• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک نئے دور کا آغاز ... انداز بیاں…سردار احمد قادری

لندن پہنچتے ہی سب سے پہلے جس چیز کا شدت سے احساس ہوا وہ یہاں کا پُرسکون ٹریفک تھا، گاڑیوں کی لمبی قطاریں تھیں لیکن وہ شور و غل اور ہارن کی جا بجا آوازیں نہیں تھیں جس کا پاکستان میں عادی تھا، ہر طرف ٹریفک پُرسکون طریقے سے رواں دواں ہے، لیکن خاموشی ہے۔ گاڑیاں اپنی اپنی لائن میں چل رہی ہیں، کوئی کسی کو جلدی میں اوور ٹیک نہیں کر رہا اگر اوور ٹیک بھی کرتا ہے تو ’انڈی کیٹر‘ کے ذریعے اپنی خواہش کا اظہار کر رہا ہے اب تو یہ سب کچھ معمولات کا حصہ لگتا۔ لیکن پاکستان سے آنے والے مسافر کا پہلا ’آن دا روڈ‘ مشاہدہ تھا اور حیران کن تھا۔ وطن عزیز پاکستان جب جانا ہوتا ہے تو ائر پورٹ سے باہر نکلتے ہی خوش گوار احساس ہوتا ہے کہ اپنے آبائی وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ وہی زندگی کی رونق اور چہل پہل ہے، وہی ٹانگے کی ٹپ ٹپ اور رکشہ کی پھٹ پھٹ کی آوازیں، ٹرکوں اور بسوں کے چیخنے اور ریڑھی والوں کی اشیاء خریدنے کی التجائیں، بھکاریوں کی پراثر دعائیں اور ان میں سے دل کے دروازے پر دستخط دینے والی سب سے منفرد سب سے جدا دلوں پر اثر کرنے والی مختلف مسجدوں سے آنے والی اللہ اکبر کی صدائیں ایک عجیب کیفیت پیدا کر دیتی ہیں اور مسافر کا احساس یقین میں بدل جاتا ہے کہ وہ اپنے وطن عزیز پہنچ چکا ہے۔ ہر طرف وہی جانی پہچانی آوازیں ہیں۔ دلفریب صدائیں ہیں، لندن کا سکون آور ماحول مجھ پر اتنا اثر انداز ہوا کہ آنے کے دوسرے دن جب مولانا خواجہ بشیر احمد چشتی کے خالی گھر میں نماز عشاء کے بعد سویا تو سوتا ہی رہا۔ انہوں نے نماز فجر کے لئے اٹھایا تو نماز فجر پڑھ کر پھر سوگیا اور شاید عصر تک سوتا رہا۔ نامعلوم یہ میری گزشتہ چند سال کی مصروف ترین زندگی میں نیند کی کمی کا ازالہ تھا یا پھر لندن کی شورو غل سے پاک زندگی کا اثر تھا، گھر میں بھی کوئی نہیں تھا۔ خواجہ صاحب صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد چلے جاتے اور کھانے پینے کا وافر سامان ریفریجریٹر میں موجود تھا۔ لہٰذا کئی دنوں تک یہی معمول رہا کہ نیند سے بیدار ہو کر کچھ کھا پی کر پھر سو جاتا، جب تین چار دنوں بعد تھکاوٹ مکمل طور پر ختم ہوگئی اور میں لندن کے نظام الاوقات سے ہم آہنگ ہوگیا تو میں نے ٹریک سوٹ اور جوگر لئے اور علی الصباح نماز فجر کے بعد اپنی دیرینہ عادت کے مطابق ’’جاگنگ‘‘ کا سلسلہ شروع کیا، یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہماری رہائش گاہ سے تقریباً آدھ میل کے فاصلے پر ایک بڑا پارک تھا، اس پارک پر جاگنگ کرتا ہوا جاتا، پارک کے اندر بھی جاگنگ ٹریک بنے ہوئے تھے وہاں بھی دوڑتا رہتا اور پھر کچھ دیر سستانے کے بعد واپس آ جاتا۔ دوپہر کے بعد لندن کی مشہور زمانہ ڈبل ڈیکر بسوں کے چھت والے حصے پر بیٹھ کر لندن کی عمارتوں اور سڑکوں کا نظارہ کرتا یا کسی میوزیم، کسی تاریخی عمارت یا لائبریری میں چلا جاتا۔ چند دنوں بعد یونیورسٹی کی تعلیم کے سلسلے میں معلومات حاصل کرنا شروع کیں تو پتہ چلا کہ قانون میں ماسٹر ڈگری یعنی ایل ایل ایم کرنے کے لئے پہلے یہاں ایل ایل بی کرنا ضروری ہے۔ کامن ویلتھ سے نکل جانے کے بعد پاکستان کی قانون کی ڈگری کو تسلیم نہیں کیا جاتا، دل پر چوٹ لگی کہ ہمارا ایل ایل بی بےکار گیا۔ پاکستان کے ممتاز ترین پنجاب یونیورسٹی لاہور میں حاصل کی جانے والی ایل ایل بی کی ڈگری یہاں قبول نہیں کی جاتی، بتایا گیا آپ یہاں پہلے ایل ایل بی کا امتحان دیجئے پھر ایل ایل ایم کرسکیں گے۔ خواجہ بشیر احمد چشتی نے مشورہ دیا کہ یہاں انگریزی زبان جاننے والے اساتذہ اور علماء کی ضرورت ہے اگر آپ یہاں رہنا چاہئیں تو مانچسٹر کے مضافات میں ایک جگہ پر ’’منسٹر اف ریلیجن‘‘ یعنی امام کی ضرورت ہے آپ اس معیار پر پورے اترتے ہیں، اس طرح سے آپ کچھ عرصے بعد مستقل رہائش کا حق حاصل کرسکیں گے اور پھر مقامی طلباء کی طرح کم فیس دینے کے اہل ہو جائیں گے تجویز اچھی تھی، قبول کرلی۔ گریٹر مانچسٹر پہنچ کر جن لوگوں سے میرا تعارف ہوا ان میں سے اکثر سے اب تک قریبی احباب کی طرح تعلق قائم ہے لیکن ان میں ڈاکٹر محمد سلیم ایم بی ای سے ایسا برادرانہ، مخلصانہ اور دوستانہ تعلق قائم ہوا اور ان کی مرحومہ اہلیہ نے بڑی بہن کی طرح مجھ سے اور بعد میں میری اہلیہ سے ایسا شفقت و محبت کا رویہ اپنایا کہ اس حدیث مبارکہ پر ایمان و یقین مزید مستحکم اور پختہ ہوگیا کہ عالم ارواح میں روحیں گروہ در گروہ کی شکل میں یعنی ہم خیال افراد کے گروپ کی شکل میں رہتی تھیں اس سے معلوم ہوا کہ جب عالم ارواح میں اکٹھے رہنے والے لوگ اچانک زندگی کے کسی موڑ پر اچانک ملتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ برسوں کی ان سے پہچان ہے اور ہم ہمیشہ سے ایک دوسرے کو جانتے پہنچانتے ہیں۔ یہ بھی پتہ چلا کہ کچھ لوگ بظاہر خلوص اور دوستی کی آڑ میں پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور آپ کو دھوکہ دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ ڈاکٹر محمد سلیم نے مجھے بتایا کہ ہمیں آپ جیسے جدید تعلیم یافتہ ٹیچر اور امام کی ضرورت تھی اس لئے ہم حکومت کو آپ کے مستقل قیام کی درخواست باضابطہ طور پر پیش کر رہے ہیں، چند ہفتوں بعد ائر پورٹ پر امیگریشن ٹیم کے سامنے بیٹھا ان کے سوالوں کے جوابات دے رہا تھا،کیونکہ قانونی طریقہ کار اور ضابطے کے مطابق یا تو واپس پاکستان پہنچ کر اپنی نئی ذمہ داریوں کے سلسلے میں برٹش ہائی کمیشن کو مطمئن کرنا تھا یا ائر پورٹ پر جا کر امیگریشن ٹیم کو دوبارہ انٹرویو دینا تھا، اگر انٹرویو میں امیگریشن کے حکام مطمئن نہ ہوئے تو مجھے وہاں سے واپس پاکستان بھیج دیئے جانے کا امکان بھی تھا۔ میں نے ائر پورٹ پر انٹرویو کی حامی بھری اور بڑے اطمینان سے امیگریشن آفیسرز کے سوالوں کے جوابات دیئے یہ ایک طویل نشست تھی جس میں میری کوالی فیکیشن، تجربے، صلاحیت کے متعلق ہر طرح کے سوالات کئے گئے لیکن چند سوالوں کے جوابات یاد رہ گئے ہیں۔ سوال کیا گیا کہ آپ تو ایڈووکیٹ ہیں، امام کیسے بن جائیں گے ؟ میں نے جواب دیا میں یہاں آ کر امام نہیں بنا۔ پاکستان میں بھی مذہبی ذمہ داریاں ادا کرتا رہا ہوں اور مذہبی تعلیم باقاعدہ طور پر حاصل کی ہے، میں نے اس ذمہ داری کو ایک مشن کے طور پر قبول کیا ہے پھر میں نے ٹیم سے سوال کیا کہ کرسچن مشنریز کیلئے کیا صرف ’وکر‘ یعنی مذہبی رہنما ہونا ضروری ہے ؟ کیا انجینئر، ڈاکٹر، بیرسٹر کرسچن مشنری نہیں ہوسکتا ؟ ایک سوال یہ بھی تھا کہ آپ نے کہا ہے کہ آپ برطانیہ میں پیدا ہونے والی نوجوان مسلمان نسل کی تعلیم و تربیت کیلئے اپنے آپ کو آمادہ پاتے ہیں، آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ کب تک ان کو تعلیم و تربیت مہیا کرتے رہا کریں گے، میں ایک لمحہ کو رکا اور پھر ان کی طرف دیکھ کر کہا ’’یہ تو والدین پر منحصر ہے کہ وہ کب تک بچے پیدا کرتے رہتے ہیں‘‘ میرے اس فقرے پر ہر طرف قہقہے گونجے اور ٹیم کے ارکان نے گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر مجھے رخصت کیا اور کچھ عرصے بعد باضابطہ طور پر مجھے ’’منسٹر آف ریلیجن‘‘ کا اجازت نامہ حاصل ہوگیا۔

.
تازہ ترین