• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے نو برس قبل تک جب کسی بھی اخبار کا پہلا صفحہ کھولتے، ٹی وی کا چینل آن کرتے تو تمام نفاستوں سے بھرپور، سیاسی دانش و حاضر جوابی میں لاجواب بینظیر بھٹو بولتی دیکھی اور سنی جاتی۔ اسے کوئی ضرورت نہیں ہوتی ’’دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو سلام پہنچے‘‘ کہنے کی کہ ابھی اس کےدنوں میں اسکی سیاست و پارٹی نیلام گھر نہیں بنے تھے اور نہ ہی وہ اس کی میزبان طارق عزیز۔ یہ سیاست تھی کوئی طارق عزیز کا نیلام گھر شو تو تھا نہیں۔ شستہ انگریزی اور گلابی جاڑوں بھری اردو میں جواب دیتی ہوئی بینظیر بھٹو، بقول شخصے اپنے لمبے جبڑے کی حرکت پر اپنا دوپٹہ سر سے آگے پیچھے سرکاتی بولتی ہوئی۔ وہ جانتی تھی کہ کس سوال کا جواب کیا ہے اور پوچھنے والے بھی کہ وہ کس سے سوال کر رہے ہیں۔ اسکی طرز سیاست و حکومت سے کئی ہزار اختلا ف کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن وہ ایک معرکۃ الآرا، یگانہء روزگار خاتون، انسان،سیاستکار، اور لیڈر تھی۔ وہ واقعی قلعہ بند گيدڑ کی سو سال کی زندگی سے عوام کے درمیان ایک دن کی زندگی پر یقین رکھنے والی تھی۔ غریب و محکوم عوام۔ اسی لیے تو میرے دوست شاعر زی شان ساحل نے اس کیلئے کہا تھا:
وقت کے گزرنے پر تم جو بھول جائو گے
ہم تمہیں بتائیں گے بینظیر کیسی تھی
زندگی کے ماتھے پر وہ لکیر جیسی تھی
ظلم کے نشانے پر ایک تیر جیسی تھی
شہر کے غریبوں میں اک امیر جیسی تھی
بینظیر بھٹو بس بینظیر جیسی تھی
ذیشان ساحل بھی بس ذیشان ساحل تھا۔ ایک ہی اور فقط ذیشان ساحل، ایک شخص اور شاعر۔ اس پر پھر کبھی سہی۔
بیشک میری شاعری کی بینظیر اس بینظیر بھٹو سے مختلف ہے جس پر میں بڑے شوق سے تنقید کیا کرتا۔ وہ اپنے باپ سے بھی بہت مختلف تھی۔ یہ غلط ہے کہ وہ اپنے باپ جیسی تھی۔ بینظیر بھٹو بس بینظیر جیسی تھی۔ آپ بھٹو تلے بلوچستان کا موازنہ پکے قلعے سے نہیں کرسکتے۔ چہ جائیکہ اردو بولنے والی اور سندھی بولنے والی آبادیوں نے انکے دور حکومت میں بھی بہت مصائب برداشت کیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی اپنے آخری نام کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹادی گئی لیکن عوام الناس کی اجتماعی یادداشت سے نہیں مٹائی جا سکی۔ بالکل سارا جھگڑا ہے ہی بقول زیک ادیب میلان کندیرا یادداشت کا فراموشی کے ساتھ، آج کا (گزرے ہوئے) کل کے ساتھ۔۔ لیکن پاکستان جیسے سماجوں میں تو ہے ہی یہ سارا جھگڑا یادداشت اور احسان فراموشی کے درمیان۔ اب پاکستانی سیاست اور سماج میں کیسی کیسی صورتیں اور دماغ بیٹھے ہیں اخبارات کے صفحے اور ٹی وی چینلوں کے اسکرین ایسی متلی دلاتے ہیں کہ بس۔
وہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک کمانڈو ایکشن کے تحت قتل ہوئی (بقول ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہ جن کی تحریریں آج کل ممنوعہ بور ٹھہرائی گئی ہیں، کہ ’’ ظاہر ہے کہ یہ کوئی مقامی کمانڈروں کا فیصلہ تو نہیں ہوگا‘‘) سب نے دیکھا، ساری دنیا نے دیکھا ایک نوجوان اسے بالکل کمانڈو انداز میں پستول سے فائر کر رہا ہے جس سے اس کا دوپٹہ اڑتا ہے اور وہ گاڑی کے اندر گرجاتی ہے۔ وہ قتل ہوئی۔ گڑھی خدابخش میں دفن ہوئی۔بغیر پوسٹ مارٹم کروائے ہوئے۔ گویا جیسے جیکب آباد یا لاڑکانہ، گھوٹکی کی عورتیں کی جاتی ہیں کروائی جاتی ہیں۔
فوجی آمر مشرف تلے وزارت داخلہ میں قومی سیکورٹی کے انچارج بریگیڈیئر چیمہ نے کہا کہ بینظیر کی موت ان کی گاڑی کا ہینڈل سر میں لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ چلو۔ خون خاک نشیناں سندھ تھا رزق خاک ہوا۔
