• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابہام تو کبھی بھی نہیں تھا۔ مملکت کی وجہ وجود ہر عام پاکستانی پر آج بھی روشن اور واضح۔ پراگندہ عناصر کی 70سال کی محنت رنگ لائی، سب کچھ خلط ملط، اُلجھ چکا۔ آج قوم کہاں کھڑی ہے؟ پاکستان کا مطلب کیا، معنی کی تلاش پھر سے شروع، مخصوص طبقہ خرافات میں ڈوب چکا۔ کیا یہ صحافتی ٹھگ، جرائم پیشہ نام نہاد دانشور، زہر آلود مورخ نئی تاریخ تشکیل دیں گے؟ 23مارچ کروفر سے منانے کے چند روز بعد ہی، وزیراعظم کا کراچی کو ’’پاکستان کی شہ رگ‘‘ کہنا تجاہل عارفانہ نہیں تو پھر معاندانہ ہی سمجھا جائے گا۔ محترم وزیراعظم! توجہ چاہئے، پاکستان کا مطلب کیا، پاکستان کی شہ رگ جیسے استعارے، خاکے، اشارے تقدس اور خاص اہمیت کے حامل ہیں، کسی کو پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ریزولوشن آف پاکستان میں متنازع ہے کیا جو متنازع بنا دیا گیا؟ اللہ کی مار اور پھٹکار، ہر اس پر جو حکیم الامت اور عظیم قائد کے احسان عظیم سے اُمت مسلمہ کو مرحوم رکھنے میں کوشاں، جتے نظر آتے ہیں۔ تحریک پاکستان کا جنرل نالج 11ستمبر کی تقریر تک محدود ہو چکا۔ اپنے مذموم مقاصد اور گھٹیا ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر بڑھا چڑھا کر بیان جاری ہیں۔ ذاتی طور پر جانتا ہوں ،وہی تو ہیں جو صدق دل سے قائد اعظم بارے بغض اور عناد رکھتے ہیں۔ میرا سوال، کیا عظیم قائد تحریک آزادی کاسارا عرصہ گنگ رہے، زبان بند رکھی، کوئی اور تقریر، بیان نہ دیا؟ نوسرباز کبھی نہیں بتائیں گے، ارشادات قائد سے کنی کترائیں گے۔ خواب، خیالات، تصورات، نظریات کی مالا پروتے رہے۔ بانی و نظریاتی جماعت مسلم لیگ، سالوں سے حکمرانوں کی باندی، دو قومی نظریہ کو جنم دینے والی آج نظریاتی طور پر بانجھ ہو چکی۔ اے قوم! کیسے کیسے لوگ ’’نظریاتی‘‘ مملکت کی رہنمائی کے لیے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر میدان عمل میں آچکے ہیں۔ دو قومی نظریہ کی کہانی، میٹرک پاس طلبہ کو ازبر رہتی تھی۔ آج گریجویٹس معمولی واقفیت نہیں رکھتے۔
1936-37کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بدترین شکست کا سامنا رہا۔ جواہر لال نہرو نے فوراً بیان دیا۔ ’’ہندوستان میں صرف دو قوتیں، ایک انگریز اور دوسری کانگریس‘‘۔ عظیم قائد کا بغیر توقف جواب، ’’ہندوستان میں تین قوتیں ہیں، انگریز، ہندو کانگریس اور مسلمان‘‘۔ مسلم لیگ کی شکست کے بعد پیرومرشد بمشکل 14مہینے زندہ رہے۔ ان 14مہینوں میں، آخری سانس تک قائداعظم پرخطوط کی بوچھاڑ رکھی۔ خطوط ہی تھے جو آنے والے دنوں کا نظریاتی نظام تنفس اور جسمانی خدوخال بنا گئے۔ قائداعظم کو لکھے گئے خطوط کو عظیم قائد نے حفاظت دی۔ 1941میں پیش لفظ کے ساتھ کتابچے کی صورت میں شائع کروا دیا۔ ویسے تو ہر خط کی ایک اپنی اہمیت، 28مئی کا خط من وعن پیش خدمت، اِن شاءاللہ ہشاش بشاش رکھے گا۔
بصیغہ راز
28 مئی،1937
مائی ڈیئر مسٹر جناح!
