• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ سپر پاور سہی مگر وہ اس وقت معاشی طور پر تین کھرب ڈالر کا مقروض ہے اس نے افغانستان پر حملہ کرنےکیلئے تین کھرب پینتالیس ارب ڈالر کابجٹ منظور کیا تھا ۔ اور آج ہی کی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن کے ایک ریسرچ گروپ کے مطابق افغانستان میں امریکی کارروائی پر800ملین ڈالر سے ایک بلین ڈالر ماہانہ تک خرچ ہورہا ہے۔
نیویارک اور واشنگٹن میں حملہ کرنے والوں نے جس طرح امریکی معاشی، فوجی اور سائنس وٹیکنالوجی کے شعبہ میں اقوام عالم پر امریکہ کی برتری کے دعوے کو خاک میں ملا دیا تھا اور امریکہ کی فوجی اور معاشی برتری کی علامتوں کو نیست ونابود کرنے کیلئے جس اعلیٰ درجہ کی مہارت اور خامیوں ونقائص سے پاک بے مثال منصوبہ بندی کا ثبوت دیا اپنی کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے سپر پاورپر فوقیت رکھتی ہے امریکی سراغ رساں ساری دنیا کی تمام نقل وحرکت کی پل پل خبر رکھتے ہیں اور فوجی آپریشن ہو یا معاشی اور سفارتی امریکیوں کی منصوبہ بندی اور منصوبہ سازوں کی ذہانت اپنی مثال آپ ہے امریکہ پر حملوں کے ذریعے حملہ آوروں نے خود کو جدید دور کے ہر معیار پر خود کو علی الاعلان برتر ثابت کردیا خود امریکیوں کے سامنے اس برتری کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ سابق نائب صدر ڈک چینی نے کہا تھا کہ ’’ نیو یارک اور واشنگٹن پر ہونے والے حملے امریکی تاریخ کا ایک نہایت اہم موڑ ہیں اس سے یہ احساس ختم ہوگیا ہے کہ امریکہ بالکل محفوظ ہے اور اب تک ہم یہی سمجھتے آئے تھے کہ جنگ ہم سے دوسمندر پار ہے۔‘‘ سابق صدر کلنٹن نے اعتراف کیا تھا کہ ’’ اب دنیا میں کچھ لوگوں نے امریکہ کا نشانہ بنانا سیکھ لیا ہے اب امریکہ وہ نہیں رہ گیا جو11ستمبر سے پہلے تھا ‘‘۔
دراصل ہوا یوں کہ امریکہ نے سائنس وٹیکنالوجی اور معاشی میدان میں اپنی برتری کا استعمال انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے کرنے کے بجائے کمزور اقوام اور سوشلسٹ معاشیات رکھنے والے ملکوں کو مغلوب کرنے اور معاشی طور پر دنیا کو اپنا غلام بنانے کیلئے کیا ۔ پینٹاگون اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر صرف امریکہ کی برتری کی ہی علامات نہیں تھیں بلکہ بدترین قسم کے ظلم وجبر اور استحصال سرمایہ دارانہ نظام کی بھی علامتیں تھیں لیکن مخالفین نے بھی اپنی ذہانت اور منصوبہ بندی کا تعمیر کے بجائے تخریب کیلئے استعمال کرکے پوری انسانیت کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے آج یہ سوال دانشوروں کے ہر حلقہ میںاٹھ رہا ہے کہ مستقبل کی دنیا میں انسانی حقوق ، سماجی ترقی ، معاشی فروغ اور جمہوریت کی بقا جیسے موضوعات کی کیا عملی صورت گری ہوگی؟ سماجی معاشی اور نظریاتی کش مکش کے چوکھٹے میں کیا کوئی معنویت کے حامل ہونگے ؟ ان عصری مسائل کی کھوج اور حل کے بجائے امریکی سیاست دان ، انتظامیہ اور بعض دوسرے دانشور11 ستمبر2001کے حادثے کے بعد سے ان مسائل کی جگہ اب بین الاقوامی دہشت گردی کوسب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں امریکیوں کا خیال ہے کہ عالمی جنگوں سے ہٹ کر11ستمبر کونیو یارک اور واشنگٹن کے حادثوں میں مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے یہ واقعہ جس کے نتیجے میں امریکہ اور مغربی ممالک خوف ودہشت کی گرفت میں ہیں یہ حادثہ اس لئے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ ماڈرن تاریخ میں پہلی بار فاتح اقوام پر روایتی طور پر مفتوحہ لوگوں نے ہلا بول دیا ہے، دوسرے لفظوں میں صیاد خود صید کے ہاتھوں پھڑپھڑا رہا ہے۔
میرے حساب سے دہشت گردی کی تاریخ امریکہ میں کم ازکم 35سال پرانی ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ جب سابق صدر رونا لڈریگن بر سراقتدار آئے تو انہوں نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مرکزی نظریہ دنیا میں دہشت گردی کا خاتمہ ہے اس پالیسی کے تحت امریکہ نے جنوبی افریقہ اور وسطیٰ امریکہ کے ملک میں جوابی دہشت گردی کا بازار ایسا گرم کیاتھا کہ ہزاروں افراد1970اور1980کی دہائیوں میں امریکہ کے ہاتھوں موت کا شکار ہوئے۔ مشرق وسطیٰ میں جوکچھ اس زمانے سے ہورہا ہے اس کا حال توسب جانتے ہیں۔ امریکہ کی اس بلا اعلان دہشت گردی کی اس زمانے میں عالمی عدالت نے بھی مذمت کی تھی لیکن دہشت گردی کا لفظ امریکہ کی سرکاری دستاویزات میں بالکل اور ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے امریکہ یا اس کے حلیف ممالک کے خلاف کی جانے والی لفظی یا عملی کارروائی کو واشنگٹن دہشت گردی سمجھتا ہے، دہشت گردی یا جوابی دہشت کے اس خوف نے دنیا کے مستقبل کودھندلادیا ہے گلوبلائزیشن کا نعرہ امریکہ سے ہی بلند ہواتھا اور اس گلوبلائزیشن کافائدہ اور بعض حلقوں کے مطابق سب سے زیادہ فائدہ بھی امریکہ نے ہی اٹھایا تھا آج اس گلوبلائزیشن کا سب سے زیادہ خمیازہ بھی امریکہ کو ہی بھگتنا پڑرہا ہے مانا کہ دہشت گردی آج کے دور کاسب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن اس سے قانون اور نظم ونسق کے مسئلے کی طرح نہیں نمٹا جاسکتا آج اگر دنیا میں دہشت گردی ہے تو اس دہشت گردی کے اسباب اور وجوہات بھی موجود ہیں، اور یہ طے ہے کہ اسباب کوختم کئے بغیر دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جاسکتا اس لئے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے اس نئے ورلڈ آرڈر کی نہیں جسے امریکہ مسلط کرنا چاہتا تھا بلکہ اس نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت ہے جہاں عام انسانوں کوتمام انسانی حقوق حاصل ہوں،ظلم وجبر اور استحصال کا وجود نہ ہو، سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال انسانیت کی تباہی وبربادی کے بجائے انسانوں کی فلاح وبہبود کیلئے کیا جائے عسکری برتری کسی فرد معاشرہ یا ملک وقوم کے تحفظ کی ضمانت نہیں۔ اگرآج ان سب باتوں کاحل نہیں تلاش کیاگیا اور دہشت گردی سے پولیس مین کی طرح نمٹا گیاتو بہت ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس کی گنجائش ہی نہ بن پائے۔



.
تازہ ترین