• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے بہت سے قارئین نے توجہ دلائی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کس’’روشن خیالی‘‘ کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ میں نے عرض کیا وہ روشن خیالی نہیں ، پریشاں خیالی کے نرغے میں ہیں۔
وزیر اعظم ہمارےفکری رہنما نہیںکیونکہ دو گام پہ وہ خود سے بچھڑ جاتے ہیں۔ ہمارا وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کا پابند ہے، وہ دو قومی نظریہ کا پابند ہے، وہ قرار داد مقاصد کے ایک ایک فقرے اور ایک ایک لفظ کا پابند ہے، اگر وہ تحریک پاکستان کے تحریکی، قومی، تاریخی اور آئینی راستے سے سرمو انحراف کرے گا تو وہ کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔ عدالتی کٹہرے میں، عوامی کٹہرے میں اور تاریخ کے کٹہرے میں۔ وزیر اعظم کس کس کٹہرے میں کھڑے ہوں گے وہ تو پہلے ہی اپنی مالی کرپشن کی جوابدہی کے لئے عدالتی کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ ہولی کے موقع پر تالیاں بجوانے کے لئے ہمارے حکمرانوںنےلکھے لکھائے اور رٹے رٹائے دو چار جملے بول دئیے جن کے مفہوم سے یقیناً وہ آشنا نہ ہوں گے،کیونکہ فکری عرق ریزی اور کتاب بینی ان کا شیوہ نہیں، البتہ ان کی’’ روشن خیالی‘‘ سے شہ پاکر پاکستانی معاشرے میں باقی ماندہ دو چار سیکولر حضرات جو اپنی کمیں گاہوں میں دبکے ہوئے تھے سیکولر، سیکولر کاراگ الاپتے ہوئے باہر نکل آئے۔ایک صاحب اپنے کالم میں تحریر فرماتے ہیں کہ’’11اگست 1947کو بانی پاکستان نے شہریوں سے جو وعدہ کیا تھا، مارچ 1949میں اسے پس پشت ڈال دیا گیا تھا‘‘ موصوف کا اشارہ قرار داد مقاصد کی طرف ہے۔ 12مارچ 1949کو منظور ہونے والی قرار داد مقاصد پر تبصرہ کرتے ہوئے قائد اعظم کے دست راست اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کہا تھا ’’یہ ہمارے ملک کی تاریخ میں خود ملک کے قیام کے بعد دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ قرار داد میں وہ بنیادی اصول بیان کئے گئے تھے جن پر پاکستان کے ا ٓئندہ آئین کو استوار ہونا تھا۔ قرار داد میں اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ ملک میں اسلام کے بتائے ہوئے جمہوریت، آزادی، مساوات اور سماجی انصاف کے اصولوں پر پوری طرح عمل کیا جائے گا اور یہ کہ یہاں مسلمانوں کو اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور تقاضوں کے مطابق گزارنے کا موقع فراہم کیا جائے گا‘‘۔ ہمارے یہ سیکولر دوست بار بار قائد اعظم کی 11اگست والی تقاریر کا حوالہ دیتے ہیں جو ان کی علمی بے سروسامانی کی محکم دلیل ہے۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے ا سلامی ریاست کے تمام شہریوں کے لئے مذہبی آزادی کی بات کی ہے، اس میں سے سیکولرازم اور لادینیت کیسے برآمد ہوگئی۔دس نکات پر مشتمل یہ تقریر قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کی۔ اس تقریر میں جس نکتے پر قائد اعظم نے بہت زور دیا وہ تقریر کا دوسرا نکتہ ہے جس میں آپ نے رشوت ستانی اور کرپشن کو نوزائیدہ ریاست کے لئے زہر قاتل قرار دیا ہے جبکہ ساتویں نکتے میں مذہبی آزادی کی بات کی گئی ہے۔ سیکولر نواز دوست قانون کی حکمرانی، کرپشن اور رشوت ستانی کے خاتمےجیسے اہم نکات کا کبھی تذکرہ نہیں کرتے۔ لگتا یہ ہے کہ ہمارے ان دوستوں نے 11اگست والی تقریر کے مکمل متن کوکبھی نہیں پڑھا۔ قائد اعظم نے 1938سے لے کر 1948تک بلامبالغہ سینکڑوں تقاریر کیں۔ ان کی یہ تقاریر جواہر پارے اور اقوال زریں ہیں۔ ہر تقریر اسلام کے ساتھ جذباتی و فکری وابستگی کا شاہکار ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے 5 ستمبر 1938کو ہندوستان ٹائمز کو اپنے ایک بیان میں کہا ’’پاکستان کوئی نئی چیز نہیں یہ تو صدیوں سے موجود ہے، شمال مغرلی اور مشرقی ہند، مسلمانوں کا حقیقی ملک ہے، جہاں آج بھی 70فیصد سے زیادہ ان کی آبادی ہے، ان علاقوں میں ایسی آزاد اسلامی حکومت ہونی چاہئے ،جس میں مسلمان اپنے مذہب، اپنے کلچر اور اپنے قوانین کے مطابق زندگی گزار سکیں‘‘۔ ان دس سالوں میں قائد اعظم محمد علی جناح نے جب بھی بات کی تو اسلام کی عظمت کی بات کی، قرآن پاک کی حقانیت کی بات کی، جناب مصطفیٰ ؐ کی شان برحق کی بات کی اور ایک آئیڈیل اور ماڈل اسلامی ریاست کی بات کی۔ اس سے بڑی علمی بددیانتی اور کیا ہوگی کہ آپ اپنے الفاظ عظیم قائد کے منہ میں ڈالنے کا کار بے خیر کریں۔ ایک اورکالم نگار تحریر فرماتے ہیں کہ’’محمد علی جناح جو گوکھلے کے پیرواور نہایت سلجھے ہوئے آئینی جمہوریت پسند سیکولر سیاستدان تھے‘‘ آگے چل کر وہ پھر لکھتے ہیں۔ ’’یہاں تک کہ سیکولر جناح جو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر مانے جاتے تھے‘‘۔ محمد علی جناح نے کبھی اپنے آپ کو سیکولر نہیں کہا اور نہ ہی سیکولر ازم یا لبرل ازم کا پاکستان کے حوالے سے تذکرہ کیا۔ یہ سیکولر حضرات اور اِکا دُکا فریب خوردہ شاہین یہ سمجھتے ہیں کہ قائد اعظم ہندوئوں سے علیحدگی تو چاہتے تھے مگر وہ کسی اسلامی ریاست کے قیام کے خواہاں نہ تھے، اگر ایسا ہوتا تو پھر لاکھوں جانوں کی قربانی دینے اور آگ وخون کے سمندر کو تیر کر عبور کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ مطالبہ پاکستان کی اساس دو قومی نظریہ تھا کہ ہند میں مسلمان ایک اقلیت نہیں ایک قوم ہیں۔ یہ قوم متعصب اکثریتی ہندو جماعت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور اپنے اکثریتی علاقوں میں اپنی الگ ریاست اسلام کے اصولوں کے مطابق بنانا چاہتی ہے۔ نماز، روزے کی تو کسی قدر متحدہ ہند بھی میں آزادی تھی تبھی تو علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا؎
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں سمجھتا ہے کہ آزاد ہے اسلام
قائد اعظم نے جون 1945میں فرینڈ مسلم اسٹوڈنٹس کے نام اپنے پیغام میں کہا’’ہم نے اس قابل بننا ہے کہ ہم آزادی کی حفاظت کرسکیں اور اسلامی تصورات اور اصول کے مطابق زندگی بسر کرسکیں‘‘ اور پھر قیام پاکستان کے بعد1948میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ببانگ دہل ایک عظیم اسلامی ریاست کا اعلان کیا اور فرمایا ’’اگر خدا نے مجھے توفیق بخشی تو میں دنیا کو دکھادوں گا کہ پاکستان اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ساری دنیا کے لئے مشعل راہ ہے، پاکستان ایک تحریک کا نام ہے جس کا مقصد پاکستان کے مرکز سے اسلامی نظریہ حیات کا فروغ و اشاعت ہے‘‘۔ قائد اعظم نے یہ تقریر تو 11اگست 1947 والی تقریر کے بعد ارشاد فرمائی۔ کیا اب بھی قائد اعظم کے فرزند اسلام اور داعیٔ اسلامی نظریہ حیات ہونے میں کوئی شک و شبہ ہے۔ سیکولر ازم کے مٹھی بھر’’ فدائی اور شیدائی‘‘ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ قائد اعظم کی زندگی میں منافقت تو ناممکن، مصلحت اور مداہنت تک نہ تھی۔ سیکولر دوستوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ 11اگست والی تقریر سے سیکولر ازم کشید کرنے کا عمل بے فیض وہ اقلیتوں کے حقوق کے لئے انجام نہیں دے رہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقلیتی برادری کو اسلامی ریاست میں برابری کا جو حق دیا جاتا ہے ویسا کہیں اور ممکن نہیں۔ ہمارے یہ’’روشن خیال دوست‘‘ تو اسلامی ریاست کو سیکولر اس لئے بنانا چاہتے ہیں تاکہ اپنی بے لگام حسرتوں کے مزار پر روشن خیالی کا کوئی دیا جلاسکیں۔ سیکولر حضرات کے’’روشن خیال‘‘ ارمانوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قائداعظم کا اسلامی پاکستان ہے جس کے وہ داعی تھے۔



.
تازہ ترین