• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے ایک اذیت پسند دوست ہیں جن کو ہر بری خبر اچھی معلوم ہوتی ہے چنانچہ وہ اسے ’’مذہبی فریضہ‘‘ سمجھ کر آگے پھیلاتے ہیں۔ انہیں میں ہر سال میٹرک کے رزلٹ کے دنوں میں خصوصاً سرگرم عمل دیکھتا ہوں۔ موصوف کی بورڈ میں متعلقہ کلرک سے واقفیت ہے چنانچہ رزلٹ نکلنے سے چند روز قبل وہ اپنے علاقے کے فیل ہونے والے طلبہ کی لسٹ اس سے حاصل کرتے ہیں اور پھر ان طلبہ کے گھر والوں کو پیشگی اطلاع دینے کیلئے گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اس اطلاع کے لئے وقت کا تعین بہت سوچ سمجھ کرکرتے ہیں یعنی رات کو تقریباً دو بجے کا وقت انہیں اس اطلاع کے لئے موزوں لگتا ہے کیونکہ اس وقت سب اہل خانہ سوئے ہوتے ہیں اور جب آدھی رات کو دروازہ مسلسل پیٹے جانے کے نتیجے میں کوئی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور اس کے پوری طرح بیدار ہونے سےپہلےاسے کوئی بری خبر سنائی جائے تو اسے ملنے والی اذیت کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ فیل ہونے والے طالبعلم کی گہری نیند کے دوران جب چھترول شروع ہوتی ہے اور اس کی چنگھاڑیں گلی میں کھڑے ہوئے اذیت پسند کے کانوں میں پڑتی ہیں ’’ملک صاحب! منڈا فیل ہو گیا جے‘‘ اس کے بعد ’’منڈے‘‘ کی چنگھاڑیں سنائی دینا شروع ہو جاتی ہیں!
موصوف لوگوں کو اذیت دینے کے لئے صرف یہی حربہ استعمال نہیں کرتے ان کے پاس لوگوں کے حوصلے پست کرنے کے اوربھی بہت سے نسخے ہیں جو اکثر کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً موصوف صبح گھر سے نکلتے ہیں اورشیخ صاحب کے گھر جا پہنچتے ہیں انہیں دیکھتے ہی اپنے چہرے پر سخت پریشانی کے آثار پیدا کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’’شیخ صاحب! خیر تو ہے، آپ کا رنگ پیلا پڑا ہوا ہے؟‘‘ شیخ صاحب جو اچھے خاصے خوشگوار موڈ میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے، اس وقت تو اس کی بات کو اہمیت نہیں دیتے اور کہتے ہیں ’’نہیں برادر آپ کو وہم ہوا ہے۔ میں الحمد للہ ٹھیک ٹھاک ہوں‘‘ مگر ان کے جاتے ہی وہ آئینے کے سامنے جاکھڑے ہوتے ہیں اور دائیں بائیں سے خود کو غور سے دیکھتے ہیں۔ بس اس کے بعد شیخ صاحب ہوتے ہیں اور ڈاکٹر صاحبان جو ان کے ڈبل نمونیے سے کینسر تک کے سارے ٹیسٹ اپنی لیبارٹری یا جہاں سے کمیشن طے ہو، اس لیبارٹری سے کرواتے ہیں اور اس کے نتیجے میںشیخ صاحب واقعی بیمار پڑ جاتے ہیں!
شہر میں کوئی بم دھماکہ ہو، ٹرین کاحادثہ ہوجائے، کوئی جہاز بحر الکاہل میں جاگرے، کوئی لڑکی اپنے آشنا کے ساتھ گھر سے بھاگ جائے، محلہ میں چارپائی پر بیٹھ کر ’’منگ پتا‘‘ کھیلنے والے جواری پکڑے جائیں، کوئی لڑکا ہیروئن پینا شروع کردے یا کسی کو ہیروئین سمجھنا شروع کردے، کسی گھر میں ڈاکہ پڑ جائے..... بس اس روز میر ےاس دوست کی عید ہو جاتی ہے۔ موصوف خوشی سے سارا دن ہوا میں تیرتے پھرتے ہیں اور پھر چشم زدن میں یہ خبر شہر کے ایک کونے سےدوسرے کونے تک پھیل جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ موصوف خبر کے ساتھ مرچ مسالا اس قدر لگا دیتے ہیں کہ خبر کہیں بہت پیچھے رہ جاتی ہے اور مرچ مسالاباقی رہ جاتا ہے۔ خصوصاً کسی گھر میں ڈاکے کی خبر سنتے ہیں تو پھر اس میں اپنی ذاتی خواہشات ملانا شروع کردیتے ہیں ’’اللہ خیر کرے، بہو بیٹیوں والا گھر ہے دعاکرو جی اللہ سب کی شرماں رکھے‘‘
میرے یہ دوست بیکار ہیں۔میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ شام کا اخبار نکالیں مگر انہوں نےمیرامشورہ نہیں مانا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’شام کے اخبارات سے میری اپنی ’’سرکولیشن‘‘ زیادہ ہے ۔ ان کا کام ایک دو گھنٹے کا ہے جبکہ میں چوبیس گھنٹے اسی ڈیوٹی پر ہوتا ہوں۔!‘‘ بہرحال میرے اس دوست کے دم سے محلے کی رونق قائم ہے اور یہ ہمارا ایگزاسٹ فین بھی ہے۔ ان کی وساطت سے ہم سب کی جبلی اذیت پسندی اور بے شمار کمینگیوں کی تسکین ہوتی رہتی ہے۔ ہم شریف لوگ ہیں۔ اپنے منہ سے یا عمل سے ایسی باتیں کریں تو ہماری شرافت اور وضعداری پر حرف آتا ہے۔ ہم تو قتل و غارت گری والی فلمیں بھی اس لئے دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کے اندر جو مولاجٹ بیٹھا ہوا ہے، ہم مہذب ہونے کی وجہ سے اسے باہر نہیں آنے دیتے۔ چنانچہ اسے پردہ اسکرین پر وہ سب حرکتیں کرتے دیکھ کر اپنے لاشعور کو مطمئن کردیتے ہیں جو حرکتیں ہم خودشعوری طور پر نہیں کرسکتے..... یہی وجہ ہے کہ بہت عرصہ قبل ایک فورم میں بڑے بڑے دانشوروں نے’’مولاجٹ‘‘ کا دفاع کیا تھا اور بتایا تھا کہ مولاجٹ آخر مولاجٹ کیوں بنا؟ انہوں نے اس کی ایک وجہ پولیس نیز عدالتی اور ملکی قوانین بھی بتائے، اس کے علاوہ ان دانشوروں نےمولاجٹ کی موجودگی کے اتنے جوازپیش کئے کہ اس دن سے اپنے بھلے مانس ہونے پر بھی دل میں کچھ شرمندگی سی محسوس ہونے لگتی ہے!



.
تازہ ترین