 75فیصد ہونا چاہئے تھا اس کو گرا کر دس سے 20فیصد تک لایا گیا اور بعض جگہوں پر تھوک کے حساب سے نمبر دے کر جی پی اے اور سی جی پی اے کو تین سے اوپر تو پہنچا دیا گیا لیکن اس سسٹم کی روح کا قتل ہو گیا۔ آج ان 26کالجوں کے علاوہ مزید دس بارہ کالجوں میں بی ایس آنر کا یہ پروگرام شروع کیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں معیار تعلیم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے حکمراں اس خراب صورتحال کے ذمہ ہیں اگر وہ مخلص ہیں تو دوسالہ پروگرام ختم کرنے اور چار سالہ پروگرام شروع کرنے سے پہلے کچھ بنیادی اقدامات کر لیں۔ شاید تعلیمی سمت درست ہو سکے اور ملکی ترقی میں یہ پروگرام نہ صرف ممد و معان ثابت ہو بلکہ لاکھوں پڑھے لکھے بیروزگاروں کو نوکری بھی مل سکے۔
-1آئینی حقوق کے مطابق پاکستان کے تمام شہریوں کو 16سال تک مفت تعلیم لازمی فراہم کی جائے۔ 2۔تمام ہائی اسکولز کو ہائر ایجوکیشن اسکولز کا درجہ دیا جائے، میٹرک کے بعد طلبہ کے رجحانات کے مطابق انٹر کے مضامین پڑھائے جائیں۔ رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے میجر اور مائینر مضامین کا صرف انتخاب کروایا جائے۔ 3۔انٹر کے بعد صرف بہتر معیار کے طلبہ کو بی ایس چار سالہ پروگرام میں داخلے کا اہل قرار دیا جائے جبکہ باقی تمام طلبہ جو تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں انہیں ’’ٹیوٹا‘‘ کے پروگراموں میں ایک سال یا دو سال کے ٹیکنیکل پروگرام اس تناسب سے کروائے جائیں کہ انہیں فارغ ہونے کے بعد ملازمتیں مل سکیں اگر یہ ملازمتیں حاصل نہ بھی کر پائیں تو وہ اس قابل ہوں کہ اپنا کاروبار کر سکیں، ایسے افراد کیلئے حکومت اُن کے ساتھ پارٹنرشب کرے یا قرض حسنہ دیا جائے۔ جس طرح ’’اخوت‘‘ کے ادارے کے ساتھ حکومت حصہ دار ہے۔ 4۔بی ایس پروگرام کے تمام ڈسپلن کے کورسز کو جدید ضرورتوں کے مطابق ڈھالا جائے، میجر اور مائینر سبجیکٹ کی تفریق کو واضح کیا جائے، صرف ایسے مائینر مضامین پڑھائے جائیں جو اُس ڈسپلن کے دائرہ کار میں آتے ہیں نہ کہ ماس کمیونیکیشن والوں کو بھی میتھ پڑھایا جائے۔5۔بی ایس آنر پروگرام شروع کرنے سے پہلے لائبریریوں، لیبارٹریز، کمپیوٹر اور دیگر جدید سہولتوں کا انتظام کیا جائے۔ 6۔اساتذہ کے مائنڈ سیٹ کو بدلا جائے، انہیں آپشن حاصل ہوکہ وہ اگر بی ایس کو پڑھانا چاہتے ہیں تو کم از کم چھ ماہ کی خصوصی ٹریننگ دی جائے، جس میں پڑھانے کے طریقہ کار، ملٹی میڈیا کے استعمال، اسائنمنٹ کی تیاری، ریسرچ، پریزنٹیشن کا طریقہ، کوئز بنانے اور مارکنگ کا معیار سکھایا جائے، جو اساتذہ بی ایس کو نہیں پڑھانا چاہتے انہیں صرف انٹر تک محدود کر دیا جائے۔ 7۔ہر علاقے میں بی ایس اور ایم ایس/ایم فل کے کالج مخصوص ہوں۔ جہاں ریسرچ کا ماحول اور سہولتیں فراہم کی جائیں جبکہ انٹر کے کالج علیحدہ کردیئے جائیں یا انٹر کو صرف ہائر سکینڈری اسکولز تک محدود کر دیا جائے۔ 8۔بی ایس اور ایم ایس کو پڑھانے والے پروفیسرز کیلئے ایم فل اور پی ایچ ڈی لازمی قرار دی جائے اِن کے اسکیل یونیورسٹیوں کے مطابق اپ گریڈ کئے جائیں اور انہیں خصوصی ریسرچ الائونس جو کم ازکم تیس ہزار روپے ماہانہ ہو وہ دیا جائے۔ 9۔ایسے اساتذہ سے ملکی ترقی کیلئے ریسرچ پروجیکٹس بنوائے جائیں، ان کیلئے سال میں کم از کم دو ریسرچ پیپر پبلش کرانا لازمی قرار دیا جائے۔تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں سے مقابلے کیلئے بہت سی تجاویز ہیں، اگر حکمراں اس شعبے میں واقعتاً بہتری چاہتے ہیں تو اخلاص کے ساتھ ان تجاویز کی روشنی میں اپنی منصوبہ بندی کریں۔ پھر اُن کی مشہوری کے اشتہارات خود بخود لگ جائیں گے اربوں روپے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی!

.
تازہ ترین