• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز شریف نے لوگوں کو پیپلز پارٹی سے حساب لینے کا مشورہ دیا ہے۔ شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کوچھ ارب ڈالر سوئس بنکوں سے واپس لانے اور کرپشن سے توبہ کرنے کا راستہ دکھایا ہے۔ عمران خان یقین رکھتے ہیں کہ پاناما کیس میں جن پاکستانی اربوں ڈالر کا ذکر موجود ہے وہ اُس دولت کو ایک دن ضرور پاکستان واپس لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
مجھ سے تاریخ کے فلسفی نے کہا تھا ”تم اگر ڈاکو بنے تو تمہیں گرفتار کر کے جیل کی دیواروں تک محدود کردیا جائے گا۔ ہاں اگر پوری قوم ڈاکو بن جائے تو سپر پاور بدل جائے گی۔ کل بھی بادشاہ وہی ہوتا تھا جس کے لشکری قتل وغارت میں ممتاز تھے۔ جنہیں دوسروں کا مال واسباب چھیننے کا ہنر آتا تھا۔ آج بھی صورتِ احوال وہی ہے۔ جس نے ایک شخص کی جیب کاٹی اس کی تھانے میں چھترول ہوئی جس نے پوری قوم کی جیب کاٹی۔ وہ واجب ِعزت و احترام ہوگیا۔ اس کے لئے سرخ قالین بچھائے جانے لگے۔ پروٹوکول کی گاڑیاں آگے پیچھے دوڑنے لگیں۔ لیکن تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ بے شک اُس کے اوراق بادشاہوں کی کہانیوں نے کالے کر رکھے ہیں۔ مسلسل ایک بڑی ”لوٹ“ کی داستان سطر در سطر موجود ہے لیکن تاریخ آخر کار ان سفاک قاتلوں اور بے رحم لٹیروں کے چہروں سے نقاب نوچ لیتی ہے۔ تاریخ صرف اُنہیں”بڑے لوگ“ تسلیم کرتی ہے جنہوں نے انسانیت کےلئے کچھ کیا۔ جوسچائی کے نام پر مر گئے۔ جنہوں نے آتی نسلوں کےلئے درختوں کی آبیاری کی۔ جنہوں نےقلم کی تابندگی سے زندگی کو سرفراز کیا۔ یہ ”بڑے لوگ“ کیسے ہوتے ہیں۔ یونان کا سب سے بڑا آدمی کون ہے۔ یہ سوال کبھی ڈلفی کی کاہنہ سے پوچھا گیا تھا تو اس نے سقراط کا نام لیا تھا اور جب سقراط سے کہا گیا کہ یہ کیا معمہ ہم جب ڈلفی کی کاہنہ سے پوچھتے ہیں کہ یونان کا سب سے بڑا اور سب سے عقلمند آدمی کون ہے تو وہ تمہارا نام لیتی ہے اور جب تم سے پوچھتے ہیں تو تم کہتے ہو میں کچھ نہیں جانتا تو سقراط نے کہا میں بھی سچ کہتا ہوں اور وہ بھی غلط نہیں کہتی، دراصل ہم سب کچھ نہیں جانتے، ہم سب جاہل ہیں تم میں اور مجھ میں صرف اتنا فرق ہے کہ تمہیں اپنی جہالت کاعلم نہیں اور میں اپنی جہالت کا عالم ہوں ساری دنیا اس بات پر متفق ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے آدمی ”محمدﷺ“ ہیں۔ وہ محمدؐ جنہوں نے زندگی کو موت پر سرفراز کرتے ہوئے یہ یادگار الفاظ فرمائے تھے ”اے خدا تُو گواہ رہ کہ جب محمدؐ تجھ سے ملنے آیا تو اس کے گھر میں درہم و دینار نہیں تھے۔ دنیا کے بڑے لوگوں میں یونانی شاعر ”ہومر“ کا نام آتا ہے جس نے ”ایلیاڈ“ اور ”اوڈیسی“ جیسی لازوال رزمیہ نظمیں لکھیں۔ قدیم ایرانی مفکر اور مذہبی پیشوا ”زرتشت“ کا نام آتا ہے۔ چینی فلاسفر ”کنفیوشس“ کا آتا ہے۔ اس فہرست میں مہاتما بدھ، افلاطون، غالب، امام غزالی، بوعلی سینا، وکٹر ہیوگو، ٹالسٹائی، ولیم شیکسپیئر، جلال الدین رومی، مارٹن لوتھر، امیر خسرو، جارج واشنگٹن، ابراہم لنکن اور انہی جیسے سینکڑوں لوگوں کے نام شامل ہیں مگر کسی سرمایہ دار کسی جاگیر دار کا نام نہیں موجود۔
