• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ خبر یقیناً قابل تشویش ہے کہ انڈس سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یکم اپریل سے خریف کے سیزن میں ایک تہائی سے زیادہ پانی کی مقدار میں کمی آسکتی ہے جس کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کو جو بڑے زرعی سیکٹر ہیں، ان کے حصہ کے لحاظ سے کم پانی فراہم کیا جائے گا۔ ارسا کی تکنیکی کمیٹی کا اجلاس ڈائریکٹر آپریشن کی صدارت میں منعقدہوا جس میں پانی کی دستیابی اور دیگر معاملات کے حوالے سے بحث کے بعد معاملات کو حتمی شکل دی گئی۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ 35فیصد پانی کی قلت کا خدشتہ ظاہر کیا جارہا ہے جس کی بناء پر آئندہ خریف سیزن میںصرف 113ملین ایکڑ فٹ پانی دستیاب ہوگا۔ واضح رہے کہ ملک میں پہلے ہی پانی کی شدید قلت ہے جس میں تسلسل سے اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کے تدارک کے لئے اجلاس بلائے جاتے ہیں، وقتی گرمجوشی دکھائی دیتی ہے اس کے بعد تو جہ دیگر معاملات کی طرف مبذول ہوجاتی ہے اور یہ مسئلہ جوں کا توں رہتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہمارے پاس خریف کی فصل کے لئے پانی دستیاب نہیں ہے جس سے اس فصل کے متاثر ہونے کا خطرہ ہے ۔ خریف کی فصل کا متاثر ہونا کوئی معمولی بات نہیں اس کے نتیجے میں قحط کی صورتحال پیدا ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔ جس ملک کے حکمرانوں اور سیاسی رہنمائوں کی ترجیحات میں پانی کی دستیابی شامل ہی نہ ہو وہاں کے عوام یہ کیسے تصور کرسکتے ہیں کہ ان کو زندگی کی بنیادی ضروریات کو مطلوبہ مقدار میں فراہمی ہوسکیں گی۔ صورتحال کی سنگینی تقاضا کرتی ہے کہ پانی کی کمی پر قابو پانے کے لئے فوری اور مؤثر اقدامات کئے جائیں صرف اجلاس بلانے اور ماہرین کی آرا لینے سے صورتحال میں بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ ضروری ہےکہ ماہرین جو مشورے دیں ان پر نہ صرف عمل کیا جائے بلکہ اس بات کی بھی نگرانی کی جائے کہ متعلقہ محکمہ اس پر تندہی سے عملدرآمد بھی کرے۔

.
تازہ ترین