• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہو سکتا ہے کہ اس ہفتے بدنامِ زمانہ پاناما انکشافات اپنی ابدی نیند سو جائیں، لیکن ایسا صرف آئینی اور قانونی طور پر ہوگا۔ سیاسی طور پر پاناما انکشافات کا جن بوتل میں بند نہیں ہو گا۔ چونکہ الیکشن کے موسم کا آغاز ہو چکا، چنانچہ فیصلہ، چاہے جو بھی ہو، قومی بیانیے کا تعین کر دے گا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ یہ مشق ہمیں کسی دانائی یا بصیرت سے فیضیاب نہیں کرے گی اور نہ اس سے فہم و فراست کے پھول کھل اُٹھیں گے، بلکہ اس کے بعد احمقانہ الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو ہر آن مزید کیچڑ میں لتھڑتا جائے گا۔
اس فیصلے میں نقصان اور فائدہ میں رہنے والوں کا علم پہلے سے ہی ہو چکا ہے۔ فیصلہ جو بھی ہو، اس کا فائدہ عمران خان کو ہو گا جبکہ نقصان نواز شریف کا ہو گا۔ پوچھا جانے والا سیاسی سوال صرف اتنا ہی کہ نواز شریف کا نقصان کتنا ہوگا اور عمران خان کتنا فائدہ اٹھا پائیںگے؟ توقع کے مطابق عمران خان تمام سیاسی دسترخوان سمیٹنا چاہتے ہیں۔ جب سے وہ سیاست میں آئے ہیں، اور اس بات کو کم و بیش دو عشرے گزر چکے ہیں، اُن کی پلاننگ کا محور یہی ہے۔ یقیناً یہ ایک طویل عرصہ ہے، اور دوسری طرف ہماری سیاسی یادداشت کی گرفت اس قدر کمزور کہ اس میں معلومات چکنی مچھلی کی طرح چند ثانیوں سے زیادہ دیر تک سمائی نہیں رکھتیں۔
عمران خان کو تائیدِ غیبی یا غیبی فرشتوں کا انتظار تھا، یا پھر وہ الہ دین کا جادو کا چراغ تلاش کر رہے تھے کہ وہ گھیر گھار کر وزارتِ عظمیٰ کا ہما اُن کے سر پر سایہ فگن کر دیں۔ کیمروں کے سامنے لگائے گئے پش اپ اور دکھائی جانے والی جارحانہ طبیعت کے برعکس وہ سیاسی میدان میں عامیانہ صلاحیتیں رکھنے والے ایک سست اور کاہل شخص ہیں۔ ہوم ورک کرنا اُن کی طبع نازک پر گراں ہے۔ اُنھوں نے خود کو حاصل مقبولیت کو کسی مرحلے پر بھی مربوط کرکے اپنے سیاسی سفر، جس کی منزل وزیراعظم ہائوس ہے، کی زادِ راہ نہیں بنایا۔ اُنھوں نے پارٹی کی تنظیم سازی کو اپنی ہی پارٹی کے مفاد پرستوں، جیسا کہ جہانگیر ترین، کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ اس کارکردگی کی وجہ سے اُن کو اپنی کامیابی کے لئے کسی نہ کسی معجزے کا انتظار تھا کہ کوئی ایسا سونامی اٹھے جو اُن کے تمام سیاسی حریفوں کو بحیرہ ہند میں دھکیل دے اور پھر ’’گلیاں ہوجان سونیاں وچ مرزا یار پھرے‘‘۔ اسی امید پر وہ جنرل مشرف کے دستر خوان پر بیٹھے۔ بعد میں جنرل ظہیر الاسلام سے بھی معاونت چاہی۔ اب اُ ن کی امیدوں کا تمام مرکز پاناما کیس کی سماعت کرنے والا کھوسہ بنچ ہے کہ وہ اُن کے سامنے سے تمام رکاوٹیں ہٹا دے۔
اس دوران وہ سمجھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بنچ نواز شریف کے مکمل سیاسی خاتمے کی حد تک نہ جائے، تو اس صورت میں عمران خان نے سیاسی پلان بنا لیا ہے کہ اگر نواز شریف زخمی ہوں لیکن مکمل گھائل نہ ہوں تو وہ موقع سے فائدہ اٹھا کر اُن پر سیاسی چاند ماری شروع کر دیں گے۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا مطالبہ بھی اس فیصلے کے نتیجے میں بننے والے ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش ہے۔ وہ اس فیصلے کے نتیجے میں جشن منا کر (اگر نوا زشریف سیاسی منظر سے ہٹ جاتے ہیں) خود کو سیاسی میدان کا واحد سرخیل ثابت کریں گے، اور اگر نواز شریف کو صرف زک پہنچتی ہے اور اُن کی مکمل سیاسی موت واقع نہیں ہوتی ہے تو پھر عمران خان احتجاج کا راستہ اپنا کر مرکزی دستے کی قیادت کرنے والا عظیم سیاسی رہنما ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس وقت اہم سوال یہ نہیں کہ فیصلہ عمران کو کتنا فائدہ پہنچائے گا (یہ فیصلہ سامنے آنے سے ہی پتہ چلے گا) بلکہ یہ اس کے نتیجے میں بننے والے ماحول کو وہ اپنے سیاسی مفاد کے سکوں میں کس قدر ڈھال پاتے ہیں۔ اُن کا ماضی اس ضمن میں کوئی حوصلہ افزا مثال (پی ٹی آئی کے حوالے سے) پیش نہیں کرتا کیونکہ وہ سامنے آنے والے مواقع کو گنوانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اُن کے توشے میں خود کو ایک منصوبہ ساز ثابت کرنے کے لئے صرف کئی عشروں پرانی کرکٹ کے میدانوں کی مثالیں ہی ملتی ہیں۔ اگر پاناما کیس کا فیصلہ عمران خان کو مکمل فائدہ نہ پہنچا سکا تو پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ سیاسی میدان میں آگے بڑھنے کے لئے کیا جدوجہد اپناتے ہیں؟ اُن کے پاس احتجاجی مظاہروں کا راستہ کھلا ہے، لیکن موجودہ حالات ایسے نہیں جو کوئی احتجاجی تحریک تمام ملکی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دے۔ دہشت گردی، سیکورٹی اور دفاع کے میدانوں میں پیش آنے والے واقعات کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ ریاست کو مفلوج کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی۔ اب اُن کے پاس مزید 126دن دستیاب نہیں کہ وہ اپنے مطالبات پورا ہونے تک دھرنا دے دیں۔ اُنہیں جو بھی فیصلہ کرنا ہے، فوری طور پر کرنا ہے۔ فیصلہ چند دن بھی پرانا ہوگیا تو زندگی اپنے معمول پر آجائے گی۔ اُنہیں فوری طور پر ہنگامہ خیز اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ایسا کر سکیں گے؟ میرا خیال ہے ہمیں اس کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ ہمیں بہت جلد پتہ چل جائے گا۔
دوسری طرف اس تمام معاملے میں نواز شریف کا صریحاً نقصان ہی نقصان ہے۔ وہ اپنے ماضی کے پیرِ تسمہ پا کی گرفت میں آگئے ہیں۔ پاناما کیس کی سماعت کے دوران وہ مسلسل ’’پس چہ بائید کرد‘‘ کی الجھن کا شکار رہے۔ اس الجھن نے ان کا ہمہ وقت تعاقب کیا ہے اور جائے مفر ندارد۔ اگر پاناما کیس کی سماعت کا آخری حصہ ہمارے لئے کوئی رہنما اشارے کرتا ہے تو تاثر ہے کہ بنچ اس بات پر قائل نہیں کہ شریف فیملی اپنے مالیاتی امور میں شفاف ہے۔ تاہم بنچ کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ یہ قانونی تشریح کو اس حد تک نہیں لے جاسکتا جہاں آئینی حوالہ غیر معانی ہو جائے۔ اس صورت میں تاثر جائے گا کہ جوڈیشل بازو استعمال کرتے ہوئے ایک آئینی وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا، اور پھر اس کے دور رس مضمرات ہوں گے۔ چنانچہ چاہے شریف مخالف کیمپ کتناہی ناپسند کرے، اس قدر جوڈیشل فعالیت درکار نہیں۔ نواز شریف کی امیدوں کا مرکز یہی سوچ ہے۔ لیکن اگر بنچ نواز شریف کو قصوروار نہ ہی قرار دے تو بھی فیصلے کا ہر لفظ اُن کے سیاسی جسم پر ہزاروں گھائو لگائے گا۔ تاثر ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف کا سیاسی قد کاٹھ کم ہو جائے گا۔ اگر حتمی فیصلہ دو ٹوک ہوا تو ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے سیاسی بساط سے باہر ہوجائیں۔



.
تازہ ترین