بینظیر بھٹو عوام کی شہید رانی بن گئی۔ اس دن مجھے ایک سندھی خاتون خواتین کے عالمی دن پر کہہ رہی تھیں ’’ہم نہ شہید بنے نہ رانی۔‘‘۔ وہ گڑھی خدابخش کے قبرستان میں دفن ہوئی۔ سندھ سمیت پاکستان کے اکثر عوام کی مقتول محبت کا تاج محل گڑھی خدابخش میں واقع ہے۔ اب اس میں مجھے کوئی خوش فہمی نہیں کہ بینظیر بھٹو کے ساتھ گڑھی خدابخش میں اس شام بھٹو کی پارٹی دفن ہوگئی۔ فل اسٹاپ۔
اس آرٹسٹ کے سر کی خیر جس نے بھی اس کا سیاسی وصیت نامہ لکھا۔ اسی وصیت نامے کے ساتھ بے نظیر بھٹو والی پیپلزپارٹی بینظیر کے ساتھ ہی ختم ہوئی۔ اب زرداری پیپلزپارٹی کا دور شروع ہوا۔ یہ واقعی پچاس سال اور اس سے اوپر کے پیٹے والے بچوں کی بے بی سٹنگ کا دور ہے۔ وہ لوگ جو اگر بے نظیر زندہ ہوتی تو شاید ان کو بے بی سٹنگ بھی نہ ملتی اب بےنظیر کھیلنے لگے۔ یہ سب کچھ اس دن بھی یاد آيا جب جیو ٹی وی پر مسٹر زرداری کا انٹرویو دیکھا جس میں وہ وہی ’’ہینڈل‘‘ والی بات کر رہے تھے جو فوجی آمر مشرف کے مشیر بریگیڈیئر چیمہ نے کہی تھی اور یہ بھی کہ اگر اس دن ناہید خان جو ہمیشہ بینظیر کے ساتھ ان کی گاڑی کے سن روف پر کھڑی ہوتی تھی اس دن گاڑی میں ہوتے ہوئے بھی کھڑی نہیں ہوئی۔ ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی سازش ہو، نہ بھی ہو لیکن یہ سوال بھی تو ہے نہ کہ وہ مرسیڈیز کار جو کسی بھی ہنگامی صورتحال حملے جیسی میں بینظیر کو اسی میں بٹھاکر نکل جانی تھی وہ ان تین اصحاب کو لے کر کیسے جائے واردات سے اڑ کر بلاول ہائوس اسلام آباد پہنچی؟۔
یہی سوال جو بار بار اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیشن نے بھی اٹھایا ہے۔ ویسے کمیشن کے سربراہ ہیرالڈ منرو نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ بار بار درخواست کے جنرل کیانی نے انٹرویو کیلئے بمشکل وقت دیا وہ بھی اس شرط پر کہ تحقیقاتی کمیشن کے اراکین پرائیویٹ گاڑی اور بغیر محافظوں کے آئیںگے۔
میں نے اقوام متحدہ میں بینظیر رپورٹ کے اجرا کے وقت بینظیر تحقیقاتی کمیشن کے اراکین کی پریس کانفرنس میں سوال پوچھا کہ ’’کیا بینظیر کے قتل میں اس کا کوئی قریبی ملوث ہے؟‘‘ تو انہوں نے اس امکان کو سختی سے رد کیا تھا اور کہا تھا کہ انہوں نے اس نکتے پر تفصیل سے کام کیا اور بشمول آصف علی زرداری کئی انٹرویو کیے لیکن انکو اسطرح کی کوئی گواہی نہیں ملی نہ ہی کوئی سراغ۔
لیکن پردہ گرتا ہے۔ اور بینظیر بینظیر کھیل شروع ہوتا ہے۔ بس سارے مل کر بولو واہ رے بازیگر تیری بازی۔ اب سچ مچ کے تو نہیں یہ لیڈر جھوٹ موٹ کی بے نظیر بنے ہوئے ہیں، آپ نے ٹی وی چینلوں پر دبئی سے واپس ہونیوالے اس شرجیل میمن کے استقبال کے مناظر دیکھے ہوں گے۔ مجھے بینظیر کے جلوس پتہ نہیں کیوں یاد آگئے۔ وہی ٹنڈو جام کا راستہ۔ لیکن وہ اشرف میمن جیسے سچے کھرے مست ملنگ (بیگم نصرت بٹھو کا پرائیویٹ سیکرٹری اور ہمارا دوست جو گڑھی خدا بخش کے راستے انیس سو بیاسی میں کار حادثے میں ہلاک ہوا تھا) اور یہ شرجیل میمن کا زمانہ ہے جس پر اربوں روپے لوٹنے کے الزامات ہیں۔ وہ ایک ایس یو وی گاڑی کی چھت پر حاجت مند سندھیوں کی بارات کے دولہے بنے ہوئے تھے، بینظیر کی طرح طلائی تاج بھی پہنایا گیا۔ اور اس شرجیل کے آگے آگے رینجرز تھی۔ کسی دل جلے نے کہا کہ وہ رینجرز جو پہلے ان کے پیچھے ہوتی تھی اب آگے آگے تھی۔ بہرحال بغیر کسی جرم کی ثابت ہونے تک ملزم مبینہ اور بے گناہ ہوتا ہے لیکن یہ حق ستر برس سے زائد عمر کے شریف النفس انسان پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف کو نہیں۔
کسی نے کہا شرجیل کی چودہ ہزار ایکڑ زمین پر جان خلاصی ہوئی ہے۔ ٹنڈو جام، مٹیاری، ٹنڈو الہیار کی زمینوں والے لوگ نہیں زمین چاہئے والے ہی طاقت کا اصل سرچشمہ ہیں! جو آپ سے پھر بینظیر، بینظیر کھیل رہے ہیں۔



.
تازہ ترین