• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تبلیغی جماعت…چند گزارشات ... تحریرذوالفقار علی…لندن

دعوت تبلیغ سے عصر حاضر میں لاکھوں، کروڑوں فرزندان توحید وابستہ ہیں۔ اس دعوت دین کو زندگی کے ہر گوشے، قریے اور ریاست میں پہنچانے والے بے شک خلوص نیت اور بڑی محنت سے کام کررہے ہیں ان پڑھ، پڑھے لکھے سبھی افراد دعوت تبلیغ کے عظیم کارخیر پر کمربستہ ہیں۔ قرآن ایک عظیم الشان الہامی کتاب ہے۔ جو رب ذوالجلال انے اپنے نبی رحمتؐ کے ذریعے پوری انسانیت کے لیے، امن، خوشحالی اور انقلاب کا ذریعہ بنایا۔ قرآن کریم تمام مادی علوم کا سرچشمہ ہے۔ قرآن اور اسلام کا پیغام ہمہ گیر، امن، محبت، خوشحالی کا ہے۔ قرآن عظیم الشان نے تبلیغ کے مقابلے میں، زندگی کے عائلی، خاندانی تعلقات، باہمی اخوت، محبت اور باہمی روابط کی اہمیت پر زبردست زور دیا ہے اور ارکان اسلام سے زیادہ، انسانی حقوق، باہمی احترام، عزت، محبت، تعلقات کی مضبوط کی اہمیت کو واضح اور اجاگر کیا ہے۔ نماز، روزہ زکوٰۃ، حج، کلمہ توحید اور دیگر بنیادی اور ثانوی ارکان پر کاربند رہنے، عمل کرنے، فوقیت دینے سے پہلے، والدین، بزرگوں اور خونی رشتوں کے تقدس کی حرمت عزت کی بجاآوری کو لازمی اور اولین قرار دیا ہے۔ قرآن، خاندانی اور عائلی زندگی کا مکمل اور بھرپور احاطہ کرتا ہے۔ یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا نہیں، بلکہ ہر مذہب سے وابستہ انسانوں کے حقوق کے احترام کا بھی درس دیتا ہے۔ قرآن کا پیغام صرف دنیا کے مسلمانوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ پوری انسانیت خواہ جس مذہب سے تعلق رکھتا ہے ان کے سیاسی، سماجی، نظریات کی پاسداری کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن عظیم الشان میں ارشاد ہے کہ ایک مسلمان رب ذوالجلال کے کائنات میں غور و فکر کرے گا۔ ایک مسلمان پر فرض ہے کہ کائنات میں ارض و سماء میں موجود، نباتات،مخفی و زمینی ذخائر، پہاڑوں، معدنیات کو مسخر کرو، ان پر تحقیق اور غور و فکر کرو، بے شک تمہارے لیے زمین و آسمان کی تخلیق اور دن رات کی تبدیلی میں نشانیاں موجود ہیں۔ کائنات کے چرند، پرند، نباتات، مظاہر فطرت، مناظر فطرت میں فطرت کی نشانیاں موجود ہیں۔ موجودہ جدید ایجادات میں قرآن مجید کے مطالعے اور اس کے نتائج سے جنم لینے والے ذرائع، آسانیاں اور سہولتیں ہیں یعنی قرآن جدیدیات کے استعمال، ان سے استفادے کی اہمیت پر نہ صرف زور دیتا ہے بلکہ اس سے استفادہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس طرح جدید ایجادات، سائنس و ٹیکنالوجی کو مذہبی پرچار، تعلیم کے لیے بھی مستعمل کیا جائے گا۔ اس میں قرآن کا مطالعہ، تبلیغ، نماز اور مذہب سے وابستہ تمام علوم کو تمام انسانوں تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ وقت کے ساتھ اور ترقی آنے کے بعد جدیدیات کو مذہب اسلام کی تعلیمات کے پرچار، اشاعت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ قرآن میں ایسی کوئی آیت، اشارہ نہیں ہے کہ نماز یا دین کی اشاعت کیلئے کمپیوٹر یا سائنسی ایجادات کا استعمال ممنوع ہے۔ قرآن اور مذہب اسلام فہم کا دین ہے۔ بے شک نمازیں درست کرنا ضروری ہے۔ نماز کے فرائض کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا لازمی اور ضروری ہے۔ اس طرح دین اسلام، کھانے پینے، شہری زندگی کے معمولات سمجھنے وضع داری اور زندگی کے آداب کا نہ صرف درس دیتا ہے بلکہ اس پر عمل کرنا بھی فرض اور ناگزیر ہے۔ قرآن اپنی اولاد کی تربیت کا بھی زبردست داعی ہے۔ یہ رشتوں کے تقدس کی بھرپور تعلیم دیتا ہے۔ اس پر زور دیتا ہے۔ مذہب اسلام میں اس بات کی بھی گنجائش نہیں ہے کہ تم مسلمان اپنے بیوی، بچوں کی مادی ضروریات سے صرف نظر کرکے صرف دعوت کے کام میں مصروف ہوجائے۔ مذہب اسلام یہ درس دیتا ہے کہ اولاد کی صحیح اسلامی تربیت، بیوی، بچوں کے معاشی حقوق کے ساتھ والدین، بہن، بھائیوں، خاندان کے تمام بزرگوں، بشری حقوق اور احترام کی اہمیت جگہ، جگہ قرآن کریم میں اجاگر ہوئی ہے۔ حج اور جہاد اسلام کے سب سے ارفع و اعلیٰ ارکان ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر والدین، اولاد اور خونی رشتوں کے احترام کی تاکید کرتا ہے۔ اسلام زندگی میں اعتدلال کا درس دیتا ہے۔ آج دعوت تبلیغ کا مشن اپنے آب و تاب سے جاری ہے۔ تبلیغی جماعت کے اکا برین، مسائل سے زیادہ فضائل پر زور دیتے ہیں۔ لیکن دین اسلام میں مسائل کو سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے پر زور دیتا ہے۔ پھر فضائل کی اہمیت اور عمل کی بھی تاکید کرتا ہے۔ دنیا بھر میں دعوت کا کام اپنی شدومد سے جاری ہے۔ یہ ایک خوش آئند امر ہے۔ اس کے ساتھ اسلام خاندان، معاشرے، محلے، گائوں، شہر اور پھر پورے ملک کے انسانوں کی بشری حقوق کی زبردست اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلام عظیم الشان خدمت خلق کا بھی ہمہ گیر درس دیتا ہے۔ یعنی دنیا بھر کے کسی بھی ملک میں بسنے والے، انسانوں اور مسلمانوں کے دکھ درد میں شریک ہونے اور بس ہونے پر ان تک پہنچنے اور اس کی اخلاقی، مالی، سیاسی، سماجی اور ہر طرح کے مدد و نصرت کا داعی ہے۔ اسلام پر یہ آفاقی اصول کسی انسانی ذہن کے تخلیقات کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ رب ذوالجلال کا حکم ہے۔ میں راقم خاکسار اس حقیقت کا حامی ہوں کہ دین اسلام کے ارکان کی پیروی کریں گے۔ اپنی نمازیں درست کریں گے اور اسلام کے آفاقی اصولوں کے مطابق جب سنت نبویؐ کو جاندار رکھیں تب ہی دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ کیا صرف وعظ، تبلیغ یا ایک مسجد میں بیٹھ کر کونے میں دعوت کا کام کرنے سے مذہب اسلام کا پرچار، اشاعت ہوسکے گی۔ کیا خاندانی رشتوں کے روابط سے صرف نظر کرکے اسلام کے حقیقی روح سے قطع نظر نہیں ہے، کیا دین کے صرف ایک جز پر عمل کرکے اسلام کا بول بالا ہوسکتا ہے؟ کیا صرف مساجد میں بیٹھ کر ذکر الٰہی، نمازیں، سنتیں، نوافل، فرائض کی انجام دہی سے دین اسلام غالب ہوسکتا ہے۔ کیا قرآن میں صرف نمازین درست کرنے، مساجد کے گوشوں میں دھرنا دے کر خدمت خلق کا نصب العین کماحقہ ادا ہوسکتا ہے۔ میں نہایت ادب سے دعوت تبلیغ کے مولانا طارق جمیل اور اس دعوت سے وابستہ اپنے دینی بھائیوں سے مودبانہ، عاجزانہ التجا کرتا ہوں کہ اسلام کے صرف ایک جز پر عمل کرکے کیا دنیا میں امن، سکون، خوشحالی، استحکام آسکتا ہے۔ کیا دین جدیدیات کا درس نہیں دیتا۔ مسلمان کو سچا مسلمان بنانا اگر دعوت میں شامل ہے یا اگر قرآن کا پیغام ہے تو کیا دنیا بھر میں گھرے مسلمانوں اور انسانوں کے دکھ، غم اور مصیبت میں ان تک کون پہنچے گا۔ کیا یہ موجودہ مسلمان کا فرض نہیں ہے؟ برما، کشمیر، فلسطین، شام، عراق کے نہتے مسلمانوں کی مدد کرنا کیا قرآن میں نہیں ہے؟ وہ مسلمان جو کھلے تلے آسمان پڑے ہیں، جن کے پاس دوا دارو نہیں، وہ مر رہے ہیں۔ جو رات کے بچھونے، دانا پانی، چھت کے محتاج ہیں۔ کیا یہ قرآن عظیم الشان کی تعلیم نہیں ہے؟ ایک کامل مومن اور مسلمان اپنے مسلمان بھائی، بہن کے اخلاقی، مالی، جسمانی حقوق اور تحفظ کا ذمہ دار ہے۔ عصر حاضر میں دکھی مسلمانوں کی سیاسی، مالی، غذائی، اخلاقی، سیاسی، سفارتی مدد ہمارا بحیثیت مسلمان فرض ہے۔ اس سے بڑھ کر تبلیغ، خدمت خلق اور جہاد اکبر اور کوئی مشن نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں ارشاد ہے کہ دین میں پوری طرح داخل ہوجائو اور ارکان اسلام یا جزئیات اسلام کی مکمل پیروی کرو یا قرآن کی تاکید اور بحیثیت مسلمان ہمارا اولین فرض ہے۔ کیا ایک جز پر عمل کرکے باقی جزئیات سے چشم پوشی کرنا اسلام میں جائز ہے یا اس کی گنجائش ہے۔ میں خاکسار دعوت تبلیغ کی خدمت میں مودبانہ گزارش کرتا ہوں کہ دعوت کے کام اور اس کے موجودہ طریقہ کار کو تبدیل کرو، بے شک تبلیغ پیغمبروں کا مشن ہے۔ بشرطیکہ اسے ان خطوط پر کیا جائے۔ بے شک تبلیغی جماعتیں اپنے اعمال میں سچی اور مخلص ہیں، بلاشبہ دین کا کام ہورہا ہے، مگر اس میں مثبت تبدیلی وقت کا تقاضا ہے۔

.
تازہ ترین