• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں تحمل و برداشت کے جذبے نے خیالات کی آبیاری کی،سعیدہ وارثی

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) بیرونس سعیدہ وارثی نے کہا ہے کہ پاکستان میں اجتماعیت، تحمل و برداشت اور بقائے باہمی کے جذبے نے میرے خیالات کی آبیاری کی لیکن بدقسمتی سے آج پوری دنیا میں صبر و تحمل، برداشت اور بقائے باہمی کو خطرات لاحق ہیں، انھوں نے اپنی کتاب ’’انیمی ودن؛ اے ٹیل آف مسلم برٹن‘‘ کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ بچپن میں وہ پاکستان گئی تھیں اور پاکستان میں وہ مساجد، مزاروں، دیہی سکولوں، امام بارگاہوں، شادیوں اور دوسری سماجی تقریبات میں آزادی کے ساتھ کسی روک ٹوک کے بغیر شریک ہوتی رہیں، مجھے ہر جگہ آنے جانے کی مکمل آزادی تھی، انھوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ اس وقت پاکستان میں محبت تھی، فرقہ پرستی برداشت نہیں کی جاتی تھی اور وہاں آج سے کہیں زیادہ آزادی تھی۔ سعیدہ وارثی نے اپنی کتاب میں پاکستان کیلئے ایک گوشہ مخصوص کیا ہے لیکن بحیثیت مجموعی ان کی کتاب کا موضوع برطانوی مسلمانوں کو درپیش چیلنجز ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنی کتاب میں سوال اٹھایا ہے کہ برطانوی مسلمان کون ہیں؟۔ برطانیہ میں ان کا کیا مقام ہے ؟۔ اور انھیں آج بالکل اسی طرح تضحیک اور شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا سامنا کسی زمانے میں صہیونیوں، خواتین اور بچے جس کا نشانہ بنتے تھے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ جب وہ کیبنٹ منسٹر تھیں تو نیشنل سیکورٹی سے متعلق اجلاس میں شریک تھیں اس وقت ایک صاحب نے اس اجلاس میں میری موجودگی کے حوالے سے اجلاس میں ہی سوال کیا کہ یہ اس اجلاس میں کیسے شریک ہیں اور پھر اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیسے لڑی جائے گی جب دشمن اندر ہی موجود ہے اور قومی سلامتی کے اجلاسوں میں شامل ہے۔ سعیدہ وارثی نے کہا کہ مجھے اس پر بہت برا لگا اور میں نے محسوس کیا کہ میرے ساتھ بہت ہی ناخوشگوار سلوک کیا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مسلمان طویل عرصے سے برطانیہ میں موجود ہیں اور اسلام بھی برطانیہ میں طویل عرصے قبل ہی آیا تھا اس وقت برطانیہ میں مسلمانوں اور اسلام کے ساتھ گزارا کرنے کا جذبہ موجود تھا۔ انھوں نے کہا کہ مسیحی مذہب کی جڑیں بھی کسی غیر ملک میں ہی ملیں گی، یہ مذہب برمنگھم یا بریڈ فورڈ میں وجود میں نہیں آیا، بیت اللہم میں وجود میں آیا تھا، سعیدہ وارثی نے کہا کہ انھوں نے اپنی کتاب میں برطانیہ میں مسلمانوں کی متنوع کمیونٹی کی وضاحت کی ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ آخر کیا چیز کسی کو پرتشدد جہادی بناتی ہے؟۔ حکومت گزشتہ ایک عشرے سے مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی پالیسی پر کیوں گامزن ہے۔ کیا مسلمان اس ملک کی صفوں میں موجود دشمن ہیں، جیسا سمجھا اور تصور کیا جاتا ہے اور ہم کس طرح اپنی کمیونٹیز کے درمیان تعلقات کو دوبارہ ان خطوط پر استوار کرسکتے ہیں اور قوم کی تعمیر نو کرسکتے ہیں جس میں ہر ایک بے فکر ہو۔ انھوں نے کہا کہ مسلم قائدین کو سامنے آکر حقائق کا سامنا کرنا چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ اماموں اور مسلم قائدین کیلئے صرف دوسرے مذاہب پر تنقید کرتے رہنا درست نہیں ہے۔ انھوں نے کہ بہترین طریقہ یہ کہ آپ اپنے مذہب اپنے عقائد پر قائم رہیں اور دوسروں پر تنقید اور حملے کرنے کے بجائے اپنی زندگی میں پرسکون اور شائستگی اختیار کریں۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں مسلمانوں کو خود اپنے ضمیر کا جائزہ لینا ہوگا اور خود اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔
تازہ ترین