• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں عام انتخابات تو اگلے سال ہونے والے ہیں لیکن غیراعلانیہ انتخابی مہم ابھی سے شروع ہو گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں اوران کے لیڈروں نے ان صوبوں کا رخ کر لیا ہے جہاں وہ جیتنے کیلئے زیادہ محنت اور جوڑ توڑ کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ ن سندھ اور پیپلز پارٹی پنجاب میں زیادہ نشستیں حاصل نہیں کر سکی تھیں۔ تحریک انصاف جو ان انتخابات میں تیسری بڑی پارلیمانی پارٹی بن کر ابھری، پنجاب میں توقع سے زیادہ کامیاب رہی لیکن سندھ میں مسلم لیگ کی طرح اسے بھی کم پذیرائی ملی۔ پنجاب اور سندھ کی قومی اسمبلی میں نشستیں زیادہ ہیں اس لئے وفاق میں حکومت بنانے کیلئے تینوں پارٹیوں کی توجہ زیادہ تر انہی دو صوبوں پر مرکوز ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنی مہم کا آغاز حیدرآباد میں ورکرز کنونشن سے کیا جس میں انہوں نے جہاں سندھ کے اس دوسرے بڑے شہر میں ہیلتھ کارڈ اسکیم شروع کرنے، میٹرو بس چلانے، یونیورسٹی قائم کرنے اور بین الاقوامی ہوائی اڈہ بنانے کا اعلان کیا، وہاں پیپلزپارٹی کی گزشتہ وفاقی حکومت کو سندھ کی بیشتر محرومیوں کا ذمہ دار قرار دیا اور لوگوں سے کہا کہ وہ اس سے پوچھیں اس نے اپنے 5سالہ دور اقتدار میں اس صوبے اور ملک کیلئے کیا کیا؟ پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پنجاب میں کارکنوں کے کئی جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔ اب کمان ان کے والد سابق صدر آصف علی زرداری نے سنبھال لی ہے۔ لاہور میں پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے حکمران مسلم لیگ ن سے کئی سال پرانی سیاسی مفاہمت ختم کرتے ہوئے اب اینٹ کا جواب پتھر سے دینے اور جارحانہ اننگز کھیلنے کا اعلان کیا کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2013کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو سازش سے ہرایا گیا تھا۔ یہی الزام تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی بار بار دہرا چکے ہیں۔ اگرچہ جماعت اسلامی اور بعض دوسری پارٹیوں نے بھی جلسے جلوسوں کے ذریعے انتخابی مہم جیسا ماحول پیدا کر رکھا ہے لیکن تین بڑی پارلیمانی پارٹیوں کے جوش و خروش سے ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کا اعلان بس ہونے ہی والا ہے۔ اس مفروضے کی ایک بنیاد تو سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما لیکس کا متوقع فیصلہ ہے جو کسی وقت بھی آسکتا ہے اور کچھ لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اس کے نتیجے میں حکومت وقت سے پہلے الیکشن کرانے پر مجبور ہو جائے گی۔ دوسری وجہ بڑی پارٹیوں میں پنجاب اور سندھ کو سر کرنے کیلئے پیشگی صف بندی کا جنون ہے۔ کچھ جلسے خیبرپختونخوا میں بھی ہوئے ہیں لیکن بلوچستان جانے کی ضرورت تاحال کسی نے محسوس نہیں کیونکہ 342رکنی قومی اسمبلی میں تین مخصوص نشستوں کے علاوہ اس کی صرف 14سیٹیں ہیں۔ سیاسی جلسے جلوس جمہوریت کی روح، عوامی شعور کے فروغ اور کارکنوں کی تربیت کا موثر ذریعہ ہیںاگر سیاسی پارٹیوں نے وقت سے پہلے انتخابی اجتماعات شروع کر دیئے ہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن ان میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ، ذاتیات پر حملوں اور کردار کشی کا جو چلن دیکھا جا رہا ہے ، سنجیدہ فکر حلقوں کی رائے میں یہ مثبت سیاست کے تقاضوں کے منافی ہے۔ اس سے سیاسی پارٹیوں اور ان کے کارکنوں میں تلخیاں بڑھیں گی جو اصل انتخابی معرکے کو پرتشدد بنا سکتی ہیں۔ ایک دوسرے پر کرپشن، بدعنوانی،لوٹ مار اور اس طرح کے دوسرے الزامات اگر حقیقت پر مبنی ہوں تو ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ عدالتوں سے رجوع کرنا چاہئے اور مجرموں کو سزائیں دلانی چاہئیں ورنہ محض لذت تقریر کیلئے شائستگی کا دامن چھوڑنا، سننے والوں کو اشتعال دلانا اور حامیوں اور مخالفین کو باہم دست و گریبان کرنا کسی طور پر مناسب نہیں۔ ملک اس طرح کی محاذ آرائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، سیاسی پارٹیوں اور رہنمائوں کو چاہئے کہ ملک اس وقت جن حالات اور مسائل و مشکلات سے گزر رہا ہے ان کا حل بتائیں اور عوام کے سامنے اپنا پروگرام پیش کریںپارٹیوں کو یہ ضمانت بھی دینا ہو گی کہ وہ جو پروگرام پیش کریں ان پر عمل بھی کرائیں ورنہ اس نظام پر لوگوں کا اعتماد اٹھ سکتا ہے۔

.
تازہ ترین