پاکستان کی تاریخ سے گفت و شنید کی جائے تو قائداعظم اور علامہ اقبال کانام لیتی ہے اور بھی بہت سے نام پاکستان کی تاریخ میں ایسے ہیں جنہیں سورج نے اپنی زرتار شعاعوں سے آسمان کی بیکراںچھاتی پر ثبت کردیا ہے لیکن اُن میں کوئی لٹیرا شامل نہیں۔ کوئی چور موجود نہیں۔ کوئی قاتل نہیں دکھائی دیتا۔ وہاں کسی وزیر شذیر کی، گورنر شورنر کی کوئی جگہ نہیں۔ لیاقت علی خان موجود ہیں۔ فیض احمد فیض ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ احمد فراز ہیں۔ حمید نظامی ہیں۔ مولانا عبدالستار خان نیازی ہیں۔ عبدالرحمٰن چغتائی۔ مولانا مودودی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی ہیں۔ صادقین۔ شاہ احمد نورانی ہیں۔ نورجہاں ہیں۔ مفتی محمود ہیں۔ ایدھی ہیں، مہدی حسن، میر خلیل الرحمٰن ہیں۔ سلامت علی خان۔ ڈاکٹر عبدالسلام ہیں۔ خواجہ خورشید انور۔ سعادت حسن منٹو۔ زندہ شخصیات کی طرف دیکھا جائے تو ڈاکٹر قدیر خان ہیں۔ جنرل راحیل شریف ہیں۔ عمران خان ہیں۔ ملالہ یوسف زئی ہیں۔ ظفراقبال ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری ہیں۔ مجیب الرحمٰن شامی ہیں۔ جہانگیر خان۔ جاوید میانداد۔ مشتاق احمد یوسفی ہیں۔ عطاءالحق قاسمی ہیں۔ ہائے یہ کس ظالم کا نام پھر زبان پر آگیا ہے۔
قاسمی آج کل پی ٹی وی کے چیئرمین ہیں کچھ عرصہ پہلے وہ الحمرا آرٹ کونسل کے چیئرمین تھے جہاں انہوں نےادب اور آرٹ کےلئے ایک بڑی خدمت کی۔ انہیں گورنر پنجاب بننے کےلئے بھی کہا گیا تھا مگر سچ یہ ہے کہ سفارت، وزارت یا گورنرشپ کی ان کے سامنے کیا حیثیت ہے۔ یہ پاکستان ٹیلی وژن کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ وہ اس ادارے کے چیئرمین ہیں۔ پی ٹی وی کا چیئرمین کیا ہوتا ہے۔ کتنے چیئرمین آئے اور گئے۔ ان کی تین انگلیوں کی پکڑمیں جو بال پوائنٹ ہے وہ عہدوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ مال روڈ پر یہ جو الحمرا نام کیدو فرلانگ کی عمارت ہے اس میں کتنے آئے اور کتنے گئے کسی کو یاد بھی نہیں۔ اب بھی یقیناً کوئی الحمرا کا چیئرمین ہوگا۔ بلکہ مجھے تو پاکستان میں جتنے وزیراعظم گزرے ہیں ان سب کے نام بھی نہیں آتے۔ میں نے ایک کتاب1993 میں آپ کے فن و شخصیت پر لکھی تھی۔ وہ ایک یونیورسٹی کے نصاب میں صرف اس لئے شامل کرلی گئی کہ وہاں عطاالحق قاسمی کو ایک سبجیکٹ کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔ پاکستان کے کسی وزیراعظم کو بھی یہ اعزاز نصیب نہیں ہوسکتا۔ سچ یہی ہے کہ وہ اردو مزاح نگاری کی دنیا کے صدر بھی ہیں وزیراعظم بھی ہیں گورنر بھی ہیں۔ کیا یہ کم ہے کہ انہوں نے مال و دولت کے ذخائرجمع نہیں کئے۔ کیایہ کم ہے کہ آپ نے تمام عمر قلم کی حرمت کا خیال رکھا۔ کیا یہ کم ہے کہ آپ نے کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ کیا یہ کم ہے کہ انہوں نے جس کو سچ سمجھا وہی لکھا۔ آپ جانتے ہیں مجھے آپ کے سچ سے بے پناہ اختلاف ہے مگر یہ بھی کچھ کم نہیں کہ انہوں نے کبھی کسی کو مجبور نہیں کیا کہ وہ ان کے سچ کو سچ کہے۔ حتیٰ کہ مجھے بھی۔
بے شک انہوں نے پی ٹی وی کے مردہ جسم میں دوبارہ روح ڈال دی ہے۔ ان نے آنے سے پہلے سو فیصد پروڈکشن باہر سے خریدی جارہی تھی۔ پی ٹی وی کے ہزاروں ملازم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے مگر اس وقت ساٹھ فیصد سے زائد پروڈکشن پی ٹی وی میں ہورہی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ میری ان سے ایک درخواست ہے کہ پلیز پی ٹی وی کو صرف مسلم لیگ نون کی حکومت کے آرگن کے طور پر استعمال ہونے سے روکئے اور اس میں اپوزیشن کو بھی اتنا ہی وقت دیجئے جتنا حکومت کو دے رہے ہیں اور اس کام میں اگر چیئرمین شپ ختم ہوگئی تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہوگا۔



.
تازہ ترین