آپ کے خط کا بہت زیادہ شکریہ۔ خط بروقت موصول ہوا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ لیگی آئین اور پروگرام میں میری پیش کردہ ترامیم کوآپ اہمیت دیں گے۔ بلاشہ آپ ہندوستانی مسلمانوں کی اندوہناک حالت زار سے بخوبی واقف ہیں۔ لیگ کو بہرحال یہ فیصلہ کرنا ہے کہ بالائی طبقہ تک محدود رہنا ہے یا عام مسلمان، جو ابھی تک لیگ سے لاتعلق ہے، کو بھی حصہ بنانا ہے۔ یقیناً، ہر وہ سیاسی جماعت جو عام مسلمان کی ابتر حالت کو بہتر بنانے کا وصف نہیں رکھتی، عام مسلمان کی دلچسپی سے محروم رہے گی۔ بمطابق نیا آئین، بڑے عہدے بڑوں کی اولاد کو ملنا ہیں جبکہ چھوٹے عہدے بھی اگلی سطح کے رشتہ داروں تک محدود، دیگر کئی معاملات میں بھی عام مسلمان کی بہتری کا کہیں ساماں نہیں۔ دو وقت کی روٹی کا بندوبست محال ہو چکا۔ پچھلے دو سو سالوں سے مسلمانوں کی ابتری کا سفر ختم ہونے کو نہیں آرہا۔ عام مسلمان کا خیال کہ ہندو بنیا اور سرمایہ داری نظام ذمہ دار ہیں۔ فی الحال غیر ملکی آقائوں کو براہ راست ذمہ دار نہیں سمجھا جا رہا، لیکن وقت جلد آنے کو جب غیر ملکی حکمرانوں کو بھی الزام دیا جائے گا۔ خاطر جمع رکھیں، جواہر لال نہرو کی ’’ملحدانہ اشتراکیت‘‘ کو مسلمانوں میں کبھی بھی پذیرائی نہیں مل پائے گی۔ اب سوال یہ کہ مسلمانوں کی غربت کو کیسے ختم کیا جائے؟ مسلم لیگ کا تمام کا تمام مستقبل، اس سوال کے جواب کے ساتھ وابستہ ہے۔ تیقن، اگر لیگ نے اس مسئلے کا مؤثر حل نہ نکالا تو عام مسلمان مسلم لیگ کے قریب پھٹکنے کا نہیں۔ ہماری خوش نصیبی کہ مسئلے کا حل اسلامی قوانین کے نفاذ میں موجود ہے۔ مزید براں، قوانین کے ارتقا پر کام کرکے، دور حاضر کے تصورات کو بآسانی جگہ مل سکتی ہے۔ اسلامی قوانین پر عرق ریزی اور اس کے محتاط مطالعہ کے بعد اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قوانین کو سوچ سمجھ کر نافذ کیا گیا تو غربت کا خاتمہ یقینی رہے گا جبکہ اسلامی شریعت کی ترویج اور نفاذ کا تصور، آزاد ریاست یا ریاستوں کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ کئی سالوں کے مشاہدے پر محیط، دیانتدارانہ سوچ یہی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی روٹی کا مسئلہ اور ہندوستان کا دائمی امن، مسلمانوں کی آزاد ریاستوں کے قیام اور شریعت اسلامی کے نفاذ میں ہے، اگر مسلمان ریاستیں قائم نہ ہوئیں تو یقین جانیں ہندوستان خانہ جنگی کے حوالے رہے گا۔ درحقیقت ہندو مسلم فسادات کی صورت میں ایسی خانہ جنگی کئی دہائیوں سے جاری ہے، وقت کے ساتھ اس نے شدت پکڑنی ہے۔ مجھے تو یہ بھی خطرہ ہے مسلمان اکثریتی علاقوں کو فلسطین (1917کے بالفور کی پیش کردہ تجویز کی طرف اشارہ) جیسی صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑ جائے۔
