• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخر ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدارت کے تقاضے اور امریکی سیاست کا ماحول اور جمہوری اقدار سمجھ میں آنے لگی ہیں۔ اپنے ’’اسمارٹ‘‘ ہونے اور خود کو سب کچھ جاننے اور اپنی کمپنی میں اپنے ذاتی فیصلوں کی مکمل تعمیل کے عادی ڈونلڈ ٹرمپ کو 70دن کی امریکی صدارت کے دوران ان کے جاری کردہ دو ’’ٹریول‘‘ بین آرڈرز امریکی عدالتوں نے نافذ ہونے سے روک دیئے تو ٹرمپ نے عدالتی احکامات پر جھنجھلا کر تنقید کر دی لیکن پھر امریکی کانگریس میں ری پبلکن اراکین نے بھی ’’اوباما ہیلتھ کیئر‘‘ کو ختم کر کے اس کی جگہ ’’ٹرمپ ہیلتھ کیئر‘‘ یعنی نئے بل کی منظوری کی حمایت سے انکار کر کے صدر ٹرمپ کے اس غرور اور اعتماد کو توڑ دیا جس کا اظہار وہ ایک عرصے سے کرتے چلے آ رہے تھے۔ انتخابی مہم اور انتخابی جیت کے دوران اپنی ہی ری پبلکن پارٹی کی قیادت کے ساتھ جو کچھ سلوک اور انداز اختیار کیا اور الیکشن جیتنے کے بعد کا رویّہ، انداز صدارت اور ٹوئٹر کے صدارتی فرمان و بیان کے ذریعے جو فضا قائم کر رکھی تھی وہ امریکی کانگریس میں ری پبلکن اراکین کیلئے بھی ناراضی کا باعث بن گئی کیونکہ آخرکار ان اراکین کو اپنے حلقۂ انتخاب کے ووٹروں کے سامنے جواب دہی بھی کرنا ہے۔ اوباما ہیلتھ کیئر کا خاتمہ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی ایجنڈا کا اہم ترین آئٹم تھا اور مسلم ممالک سے امریکہ آنے پر پابندی بھی شامل ایجنڈا تھا مگر 70دن میں ان دونوں امور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی پسپائی نے صدر ٹرمپ کی ساکھ اور امیج کو بہت بڑا جھٹکا دیا ہے۔ اس تمام صورتحال کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ بالآخر صدر ٹرمپ کو امریکی جمہوری نظام کے سامنے اپنا آمرانہ ذاتی رویّہ اور سیاسی مخالفین سے ہتک آمیز انداز کو ترک کر کے 27؍مارچ کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین یعنی ڈیموکریٹک اراکین کانگریس کے ساتھ بھی ’’ڈیل‘‘ کرنے کو تیار ہیں۔ یہ امریکہ کے جمہوری نظام کے سامنے صدر ٹرمپ کے ذاتی اور آمرانہ انداز صدارت کی پہلی اور بڑی شکست ہے۔ یہ ہمارے پاکستان کے حکمرانوں، اپوزیشن اور سیاست دانوں کیلئے بھی ایک سبق ہے اور جمہوری اقدار کیلئے ایک ترغیب بھی ہے۔ اوباما ہیلتھ کیئر اور اس کی تبدیلی یا ترمیم امریکہ میں ہمارے پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کا بھی براہ راست مسئلہ ہےجبکہ پاکستانی کمیونٹی کی مڈل کلاس اور محنت کش طبقہ کیلئے بھی براہ راست اور خاتمہ کی صورت میں منفی اثرات لئے ہوئے ہے۔ پاکستانی کمیونٹی کے بعض خاموش سرگرم افراد دیگر اقلیتوں اور اوباما کیئر کے حامیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں لیکن امریکہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی تنظیم ’’اپنا‘‘ کے موسم بہار کا جو اجلاس 24تا 26؍مارچ فلاڈلفیا میں ہوا، اس کے دو روزہ پروگراموں میں پاکستانی ثقافت، انٹرٹینمنٹ، ترقی نسواں، فیشن شو، چند امریکی سیاست دانوں کی آمد اور سابق نائب صدر جوزف بائیڈن کی بہن ویلری بائیڈن سے آداب مجلس و آداب ملاقات و گفتگو کے امریکی انداز بارے لیکچر اور دیگر پروگرام تو دیکھنے کو ملے البتہ اوباما کیئر کے میڈیکل کمیونٹی کے پیشے پر اثرات یا پاکستانی کمیونٹی پر ممکنہ اثرات کے موضوع پر سننے کو کچھ نہیں ملا، ویسے بھی ابھی تک ’’اپنا‘‘ کی تنظیم خود کو ایک پروفیشنل نان پرافٹ تنظیم قرار دے کرامریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کے دیگر طبقات سے فاصلے پر ہی رہی ہے۔ لہٰذا امریکہ میں پاکستانیوں کی عام کمیونٹی نے تو پاکستانیت، کلچر، زبان، خوراک اور امراض کی ماہرانہ تشخیص کے باعث اپنے علاقوں میں پاکستانی نژاد ڈاکٹرز کو سال ہا سال سے ترجیح دی ہے مگر ’’اپنا‘‘ نے خود کو پاکستانی کمیونٹی سے دور ہی رکھا ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال نیویارک میں پاکستانی اکثریتی آبادی کا علاقہ بروکلین ہے جہاں کم و بیش25سے زائد پاکستانی ڈاکٹرز کے کلینک اور گروپ پریکٹس کے دفاتر پاکستانی کمیونٹی کے مریضوں سے ہر روز بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ گردونواح کے تمام بڑے اسپتالوں نے نہ صرف کمیونٹی ریلیشن کیلئے پاکستانی عملہ بھی بھرتی کر رکھا ہے بلکہ ان اسپتالوں کے ڈائریکٹر اور انتظامیہ بھی پاکستانی کمیونٹی کی تقاریب، میلوں اور عید ملن میں شریک ہوتے اور مدعو کرتے رہتے ہیں۔ اس مثال کو اجاگر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ’’اپنا‘‘ کے بارے عام کمیونٹی میں تاثّر یہ ہے کہ یہ ایک مخصوص پیشہ کے حامل پاکستانی ڈاکٹرز کی ایک ایسی تنظیم ہے جو خود کو عام پاکستانی کمیونٹی سے الگ تھلگ رکھنے کی خواہش مند ہے اور دیگر پروفیشن کے پاکستانیوں سے اور محنت کش طبقہ سے بھی دور اورلاتعلّق ہے۔ میرا ’’اپنا‘‘ کے ساتھ کئی عشروں سے صحافیانہ تعلّق کا تجربہ بھی مجھے یہ کہنے پر مائل کرتا ہے کہ عام کمیونٹی کا یہ تاثّر بڑی حد تک درست ہے۔ فلاڈلفیا میں 24؍مارچ کے موسم بہار اجلاس میں اس مرتبہ مجھے ’’اپنا‘‘ کے بعض بانی ممبران 10سے زائد ’’اپنا‘‘کے سابق صدور، موجودہ صدر، ڈاکٹر ساجد چوہدری اور اگلے سال کیلئے منتخب صدر ڈاکٹر اقبال، ظفر حمید سے بھی گفتگو کے مواقع ملے۔ بعض سابق صدور ’’اپنا‘‘ نے پاکستانی کمیونٹی کے اس تاثّر کو یکسر مسترد کرتے ہوئے پاکستان میں ’’اپنا‘‘ کے قائم کردہ فلاحی پروجیکٹس اور مختلف المنائی ایسوسی ایشنز کے اپنی مادر درس گاہ کیلئے پروجیکٹس کا حوالہ دیا لیکن بعض سابق صدور نے اس بات کی تائید بھی کی کہ ’’اپنا‘‘ کو امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی سے قریب ہو کر ان کے تعاون سے امریکہ کے نظام میں اپنی اہمیت اور قوّت کو مضبوط بنانے کا کام بھی کرنا چاہئے۔ یہ بھی بالکل واضح رہے کہ پاکستانی کمیونٹی کے عام شخص کو اپنے ڈاکٹرز کی مالی خوشحالی وغیرہ سے کوئی مطلب نہیں، وہ صرف ان کی تعلیم و اعزازات و کامیابی پر فخر محسوس ضرور کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستانی کمیونٹی کی قیادت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امریکی نظام میں باعزت انداز میں کمیونٹی کی ترجمانی کرنے والے افراد کے ہاتھوں میں آئے، ورنہ امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی کی واضح اکثریت اپنے اپنے حال میں مگن، باوقار اور خوشحال ہے۔ میرے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ ’’اپنا‘‘ کے موجودہ صدر ڈاکٹر ساجد چودھری نے اپنی تقریر میں بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’’اپنا‘‘ اب آئندہ اپنے فلاحی کلاموں کا آغاز امریکہ میں بھی کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ ’’اپنا‘‘ اور مختلف میڈیکل درس گاہوں کی المنائی نے پاکستان میں کچھ فلاحی کام کئے ہیں اور امریکہ آنے والے پاکستانی میڈیکل گریجویٹس کیلئے کچھ سہولتیں فراہم کی ہیں لیکن اب تبدیل شدہ حالات میں وہ امریکہ میں بھی اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھانے کا پروگرام رکھتی ہے۔ پاکستان سے میڈیکل گریجویٹس کیلئے امریکی ویزا اور ریسیڈینسی کے امکانات نہ صرف پہلے سے کم اور مشکل ہوئے ہیں بلکہ پڑوسی ملکوں کے گریجویٹس کیلئے جو آسانیاں اور کشادگی پیدا کی گئی ہے وہ ’’اپنا‘‘ کیلئے چیلنج اور لمحۂ فکر بھی ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ موجودہ صدر ’’اپنا‘‘ امریکہ میں فلاحی کاموں کی نوید سنا رہے ہیں تو 2018ء کیلئے منتخب صدر نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ’’اپنا‘‘ کو ایک پروفیشنل تنظیم ہونے کے ساتھ ساتھ عام پاکستانی کمیونٹی سے پاکستانیت کے حوالے سے قربت اور فلاحی کاموں میں مزید وسعت کے ساتھ امریکی نظام میں امیج بنانے پر زور دیں گے۔



.
تازہ ترین