• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیش تحریر:استاد الاساتذہ مشتاق یوسفی نے ’’آب گُم‘‘ کے پیش لفظ کے لئے کیا عمدہ لفظ تخلیق کیا ’’پس و پیش لفظ!‘‘ ابن صفی اپنے ناولوں کے ابتدائیے کے لئے ’’پیشرس‘‘ کا استعمال کرتے تھے۔ کسی تحریر کے بعد اگر کوئی بات یاد آجائے تو اسے لکھنے کے لئے ’’پس تحریر‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مرشد عارف وقار سے پوچھا تو فرمانے لگے برخوردار اگر اِس لفظ کو post scriptکے معنوں میں استعمال کرنا ہے تو اُس صورت میں ’’پس‘‘ کے نیچے زیر نہیں ہو گی کیونکہ ایسے مرکبات میں زیر محذوف ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب اگر ہم ’’پس ِ آئینہ‘‘ میں زیر استعمال کریں گے تو اِس کا مطلب ہوگا آئینے کے پیچھے، جیسے ’’سرِ آئینہ میرا عکس ہے، پسِ آئینہ کوئی اور ہے!‘‘ اسی طرح بغیر زیر کے ’’پس منظر‘‘ ایک لفظ کے طور پر استعمال ہو گا یعنی backgroundکے معنوں میں اور ’’پس‘‘ کے نیچے زیر کے ساتھ یہ لفظ پسِ منظر بن جائے گا، مطلب منظر کے پیچھے گویا صرف مرکبات اضافی و توصیفی میں زیر استعمال ہوگی۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کس زمانے میں کیا بحث لے کر بیٹھ گیا، یہ ایس ایم ایس کا دور ہے، emojisکے ذریعے بات ہوتی ہے، the کو da اور yourکو urلکھا جاتا ہے اور میں مرکبات اضافی و توصیفی میں زیر زبر کی نزاکتیں گنوا رہا ہوں جبکہ اصل کالم کا کچھ پتہ نہیں، پیش تحریر ہی جاری ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ جس طرح بعض لوگ محض کلیجی کھانے کے شوق میں پورا بکرا ذبح کروا لیتے ہیں اسی طرح میں ’’کالم کی ’’دُم‘‘ پڑھوانے کے لئے آج زبردستی کالم لکھ رہا ہوں، پیش تحریر میں فقط اتنی بات ہی کہنا تھی جو بالآخر میں نے کہہ دی ہے، سو اب اصل کالم ملاحظہ ہو۔
اصل کالم:چاکلیٹ کا ڈبہ سامنے رکھا ہے، ایسی عمدہ پیکنگ کہ جی چاہ رہا ہے ڈبے سمیت کھا جاؤں، لیکن پھر ارادہ ترک کرکے صرف چاکلیٹ کھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سبحان اللہ۔ روح تک آ گئی ہے تاثیر چاکلیٹ کی۔ نہ جانے چاکلیٹ کا موجد کون تھا، آنے والی نسلیں اس کی احسان مند بھی رہیں گی اور صلواتیں بھی سنائیں گی۔ احسان مند اس لئے کہ چاکلیٹ سے زیادہ مزیدار چیز آج تک کوئی نہیں بنا سکا، صلواتیں اس لئے سنائیں گے کیونکہ ہر اچھی اور مزیدار چیز کی طرح یہ بھی موٹاپے میں اس تیزی سے اضافہ کرتی ہے کہ وزن کرنے والی سوئی تڑپتی ہوئی آگے کو نکل جاتی ہے۔ بہرکیف موضوع چاکلیٹ ہے نہ موٹاپا۔ موضوع یہ ہے کہ آج کل جو شے بھی کھا لیں یا جو سائنسی آلہ استعمال کر لیں پتہ چلتا ہے کہ اس میں موت چھپی ہوئی ہے۔ چاکلیٹ کو ہی لے لیں، اکثر ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ جو چاکلیٹ آپ کھاتے ہیں دراصل وہ فلاں جانور کی چربی پگھلانے کے بعد اس میں سیسہ ڈال کر بنائی جاتی ہے اور یوں کینسر کا باعث بنتی ہے۔ ایک ویڈیو کلپ میں نے دیکھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ہینڈ بیگ سے لے کر لپ اسٹک تک اور جوتوں سے لے کر ٹائی تک ہر چیز ایسے ایسے کیمیائی اجزا سے مل کر بنائی جاتی ہیں جن کا ایک ذرہ انسان کو اپاہج کرنے کیلئے کافی ہے (کچھ اسی قسم کی بات تھی) اور یہ کلپس تو ہم آئے روز دیکھتے ہیں جن میں موبائل فون کی برائیاں بیان کی جاتی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ صبح اٹھتے ہی فون دیکھنے سے جراثیم آنکھوں میں داخل ہو کر بینائی ختم کر دیتے ہیں، موبائل فون جیب میں رکھنے سے کینسر ہو جاتا ہے (کینسر سے کم کوئی بیماری نہیں ہوتی)، فون زیادہ دیر تک کان کو لگانے سے شعائیں دماغ میں داخل ہو کر برین سیل تباہ کر دیتی ہیں، زیادہ دیر تک موبائل فون ہاتھ میں پکڑنے سے ایسے جراثیم جسم میں داخل ہو جاتے ہیں جو سوائے موت کے اور کچھ نہیں بیچتے وغیرہ وغیرہ۔ لیجئے ایک اور کلپ دیکھئے۔ یہ صاحب بتا رہے ہیں کہ کوکنگ آئل میں کھانا پکانا مضر صحت ہے، برائلر بھی ہمارے لئے زہر ہے، سر درد کی گولیاں بھی قاتل ہیں، ڈپریشن کی دوا آپ کو اُس کا عادی بنا دیتی ہے مت کھائیں (گویا ڈپریشن میں ہی رہیں اور زندگی اجیرن کر لیں)، سبزیوں اور پھلوں پر کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ انہیں زہر آلود کر دیتا ہے جس سے انسان کا جسم پگھلنا شروع ہو جاتا ہے، مزید وغیرہ۔
ممکن ہے یہ سب باتیں ٹھیک ہوں، یہ تمام چیزیں اتنی ہی خطرناک ہوں جتنی بتائی جاتی ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم کیا کریں؟ کیا موبائل فون کا استعمال چھوڑ دیں؟ چاکلیٹ کھانا چھوڑ دیں؟ شیمپو استعمال کرنا چھوڑ دیں؟ ایک دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ اگر یہ تمام باتیں درست ہیں تو جس کثرت سے ہم سب لوگ ان اشیا کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اس حساب سے تو ہمارا ایک دن کے لئے بھی زندہ رہنا ممکن نہیں، اس کے باوجود لوگ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے انسان کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر سائنسی ایجاد کو مضر صحت کہنا فیشن ہے، جیسے گھڑے کو فریج پر خواہ مخواہ ترجیح دینا ہمیں پسند ہے، اسی طرح ہمیں ہر نئی چیز سے مبالغہ آرائی سے کام لے کر ڈرایا جاتا ہے۔ بے شک اِن اشیا کا استعمال خطرے سے خالی نہیں مگر خدا نے انسانی جسم میں حیرت انگیز صلاحیتیں رکھی ہیں، یہ اپنے آپ کو ہر قسم کے حالات کے مطابق ڈھال لیتا ہے اور پھر طب کے شعبے نے اس قدر ترقی کر لی ہے کہ جن بیماریوں کا پہلے علاج ممکن نہیں تھا وہ اب ممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ سو سال پہلے کا انسان برائلر نہیں کھاتا تھا مگر اس کے باوجود جلدی فوت ہو جاتا تھا ۔
کالم کی طویل دُم:ایک بے حد محترم اور محبت کرنے والے کالم نگار نے انہی صفحات پر چند روز قبل اپنے کالم میں تجویز دی کہ طالبان کو عام معافی دے دی جائے تو اِس کا فائدہ ہوگا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ اس سے بے شمار لوگوں کی دل آزاری ہوگی خاص طور سے اُن لوگوں کی جن کے عزیز بم دھماکوں میں مارے گئے مگر اس کے باوجود اس اقدام سے دہشت گردی میں کمی آئے گی، اس عام معافی کے نتیجے میں جو لوگ ہتھیار پھینک دیں انہیں ریاست کے قومی دھارے میں شامل کر لیا جائے جبکہ باقیوں کا سختی سے قلع قمع کر دیا جائے۔ کیسی عمدہ بات ہے، کیا ہی اچھا ہو اگر ریاست اس تجویز پر عمل کرے! اس کے لئے یوم پاکستان کی طرز پرایک تقریب کا اہتمام کیا جائے تو مناسب ہوگا جس میں صدر پاکستان موجود ہوں اور معافی پانے والوں کے ناموں کا اعلان کچھ یوں کیا جائےــ’’جناب الف بے جیم۔ آپ مون مارکیٹ بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں، آپ کے پلان کئے ہوئے اِن دھماکوں کے نتیجے میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ آپ نے داتا دربار، لکی مروت، مردان اور پشاور میں کئی کامیاب خودکش حملے کروائے جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، اس کے علاوہ آپ نے پاک فوج کے جوانوں کے سر کاٹ کر اُن سے فٹ بال کھیلنا سکھایا، بچو ں کے لئے کھلونا بم بنانے کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔ آپ کی خدمات کے اعتراف میں صدر پاکستان نے آپ کے لئے عام معافی کا اعلان کیا ہے!‘‘ ختم شد۔



.
تازہ ترین