• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا احمد لدھیانوی نے تشدد ،تکفیری نعرہ ترک،ریاست سے تعاون پر آمادگی ظاہر کردی

اسلام آباد(بلال ڈار+اعزازسید )کالعدم جماعت اہل سنت و الجماعت نے آئین پاکستان کے مطابق ریاست کے ساتھ تعاون پر آمادگی ظاہر کردی،جماعۃ الدعوۃ  اپنے آپ کو سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرکرانے کو تیار مگر جہاد سے دستبرداری سے انکار کردیا۔ جنگ کو معلوم ہوا کہ حافظ محمد احمد لدھیانوی نے تعاون کی یہ پیشکش پیر کے روز ایک بند کمرہ اجلاس میں کی جس میں عسکری اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین اور نیکٹا کے سابق اور موجودہ نمائندگان نے شرکت کی ۔اسی تقریب میں حافظ سعید کے بھائی اور جماعت الدعوة کے مرکزی رہنما حافظ مسعود  نے بھی جماعت الدعوة کو ایک مکمل سیاسی جماعت کا روپ دینے پر آمادگی ظاہر کی ۔تاہم جنگ کو دستیاب ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے  جہاد  ترک کرنے سے انکار کردیا ۔انہوں نے کہا کہ لشکر طیبہ اور جماعت الدعوة کا باہم کوئی تعلق نہیں ہے ۔ جماعت الدعوة ایک مکمل فلاحی ادارہ ہے ۔جو قومی دھارے میں شرکت کا خواہش مند ہے ۔ تاہم ورکنگ گروپ نے اس حوالے کہا کہ فیصلے کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے ۔دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لئے پارلیمنٹ اعلیٰ سطح کاکمیشن بنائے جو دہشت گردی کے اسباب کا ازالہ کرے اور ان لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے جو تشدد ترک کرنے پر آمادہ ہوں ، کمیشن کالعدم جماعتوں اور سخت گیر شدت پسند رہنمائوں کے حوالے سے کوئی اصولی پالیسی بنائے۔اس ورکنگ گروپ کا عنوان ”عسکری گروہوں کی بحالی اور واپسی“ تھا ،شرکاءمیں سابق آئی جی پنجاب طارق کھوسہ ، نیکٹا کے سابق مرکزی کو آرڈینیٹر طارق پرویز ،لیفٹیننٹ جنرل(ر) امجد شعیب ،لیفٹیننٹ جنرل (ر) مسعود عالم ، اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود ،سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخواہ خالد عزیز،نیکٹا کے اصغر چوہدری، افراسیاب خٹک ،برگیڈئیر (ر) محمد فیاض ،خورشید ندیم ،سید عارفین ایم ضیاءالدین ،کالعدم تنظیموں کے نمائندگان اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا شامل تھے ۔ورکنگ گروپ کا اہتمام پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے کیا تھا، مکالمہ کا مقصد ملک میں انتہا پسندی کا تدارک تھا ۔ورکنگ گروپ نے عسکری گروہوں کی تخلیق کی متنوع وجوہات کو جانچتے ہوئے یہ تجاویزدیں کہ پارلیمان قومی کمیشن بنائے جو حقائق کا ادراک کرتے ہوئے قومی مفاہمتی پالیسی بنائے ۔یہ کمیشن طے کرے کہ کالعدم تنظیموں کو کیسے قومی دھارے میں شامل کیا جائے اور ان پالیسیوں کا بھی جائزہ لے جس سے عسکریت پسندی کو ہوا مل رہی ہے ۔بغیر مقدمہ چلائے وسیع تر معافی کی تجویز کی مخالفت کی گئی ۔آئین سے ماورا کسی قسم کی واپسی یا بحالی قابل قبول نہیں ہے۔کمیشن کا بنیادی مقصد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے کے امور کاجائزہ لیناہو، نیکٹا کالعدم تنظیموں کی مانیٹرنگ کرے ۔ انسداد دہشت گردی کے قوانین کا ہر تین سال بعد جائزہ لیا جائے ۔ گروپ نے شدت پسندوں کی بحالی کے امکانات پر بھی غور کیا ۔ درایں اثنا جماعت اہل سنت و الجماعت کے زرائع کا کہنا ہے کہ مولانا لدھیانوی ملک میں امن کی بحالی چاہتے ہیں اور اسی لئے انہوں نے لشکر جھنگوی سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا ۔پاکستان میں فرقہ واریت سے ملک اور سی پیک دشمن قوتیں فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں اور جماعت اہل سنت یہ کسی صورت نہیں ہونے دے گی ۔اس لئے وہ تشدد اور تکفیر کا نعرہ ترک کرکے قومی سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں ۔
تازہ ترین