ہندوستانی سیاست میں ’’الحاد اور نہرو اشتراکیت کا حلول‘‘ درحقیقت ہندوئوں کے اندر بھی باہمی فساد اور شدید خونریزی کا فارمولا ہو گا۔ سوشل ڈیموکریسی اور برہمنیت ایک دوسرے سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتے۔ بعینہٖ ایسے جیسے برہمنزم اور بدھ مت ایک دوسرے سے غیر مشابہہ اور غیر مماثل ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اشتراکیت کا آزاد ہندوستان میں مستقبل بدھ مت (اشارہ بدھ مت کے خاتمہ کی طرف) جیسا ہوگا۔ البتہ میرا یہ دعویٰ ضرور، اگر ہندوستان نے اشتراکیت یا سوشل ڈیمو کریسی کو قبول کیا تو ہندو مذہب اپنے وجود سے یکسر محروم ہو جائے گا۔ اسلام کے لئے سوشل ڈیمو کریسی اپنانا کوئی انقلابی قدم نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے۔ درحقیقت ہم اسلام کے بنیادی رہنما اصولوں کی طرف ہی واپس جائیں گے۔ جدید مسائل کا حل صرف اور صرف دین اسلام کے پاس ہے۔ ہندومت کے پاس ایسا کوئی حل سرے سے نہیں۔ جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں، اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہندوستان کی تقسیم نو انتہائی ضروری ہے۔ ایک یا ایک سے زیادہ مسلمان اکثریتی ریاستیں قائم کرنا ہوں گی۔
کیا آپ میرے ساتھ متفق نہیں کہ ایسے مطالبے کا وقت آن پہنچا ہے؟ میرے خیال میں نہرو کی ملحدانہ اشتراکیت کا بہترین توڑ بھی یہی ہے۔ میں نے آپ کے سامنے مافی الضمیر اس امید کے ساتھ پیش کیا کہ آپ میرے خیالات کو سنجیدگی سے پذیرائی بخشیں گے۔ اپنی تقاریر اور آنے والے دنوں میں لیگی سیشن میں میرے خیالات کو زیر بحث لائیں گے۔ ہندوستان کا مسلمان یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ تاریخ کے اس مشکل اور نازک موڑ پر آپ کی ذہانت، معاملہ فہمی بضرور کوئی حل اور راستہ ایجاد کرے گی۔
آپ کا مخلص
محمد اقبال
قائداعظم پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ (1951) لکھنے والا پہلا نوجوان ایک امریکی تھا۔ ولیم مٹز کی تحقیق کہ ’’اقبال کے خطوط نے ہی جناح کو ایمبیسڈر آف ہندو مسلم یونٹی سے چیمپئن آف دو قومی نظریہ بنایا۔ اقبال کے خطوط نہ صرف قائداعظم کو تصور پاکستان دے گئے، دو قومی نظریے کے خدوخال بنا گئے‘‘۔ بقول مٹز ’’مسلم لیگ سیشن میں جناح نے اقبال کا خط (27مئی) پیش کیا تو اسلامی شریعت کے نفاذ کی ضرورت پر انگلی سے دائرہ بنایا اور بتایا کہ اقبال مسئلے کی تہہ تک پہنچ گئے اور مسئلے کا حل دے گئے۔ اب ہمیں مسلمانوں کو بتانا ہوگا کہ اسلام خطرے میں ہے‘‘۔ اقبال کے خطوط اور فلسفہ سیاست نے ہی تو قائداعظم کے اندر ایک نئی سوچ کو راہ دی۔ 1937سے شروع ذہنی ارتقا نے مستقلاً ایسی کروٹ (Paradigm Shift) لی کہ زندگی کی آخری سانس تک رگ وپے میں سرایت رہی۔ بقول قائداعظم، ’’اقبال پولیٹکل تھیورسٹ اور آئیڈیلسٹ تھے جبکہ میں عملی جامہ پہنانے والا سیاست دان تھا۔ اقبال پولیٹکل تھنکر اور میں پولیٹکل پریکٹیشنر تھا‘‘، چنانچہ عظیم قائد نے 1942میں بنفس نفیس ان خطوط کو اپنی نگرانی میں کتابی صورت میں شائع کرایا۔ پیش لفظ میں خطوط کی افادیت کو اجاگر کیا۔ پیش لفظ میں ہی بتایا کہ ’’میرے اپنے خیالات بھی اسی منزل کے متلاشی، جانب گامزن تھے۔ مگر نسبتاً منتشر اور بکھرے ہوئے تھے۔ اقبال کے خطوط نے ان کو مربوط و مضبوط کیا‘‘۔ ابہام ہی نہیں، پاکستان کا مطلب، لا الٰہ الا اللہ ہی تو تھا۔ خدا کے واسطے کوئی اور مطلب نہ ڈھونڈیں۔ قوم کو گمراہ کرنا سعی لاحاصل رہے گا۔




.
تازہ ترین